فلسطینی عوام ان پرڈھائے جانے والے مظالم اورقبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے جس طرح اسرائیل سے نبرد آزما ہیں اس کے خلاف عالمی سطح پر سوپر پاور ممالک اور دیگر انکے ہمنوا ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے فضائی حملے جن میں ایف 16جنگی طیاروں سے غزہ پرمیزائل برسائے گئے اس کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی مسلمانانِ عالم کے لئے لمحہ فکر ہے۔ فلسطینی عوام کی جانب سے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے اور بعض نوجوانوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کو دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی فلسطینی عوام کی جانب سے اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ فلسطینی عوام کو اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روکتی ہے اور یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں جانے کی اجازت دیتی ہے۔ اسرائیل کی اس پالیسی کے خلاف فلسطینی عوام احتجاج کرتے ہیں تو ان پر مظالم کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کی اس ظالمانہ کاررائیوں کے خلاف اصل میں اسے دہشت گرد قرار دیں۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہیکہ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف خاموشی انکی اسلام دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کو اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے اور ان ممالک میں مسلمانوں کے لئے عالیشان عباتگاہیں یعنی مساجد تعمیر کی گئیں ہیں۔ فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک آج جن حالات سے گزر رہے ہیں شائد اس سے قبل اسلامی تاریخ میں ایسے حالات نہ تھے ہوں۔ اسلامی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اسلامی پرچم کو سربلند رکھنے کے لئے بہادری و شجاعت کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو اسلامی تاریخ میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ آج فلسطینی مسلمان ہوں یا دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمان اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہیں تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ عالمِ اسلام کی دو تین دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان حکمرانوں کے درمیان کس طرح دشمنانِ اسلام نے نفرت و کدورت کے بیج بوئے اور آپس میں مسلمانوں کو لڑانے کی کوشش کیں جس میں انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی اور آج اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں دہشت گردی انتہاء کو پہنچ گئی ہے اور بعض ممالک میں قدم جمارہی ہے۔ عالم اسلام کے حکمرانوں نے گذشتہ دو تین دہائیوں کی تاریخ جائزہ لیں تو انہیں اپنی ناکامیوں کا پتہ چل جائے گا اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے بھی باخبر ہوجائیں گے ، ویسے مسلم حکمراں جانتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کس طرح انہیں اپنی دوہری پالیسی کے ذریعہ استعمال کررہے ہیں۔ آج اسرائیل کی بقا و سلامتی کے لئے امریکہ کو لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے پڑتے ہیں اور یہ تمام پیسہ کہاں سے آتا ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عالمِ اسلام میں دہشت گردی کے ماحول کو فروغ دیا گیا اور حکمرانوں کو اپنے اقتدار پر فائز رہنے کی ترغیب دینے کے لئے انہیں کروڑوں ڈالرز کے فوجی سازو سامان سپلائی کئے جارہے ہیں۔ ان ممالک کے فوجیوں کو فوجی تربیت کے بہانے اپنے فوجیوں کی تنخواہیں حاصل کرنے کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ اگر یہی کروڑوں ڈالرز عالم اسلام کے حکمراں ان غریب مسلمانوں پر خرچ کرتے تو آج یہی مسلمان دشمنانِ اسلام کے خلاف سینہ سپر ہوتے۔ اسلامی ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کو امداد پہنچائی جاتی ہے لیکن یہ امداد کتنی فلسطینیوں کو پہنچتی ہے اور کتنی اسرائیل ہڑپ لیتا ہے اس کی کوئی رپورٹ نہیں۔ کیونکہ جتنی بھی امداد فلسطین لے جائی جاتی ہے یہ تمام اسرائیل سے ہوتے ہوئے جاتی ہے ۔ ہندوستانی صدر جمہوریہ مسٹرپرنب مکرجی نے اپنے دورہ فلسطین اور اسرائیل کے موقع پر فلسطین کی القدس یونیورسٹی کے لئے کمپیوٹرس اور مواصلاتی آلات لے گئے ، اسرائیل نے صرف کمپیوٹرس لیجانے کی اجازت دی اور مواصلاتی آلات لے جانے سے روک دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی چیز لے جانے کی اجازت دیتا ہے چاہے جبکہ یہ مواصلاتی آلات اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ ایک طرف اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و بربریت ڈھائے ہوئے ہے تو دوسری جانب شام کے حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں سے روس شام میں اپنی فضائی کارروائی کے ذریعہ حملوں میں تیزی پیدا کردی ہے روسی صدر ولادی میر پوتن نے شام میں روسی فوجی آپریشن کے دفاع میں کہا کہ اس کا مقصد شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو مستحکم کرنا ہے۔روس اپنے فضائی حملو ں کے ذریعہ شامی عوام کوہلاک کررہا ہے تو دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ نے سی17طیاروں کے ذریعہ شام کے شمال مشرقی علاقوں میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے لئے 45ٹن سے زیادہ اسلحہ پہنچایاہے ۔ امریکی محکمہ دفاع پنٹگان کے مطابق اس اسلحہ میں چھوٹے ہتھیار، گولہ بارود اور گرینیڈ شامل ہیں۔گذشتہ دنوں یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ داعش کا سربراہ ابو بکر البغدادی کے قافلے پر عراقی فضائیہ نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ابوبکر البغدادی زخمی ہو گیا ہے۔ عراقی فوجی کمان کے مطابق اسی حملے میں داعش کا شعبہ تشہیر کا سربراہ ابو عمر الشیشانی کو ہلاک کر دیا گیا۔یہ حملہ اتوار کو عراق کے مغربی صوبہ انبار میں تب ہوا جب داعش کا سربراہ اہم کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کرنے والا تھا۔ تاہم صوبہ انبار کے مرکزی شہر رمادی کے میئر نے روس کے سرکاری خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ابو بکر البغدادی کے ساتھ بعد میں کیا ہوا، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ عراقی پائلٹوں نے دیکھا تھا کہ فضائی حملے کے بعد البغدادی کو زخمی حالات میں کہیں لے جایا گیااس خبر میں کتنی صداقت ہے کہا نہیں جاسکتا کیونکہ اس سے قبل ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی خبریں بھی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آچکی ہے۔
گذشتہ ہفتہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں کرد نواز جماعت (ایچ ڈی پی) کی امن ریلی میں خود کش بم دھماکوں کے نتیجہ 128افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں ہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے ان بم دھماکوں کا ذمہ دار دولت اسلامیہ کو بتایا ہے۔ ترکی میں امن ریالی میں بم دھماکے کے بعد حالات کشیدہ ہیں ۔ ترک حکومت نے ان بم دھماکوں کے بعد تین روز کے سوگ کا اعلان کیا ہے، ترکی کے حالات بھی اب خطرناک صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ ترکی میں آئندہ ماہ انتخابات ہونے والے ہیں کیونکہ حکمراں جماعت اس سے قبل منعقدہ انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کرسکی ، اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت بنانے کے لئے اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی اسی لئے آئندہ ماہ نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ عراق، شام ، ترکی ، یمن، سعودی عرب، کویت وغیرہ میں ہونے والے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے بعد اس کی ذمہ داری داعش قبول کررہی ہے یا پھر ان حملوں کا ذمہ دار داعش کو بتایا جارہا ہے اس میں کتنی صداقت ہے اس سلسلہ میں کوئی مصدقہ خبرنہیں۔ آج کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد تجزیہ نگاریہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی صف بندی کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ آج جس طرح مسلمان مسالک کی بنیاد پر بٹے ہوئے ہیں اور اسی کا فائدہ دشمنانِ اسلام اٹھارہے ہیں اگر مسلمان اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑی بد بختی ہوگی۔کاش عالمِ اسلام کے حکمراں اسے سمجھتے ہوئے اہم فیصلہ کرنے میں پہل کریں ورنہ ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ مزید بکھر جائے گا ۔(
جواب دیں