مسلمانوں کے خلاف دہشت کا نیا ہتھیار’’لوجہاد ‘‘

اسی کے ساتھ اب میڈیا نے دینی مدرسوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے،جو بھارت میں اسلام کے مضبوط قلعے ہیں اور فرقہ پرستوں کی نظر میں کھٹکتے رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ دینی مدرسے ان دنوں فرقہ پرستوں کے نشانے پر کیوں ہیں؟ انھیں بدنام کرنے کی سازشیں کیوں ہورہی ہیں؟ جہاں امن و مان کی تعلیم دی جاتی ہے اور جہاں انسانیت کا درس دیا جاتاہے ،اس مقدس مقام کو بدنام کرنے کے کئے جھوٹی افواہیں کیوں پھیلائی جاتی ہیں؟ اس الزام میں کتنی سچائی ہے کہ یہان بچوں کو ’’لوجہاد ‘‘کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور تربیت دے کر ہندو لرکیوں کو عشق کے جال میں پھنسانے کے لئے بھیجا جاتا ہے؟ کیا آج تک اس بات کو کوئی ثبوت ملا ہے؟ اگر نہیں ملا تو اس قسم کی باتیں کیوں پھیلائی جاتی ہیں جو مدرسوں کے تعلق سے غیر مسلموں کے اندر غلط تصورات پیدا کرنے والی ہوں؟ جی ہاں اس قسم کی باتیں ان دنوں پورے ملک میں پھیلانے کی سازش چل رہی ہے حالانکہ اب تک اس قسم کی باتوں کا کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ پہلے کیرل اور کرناٹک مین ایسی افواہیں منظم طور پر پھیلائی گئیں اور اب اترپردیش میں فرقہ پرست طاقتیں یہی کام کر رہی ہیں۔ یہاں ان کے نشانے پر دینی مدرسے ہیں اور سرکار کی کمزوری کے سبب ان کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ پولس اور اور حکومت و انتطامیہ ان سازشوں اور افواہوں کو روکنے سے قاصر ہیں ۔ اس کا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہاں کے مدرسوں کے بارے میں تو یہاں تک افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ ان میں بہار، بنگال اور آسام و جھارکھنڈ سے لڑکوں کو لاکر لوجہاد کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندووں میں اب یہ سوچ جہ پکڑ رہی ہے کہ چونکہ آئے دن مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کرتے ر ہتے ہیں لہٰذا ضرور مسلمانوں میں کوئی ایسی تحریک کام کر رہی ہے اور انھیں ٹریننگ دی جارہی ہے کہ وہ بن سنور کر کالجوں کے گیٹوں پر بائک لے کر کھڑے رہیں۔ مغربی اتر پردیش مں تو مسلم لڑکوں کے ساتھ ہندو لڑکیوں کی شادیاں رکوانے کے لئے باقاعدہ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل وغیرہ نے اپنے دفتر کھول رکھے ہیں۔ اگر انھیں کہیں پتہ چلتا ہے کہ کسی مسلمان لڑکے کے ساتھ کوئی ہندو لڑکی دیکھی گئی تو وہ انھیں پکڑ کر سزا دینے لگتے ہیں۔ یہاں’’بہن بیٹی بچاؤ سمیتی‘‘ بنا لی گئی ہے جس کا مقصد بہ ظاہر یہ ہے کہ ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکوں کے چنگل سے بچایا جائے مگر یہ یہاں مسلمانوں کے خلاف سماج مین زہر پھیلانے کا کام کر رہی ہے۔ مظفر نگر فسادات سے قبل بھی یہ تنظیم سرگرم تھی اور اس نے سنگھ کے مقامی لیڈروں کے ساتھ مل کر حالات خراب کرنے کا کام کیا تھا۔ 
اس میں کچھ بھی نیا نہیں 
جہاں ایک طرف یوپی میں لوجہاد کے نام پر ماحول بگاڑا جارہا ہے وہیں اس طرح کے جو بھی معاملے روشنی میں آرہے ہیں ، وہ جھوٹے ثابت ہور ہے ہیں۔ مسلم لڑکوں سے ہندو لڑکیوں کی شادی کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کے تاریخی شواہد موجود ہیں مگر اس کا جس طرح سے سیاست کے لئے استعمال ہورہا ہے وہ سماج کو بانٹنے کی کوشش ہے۔ اس کے لئے دینی مدرسے خاص ہندتو وادیوں کے نشانے پر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی لیڈران مختار عباس نقوی، سید شہنواز حسین اور آنجہانی سکندر بخت کس مدرسے کے پڑھے ہیں اور انھیں لوجہاد کی تربیت کہاں دی گئی تھی کہ انھوں نے ہندو عورتوں سے شادیاں کی ہیں؟ اصل میں اس کے پیچھے کسی قسم کی کوئی سازش نہیں رہتی ہے بلکہ مرد و عورت کے اختلاط کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جب مسلم لڑکیوں نے بھی ہندو لڑکوں سے شادیاں کی ہیں۔ ایسا اگرچہ کم ہوتا ہے مگر ہوتا ہے اور ملک کا قانون کسی کو کسی سے شادی کرنے سے نہیں روکتا ہے لہٰذا اسے نہ تو غیر قانونی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی دوبالغوں کی مرضی سے شادی میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جاسکتی ہے۔ 
جب الزام غلط ثابت ہوا۔۔
میرٹھ کے سراوا، کھرکھوداکا معاملہ بالکل تازہ ہے جہاں ایک لڑکی نے الزام لگایا تھا کہ اس کا اغوا کر مدرسے میں رکھا گیا اور پھر اس کے ساتھ گیینگ ریپ ہوا۔ اس لڑکی کا یہ بھی الزام تھا کہ اس کا زبردستی مذۃب تبدیل کرایا گیا اور اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ لڑکی کے اس الزام کے بعد سے پورے علاقے مین سنسی پھیل گئی ،ہنگامہ بپا ہو گیا اورہندتو وادی جماعتیں اپنے کام پر لگ گئیں۔ ہندووں کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوئی کہ ان کی ہبو بیٹیان محفوظ نہیں ہیں اور مسلمان اس ملک کے لئے سب سے خطرناک ہیں۔ حالانکہ جب پولس نے ملزموں کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کی تو حقیقت سامنے آئی اور پتہ چلا کہ لڑکی کا الزام غلط تھا۔ نہ تو اس کا اغوا ہوا تھا اور نہ ہی اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوا۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس کا مذہب تبدیل کرایا گیا ۔ یعنی پورا کا پورا معاملہ ہی فرضی پایا گیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ اس لڑکی کا معاشقہ کسی کلیم نامی شخص کے ساتھ چل رہا تھا جس سے وہ حاملہ ہوگئی تھی اور حمل ایسے مقام پر تھا کہ اسے آپریشن کراکر نکالنا پڑا۔ جب اس کے گھر ولوں نے آُپریشن کانشان دیکھا اور اس سے سوال پوچھا تو اس نے یہ تمام کہانیاں سنادیں۔ یہ کہانی جھوٹی سہی مگر جو افواہیں پھیل چلکی تھیں اور عوام کے دلوں میں جو خلج پیدا ہوچکی تھی اس کا کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس بہانے سے نہ صرف ،مدرسوں کو بدنام کیا گیا بلکہ علماء اور طلبہ کو بھی بدنام کیا گیا۔ اس معاملے کو لے کر مقامی علماء اور مذہب پسند مسلمانوں میں اس قدر تشویش ہے کہ انھوں نے یہاں کئی مٹینگیں کی اور ان غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی۔ جمعیۃ علماء ہند (ہاپوڑ) کی مٹینگ میں اس سلسلے میں علماء نے تقریریں کیں اور مدرسوں کی تاریخ پر بحث کرتے ہوئے یہ یاد لانے کی کوشش کی کہ مدرسوں نے ہر دور میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں اور ان کی تاریخ شاندار رہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنو کی خدمات کوخاص طور پر یاد کیا گیا مگر سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہندو برادران وطن کے دلوں میں جن غلط فہمیوں کو بٹھا دیا گیا ہے ان کا ازالہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ادھر میرٹھ میں قاضی شہر مولانا زین الراشدین کی قیادت میں علماء اور دیندار مسلمانوں کے ایک وفد نے ضلع مجسٹریٹ پنکج یادو سے مل کر شکایت کی کہ مدرسوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ تشویش کی بات ہے۔ انھوں نے فرقہ پرست قوتوں کی ان کوششوں کو رکوانے کی اپیل کی جو اس وقت جاری ہیں اور جن سے سبب حالات کا بگاڑا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پید ا کیا جارہا ہے اور ان کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ 
جب سچائی سامنے آگئی
ابھی میرٹھ کا معاملہ زیادہ پرانا نہیں ہوا ہے کہ اسی بیچ ایک نیا معاملہ فرقہ پرست لوگوں کے ہاتھ لگ گیا اور اسے بھی بہانہ بناکر امن و امان کی فضا کر بگاڑنے کی کوشش ہوئی۔ مظفر نگر میں ایک ۲۸ سالہ ہندو لڑکی کے خاندان نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ لڑکی کا اغوا کیا گیا، پھر اس کا ریپ ہوا اور اس کا مذہب بھی تبدیل کرایا گیا۔ یہ رپورٹ جولائی کے مہینے میں لکھوائی گئی تھی اور اس کے بعد اسے یہاں کی بھگوا تنظیمیں اسے لے کے علاقے کی فضا خراب کرنے میں لگی ہوئی تھیں مگر ایک مہینے کے بعد لڑکی نے کورٹ میں حاضر ہوکر جج کے سامنے بیان دیا کہ اس کا اغو انہیں کیا گیا تھا،بلکہ وہ خود ہی اپنی مرضی سے مقیم احمد نامی شخص کے ساتھ گئی تھی جس کے ساتھ اس کا معاشقہ چل رہا تھا۔ لڑکی کی جانب سے بیان کے بعد پولس نے اس معاملے کو بند کردیا ہے اور بھگواتنظیموں کو ایک بڑا جھٹکا لگا جو اسے فرقہ ورانہ رنگ دے کر فضا بگاڑنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔ 
سراوا،کھرکھودااور مظفر نگر کے دونوں معاملے اپنے آپ میں مثال ہیں کہ لوجہاد جیسا کوکچھ نہیں ہے بلکہ یہ سراسرعشق اور جنسیات سے جڑے معاملے ہیں جنھیں دینی مدرسوں یا مسلمانوں سے جوڑ کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ جھوٹی افواہیں تب ہی زیادہ سچ لگتی ہیں جب انھیں مدرسوں سے جوڑ دیا جائے اور بھگوا تنظیمیں اس معاملے میں لاثانی ہیں۔
محبت پر سیاست 
ان دنوں فرقہ پرستوں کی طرف سے باقاعدہ مہم چل رہی ہے کہ وہ مسلمانوں اور دینی مدرسوں کو بدنام کریں اور اس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں ایک معاملہ پہنچا تھا ، جس میں عرضی گزار نے کورٹ سے درخواست کی تھی کہ منظم طریقے سے ہندولڑکیوں کا مذہب تبدیل کرای اجارہا ہے اسے روکنے کو کورٹ حکم دے۔ اس پر سپریم کورٹ بھڑک اٹھا اور عرضی گذار کے ساتھ ساتھ اس کے وکیل کو بھی پھٹکار لگائی۔ کورٹ کی نظر میں یہ افواہ پھیلانے کی کوشش تھی۔ اب تک اس قسم کے جتنے بھی معاملے روشنی میں اٗآئے ہیں وہ جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہں پڑتا ہندتو وادی ہر حال میں مسلمانوں کو بدمام کرنے اور اس پر سیاست کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ آخر غیر مسلم لڑکیاں مسلم لڑکوں کے عشق میں کیوں گرفتار ہوتی ہیں اس بارے میں ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ شاید اس کے پیچھے فلموں کا کردار بھی ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق آج کل سلمان خان، شاہ رخ خاں اور عامر خاں کا زمانہ ہے اور جب کالج و اسکولوں مں پڑھنے ولای لڑکیا مسلم لڑکوں کو دیکھتی ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ ان کے خوابوں کا ہیرو بس

«
»

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

ہم کریں تو لو جہاد اور وہ کریں تو قومی یکجہتی۔۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے