مسلمانوں کا اصل مرض نفاقِ باہمی کا مظاہرہ

خودمسلمانوں کی چودہ سو برس کی تاریخ اس حقیقت کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہے جس میں ان کے ولولہ انگیز عروج اور عبرت ناک زوال کے واقعات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک ان کے درمیان اتحاد واتفاق کا ماحول رہا انہوں نے اتنی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں کہ ساری دنیا محو حیرت رہ گئی لیکن جب سے ان کے مابین نفاق نمودار ہوا تو وہ ایسی ذلت و خواری میں گرفتار ہوئے کہ سارے عالم کے لئے تصویر عبرت تصور کئے جانے لگے۔
اس لئے اگر جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کا اصل مرض ان کی مفلوک الحالی، ترقی کی دوڑ میں پچھڑاپن اور دوسری کمزوریاں نہیں بلکہ ان میں اتفاق واتحاد کی کمی ہے جس کے ہوتے ہوئے محض اوپری تدابیر سے ان کے مرض کا علاج نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے صحیح تشخیص اور مسلسل علاج کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ جب مرض بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس کی جڑیں جسم کے ریشے ریشے میں داخل ہوجاتی ہیں تو ظاہری تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش بے سود ہوجاتی ہے۔ پھر ظاہری علامات اصل نہیں ہوا کرتیں بلکہ اس داخلی مرض کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جس کی جڑیں نہایت مضبوطی کے ساتھ جسم کے اندر پیوست ہوگئی ہیں اس لئے ایک ماہر طیب اوپری تکلیفوں کو نظر انداز کرکے ان داخلی اسباب وعلل کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے جو جسم کی ساری بے چینی اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔ 
مریض وطبیب کی یہ مثال صرف اشخاص کے جسمانی امراض کے علاج میں ہی پیش نظر نہیں رکھی جاتی بلکہ قوموں کے اجتماعی امراض اور ان کے اخلاقی و روحانی عیوب کو دور کرنے کے لئے بھی اختیار کرنا چاہئے اس اعتبار سے دیکھاجائے تو مسلمانوں کا حقیقی مرض ظاہری سے زیادہ باطنی ہے جس کو دور کرنے کے لئے انہیں اپنے ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح بھی کرنا ہوگی تاکہ ان کے اندر انکسار باہمی تواضع اور فروتنی کے جذبات پیداہوں ، دوسروں کی رائے کا احترام اور اپنی خامیوں پر نگاہ کرنے کی راہ پائے۔

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے