مسلمانوں کے فکر وذہن میں تبدیلی کی ضرورت

اسی طرح گزشتہ چھ دہائیوں کی سرد وگرم فضا، گہرے اور دور رس نتائج کے حامل بڑے واقعات رہنماؤں کے شعور وذہن پر کوئی نتیجہ خیز اورمفید اثر نہ ڈال سکے بلکہ ہر بڑے واقعہ کے بعد ان کا شعور اور ذہن پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدگیوں اور الجھنوں میں گرفتار ہوگیا فکر اور فہم کے پرانے سانچوں کو تو عملی اور حقیقی شکلوں نے توڑ پھوڑ دیا لیکن کوئی نیا سانچہ تیار نہیں کیا جو ایک تشویشناک صورت حال ہے۔
ملک کے۲۰ کروڑ مسلمانوں کا یہ بے سمت سفر اور ایک عظیم مذہبی اکائی کے دانشوروں یا رہنماؤں کی جانب سے وقت کے تقاضوں سے انحراف کا اظہار اگرکچھ ثابت کرتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ان کے سامنے نہ کوئی واضح پروگرام ہے، نہ شعوری طور پر حالات سے مقابل ہونے کی صلاحیت، ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا نکل سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں جاکر پوری ملت ناگوا ر نتائج بلکہ قومی پیمانے پر نقصانات سے دوچار ہوجائے۔ 
مسلمانوں کی پہلی بدقسمتی تو یہی رہی ہے کہ وہ فطرتاً جذباتی ہیں، مختلف عوامل اور اسباب کی بدولت ان کے فکر وذہن پر خوابوں کی گرفت ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے، رجائیت پسندی نے انہیں عملی میدان میں سخت اور جان توڑ محنت سے جی چراتے رہنے پر مجبور کیا ہے اورنعروں نیز دلکش وعدوں پر بار بار کے تلخ تجربے کے بعد بھی نہایت آسانی کے ساتھ بھروسہ کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ، دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں جو قیادت میسر ہے وہ مفکروں اورمورخوں سے زیادہ شاعروں اور خیالی دنیا میں رہنے والے فلسفیوں سے متاثر معلوم ہوتی ہے۔
گزشتہ ۶۰ برس سے مسلمانوں کے رہنما، سیاست داں اور صحافی اگر ملت کو یہ سبق پڑھاتے رہیں کہ ’’بس دوڑتے رہو کہیں نہ کہیں پہونچ جاؤ گے‘‘ تو ان کی یہ دعوت ایک شاعرانہ مفروضہ سے کہاں مختلف ہے؟ جبکہ حالات میں برق رفتاری سے تبدیلیاں ہورہی ہیں کل کے اندازے آج غلط ثابت ہوچکے ہیں روایتی دشمن مزید سنگ دل اور پرانے بہی خواہ تلوار تانے کھڑے ہیں۔
تب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسی گھسے پٹے طریقہ پر چلتے رہیں جو اب سے ۶۰ برس قبل تک مفید اور کارآمد ثابت ہوتا رہا تھا، مسلمانوں کو زمانے کی تبدیلی کے تقاضوں اور ان تقاضوں کی پیچیدگیوں او رنزاکتوں کو بہر طورپر اپنے سامنے رکھنا ہوگا، نئی تازہ ہواؤں ، روشنی اور حقیقت کا سامنا کرنے کی طاقت پیدا کرکے ہی ان مسائل سے نپٹا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کو آج درپیش ہیں۔ یہ نازک وپیچیدہ کام ہے جسے اپنی علاحدہ تنظیمیں بناکر یا پہلے سے موجود مسلم جماعتوں کو ازسرنو کھڑا کرکے نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے تو وہی کام کرنا ہوگا جس کا مشورہ آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد نے دیا تھا کہ قومی جماعتوں میں مسلمان فعال کردار ادا کریں او ر ان کی پالیسی وپروگرام پر اثر انداز ہوں۔

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے