یہ واقعہ جو کسی نیوز پورٹل پر ہمارے سامنے سے گذرا جس کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق تو نہیں کی جاسکتی لیکن شام کے فوجیوں کے بارے میں ایک بار حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا بھی یہ بیان آچکا ہے کہ اسد کے فوجی عورت اور دولت کے رسیا ہیں ۔ بدقسمتی سے اب ظلم اور درندگی کا یہی کھیل خود حزب اللہ اور آیت اللہ دونوں مل کر کھیل رہے ہیں۔ ویسے دنیا کے تقریباً مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی آفت مصیبت فساد اور جنگ کے دوران عورتوں کو ہی سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ ہم دیکھ بھی چکے ہیں کہ کس طرح بوسنیا ، برما اور گجرات میں ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کی عصمت سے کھلواڑ کیا گیا جسے میڈیا نے دلچسپی لیکر نشربھی کیا اور لوگوں نے مزے لیکرسن بھی لیا لیکن دنیا کے کسی بھی مہذب اور سیکولر ادارے کو اتنی توفیق ہوتی ہے کہ وہ خاتون کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا حل تلاش کریں تاکہ پچھلے چالیس پچاس سالوں سے اسی ظلم اور درندگی کی وجہ سے نوجوانوں میں جو انتہا پسندی کو عروج حاصل ہوا ہے اس آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ کچھ عرصہ پہلے ہماری نظر سے ایک کتاب گذری جس کا نام تھا "صرف پانچ منٹ” یہ کتاب مریم نام کی ایک ایسی نوجوان دوشیزہ اور اس کی سہیلی کی المناک داستان پر مبنی ہے جسے شام کا ا?نجہانی حکمراں وحشی حافظ الاسد جو بشارالاسد کا باپ تھا اس کے فوجیوں نے ایک کالج سے یہ کہہ کر گرفتار کیا تھا کہ اسے پانچ منٹ میں پوچھ تاچھ کے بعد رہا کر دیا جائے گا ایک گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور پورے پانچ سال تک جیل میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بناتے رہے ۔اس لڑکی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک اخوانی نوجوان کی بہن تھی۔ حافظ الوحشی کے سپاہی اس لڑکی پر مسلسل تشدد کر رہے تھے تاکہ اس کا بھائی خود کو حاضر کردے۔ ظلم اور تشدد کے اس دور سے گذرتے ہوئے مریم کو تقریباً ڈیڑھ سال گذر گئے۔ مریم کے والد جو کہ بہت پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ایک دن اسے خبر ملی کہ اس کی ماں جو تنہا رشتہ داروں کی مدد سے گھر کو سنبھال رہی تھی اس کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ظالموں نے اتنا رحم کیا کہ اسے اس کی ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس وقت مریم کے صدمے کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وحشی کے سپاہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دس بارہ نوجوانوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہوئے لے جا رہے ہیں جس میں ایک مریم کا بھائی بھی تھا۔ مریم نے بھائی کی گرفتای کی اس خبر کو کسی طرح ماں سے چھپانے کی کوشس تو ضرور کی مگرجیل کے اہلکاروں سے یہ امید بے سود تھی انہوں نے بہت ہی فاتحانہ انداز میں ماں سے بتا ہی دیا کہ آج ہم نے تمہارے بیٹے کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ایک ماں پر اس حادثے کا کیا اثر پڑ سکتا ہے اس کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے اس ماں کو صرف چھ مہینے کے اندر یہ خبر بھی دے دی گئی کہ اس کے بیٹے کو فوجی عدالت کے ذریعے موت کی سزا سنا دی گئی ہے اور اسے کسی بھی وقت تختہ دار پر بھی چڑھا دیا جائے گا 150 ماں تو اپنے بیٹے اور بیٹی کا صدمہ لیکر اس دنیا سے رخصت ہو گئی مریم کو جب رہا کیا گیا تو جیل کے باہر اب اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا ۔
ہو سکتا ہے کہ مریم کی اس کہانی کو بھی کسی دہشت گرد ناول نگار نے کسی خاص مقصد کیلئے ایک افسانوی رنگ دے دیا ہو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر کہانی اپنیافسانوی انداز میں آنے کیلئے حقیقت کی محتاج ہوتی ہے ۔ مصر کی ایک خاتون دانشورزینب الغزالی کی شخصیت اور قیدوبند کے دوران جبروتشدد کی حقیقت سے پورا عالم اسلام واقف ہے ۔ان کا بھی قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے کچھ یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا تھا جن میں کچھ ایسے بچے اور خاندان بھی تھے جن کے باپ اور بھائی جمال ناصر کی جیلوں میں قید تھے یا انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ زینب الغزالی جمال ناصر کی سوشلسٹ طرز حکومت کی شدت سے مخالفت کیا کرتی تھیں۔ جمال ناصر نے جس طرح انہیں نو سال تک سلاخوں کے پیچھے ڈال کر جبروتشدد کے دور سے گزرا انہوں نے خود اپنی کتاب زنداں کے شب و روز میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو بیان کیا ہے جو اپنے آپ میں ظلم اور حیوانیت کی تاریخ میں ایک دستاویز ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جمال ناصر کے سپاہی نہ صرف انہیں الٹا لٹکا کر پیٹا کرتے بلکہ کبھی ایک کمرے میں بند کرکے ان کے اوپر خونخوار کتوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا اور پھر وہ کتوں کے حملوں سے نہ صرف لہو لہان ہو جاتیں بلکہ یہ کتے ان کے کپڑوں کو نوچ کرانہیں برہنہ بھی کر دیتے تھے ۔ اس طرح کے واقعات جدید جمہوری تہذیب اور عالمی ادارے اقوام متحدہ کے اپنے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں۔خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد پہلی بار مسلم ملکوں میں بھی دینداراور با عصمت خاتون کو جیلوں کے اندر قید کر کے تشدد سے گذارنے کی روایت شروع ہوئی اور مسلم دنیا کے دیگر حکمراں بھی خاموش رہے۔
بات اکیسویں صدی کی جدید تہذیب
جواب دیں