مسلمانوں کی اقتصادی حالت سنوارنے کیلئے ریزرویشن کیا ضروری ہے؟

عارف عزیز(بھوپال)

    مسلم قوم کی بڑی اکثریت غربت وافلاس کا شکار ہے اور وقت کے ساتھ اس کی پسماندگی بڑھتی جارہی ہے، اگر پوری ہندوستانی قو م کے ۰۴ فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں تو یقینا مسلمانوں میں یہ تناسب ۰۵ سے ۰۶ فیصد کے درمیان ہوگا مگر اس کا جائزہ لینے والا کوئی نہیں حالانکہ ان کی آبادیاں تک مفلوک الحالی کے ایسے مظاہرے پیش کرتی ہیں جو پڑوسی آبادیوں کی بہ نسبت ان کی غربت اور پسماندگی کی گواہ ہیں ملک کی انتظامیہ میں آج بھی مسلمانوں کی نمائندگی دوسروں سے کافی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اسی طرح ملک کی معیشت میں ان کا حصہ کافی سکڑ کر رہ گیا ہے، ایک اور حقیقت تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا ہے کیونکہ ملک میں رائج نظامِ تعلیم سے استفادہ بالخصوص فنِی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مسلمانوں کا برادرانِ وطن سے پیچھے ہونا اور اس سلسلے کا مسلسل پچھڑا پن ان کی معاشی پسماندگی کا بنیادی سبب ہے اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نظام تعلیم جسے خود مسلمان چلارہے ہیں یعنی ابتدائی مدارس یا مدارس عربیہ وہ ان کی اقتصادی حالت درست کرنے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتے۔ مسلم بچوں کے لئے ایسے تعلیمی اداروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، جو دینیات کے ساتھ جدید علوم وفنون کا بھی مرکز ہوں، ان کا معیار تعلیم کم از کم پبلک اسکولوں اور کرسچین اداروں کے مساوی ہو، ایسی معیاری درسگاہوں سے فارغ ہونے والے مسلم نشاۃ ثانیہ کے استحکام کے ساتھ انہیں پسماندگی کی دلدل سے نکال سکتے ہیں اور سائنٹفک اسلامی مزاج کی تشکیل میں معاون بن سکتے ہیں۔
    اس پس منظر میں بعض مفکرین کا خیال ہے کہ ”موجودہ ہندوستان کے مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ ان کی اقتصادی بدحالی دور کرنا ہے“ جس کے لئے مسلسل اور منصوبہ بند کوششیں تو ضرور عمل میں لائی جائیں مگر جن دو امور پر خصوصی توجہ دی جائے ان میں پہلا کام ایسی فنی تعلیم اور ہنر سکھانے کا اہتمام ہے جو ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو کارآمد بناکر باروزگار بناسکے جبکہ دوسرا کام ایڈمنسٹریشن، انجینئرنگ، میڈیسن، چارٹر اکاؤنٹ، سائنس اور تجارت کی اعلیٰ تعلیم میں مسلمان طلباء کی ہمت افزائی اور ان کو آگے بڑھانے کی تربیت وکوشش ہے۔
    پہلے کام کے تحت علاحدہ تربیتی مراکز قائم کئے جاسکتے ہیں یا دینی مدارس کی شاخ کے طور پر ایسی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جاسکتا ہے یا پھر مختلف اوقاف سے منسلک رفاہی اداروں، یتیم خانوں وغیرہ کے ساتھ بھی انہیں وابستہ کرکے چلایاجاسکتا ہے۔
    دوسرے کام کے ضمن میں باصلاحیت مسلم طلباء کو ان کے متعلقہ مضامین میں داخلہ کے امتحانات کے لئے تعلیم وتربیت سے لے کر خصوصی وظائف کی فراہمی تک بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اس ذیل میں تعلیم سے فارغ طلباء کو روزگار یا تجارت جیسے دوسرے شعبوں میں داخلے کے لئے رہبری وامداد کا کام بھی ہاتھ میں لینا شامل ہے۔ اسی نظم کا ایک حصہ مختلف مسابقتی امتحانات خاص طور پر ان کا سب سے اہم شعبہ ایڈمنسٹریٹو سروسیز سے متعلق مقابلہ کے امتحانات کی تیاری کرانا بھی ہے جیسا کہ نتائج نہایت امید افزاء برآمد ہونگے۔
    مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی دور کرنے کے لئے ایک کام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن گھریلو صنعتوں اور چھوٹے پیمانے کی دستکاریوں میں روایتی طو ر پر مسلمانوں کا ایک طبقہ مشغول ہے ان کی توسیع اور ترقی کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی جائے مثلاً بھوپال میں بٹوے، ٹوپی، رومال، بنیان اور موزوں کی صنعتوں کو فروغ دے کر ان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد خاص کر خواتین کی کھپت کی جاسکتی ہے یا دوسرے شہروں میں مقامی  رجحان کی مناسبت سے کام شروع کرائے جاسکتے ہیں تاکہ ان سے وابستہ لوگوں کی ترقی کے پہلو بہ پہلو نئے لوگوں کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوسکے اور اس کے لئے امدادِ باہمی سوسائٹیوں کے ساتھ ساتھ بینکوں سے قرض کی سہولتیں فراہم کرانے کا کام بھی ہوسکتا ہے۔
    مسلمانوں کی اقتصادیات سنوارنے کے مذکورہ تمام کاموں میں ریزرویشن جیسی ناقابل قبول رعایت کے بجائے خود اقدامیت اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے، ریزرویشن ایک سنہرا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن اس میں عمل کی رنگ آمیزی آج کی صورت حال میں ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔
    بعض لوگ مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کو ان کی اقتصادیات سنوارنے کا ایک شارٹکٹ طریقہ قرار دیتے ہیں لیکن اس کے گوناگوں خطرات پر ان کی نظر نہیں جاتی، خاص طور پر یہ پہلو وہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ یا تعلیم کے شعبہ میں ریزرویشن فراہم کرنے کے اعلان پر شمالی ہند کے اعلیٰ ذات ہندؤں میں جو شدید ردعمل سامنے آیا۔ مسلمانوں کو ریزرویشن کی فراہمی پر یہ مزید وسعت وشدت اختیار کرلے گا۔ اس سے جو سماجی تفریق پیدا ہوگی اس کا نقسان کسی اور کو نہیں مسلم اقلیت کو ہی بھگتنا پڑے گا اور یہ صورت حال کسی طرح ان مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوگی جو آج تک مختلف تعصبات اور تنگ نظری میں زندگی گزار رہے ہیں، پھر مسلمان جس نظام حیات کو مانتے ہیں یعنی اسلام، وہ ذات برادری یا سماجی تفریق کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ریزرویشن ملنے سے اس میں اضافہ کا امکان ہے جیساکہ پسماندہ طبقات میں بعض مسلم ذاتوں کو شامل کرنے سے ان کے اور اعلیٰ ذات کے مسلمانوں میں تفریق بلکہ کشیدگی کی علامات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس لئے ریزرویشن سے زیادہ ضروری مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے۔ یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ایک سچائی ہے کہ موجودہ آئینی ڈھانچہ میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینا آسان نہیں، اس مقصد کے حصول کیلئے آئین میں ترمیم ضروری ہوگی اور اس ترمیم کی مخالفت کرنے والے بہت زیادہ ہیں اس لئے یہ کام بظاہر نہایت دشوار بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ تمام دقتوں اور الجھنوں کے باوجود سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ریزرویشن کا مسئلہ باربار کیوں اٹھاتی ہیں؟ کہیں اس کا مقصد مسلمانوں کو بے وقوف بناکر اپنی طرف راغب کرنا اور ان کے ووٹ پر قبضہ کرنا تو نہیں، اگر ہے تو ایسے عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنا کہاں کی دانشمندی ہے۔
    آج مسلم قوم کا حال یہ ہے کہ اس کی اکثریت کو اپنے دستوری حقوق کا بھی اندازہ نہیں ریزرویشن بفرضِ محال مل بھی جائے تو اس پر عمل درآمد کی ضمانت کون دے گا اگر عمل درآمد ہو بھی جائے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی حالت سدھرنے لگے تو انتظامیہ کی تنگ نظری کو مسلم اقلیت برداشت کیسے کرے گی لہذا آج کا ایک اہم کام یہ بھی کہ اس ذہنیت کو بدلنے پر توجہ دی جائے اور اس کے ساتھ ہی آئینی تحفظات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے کام ہو، مسلم قوم جو اس گئی گزری حالت میں بھی وسائل سے محروم نہیں، اپنے وسائل کو خود مجتمع کرے، مقبوضہ وقفیہ املاک کو حکومت کے تعاون سے بازیاب کرائے، انہیں تعلیم وروزگار کے لئے استعمال کرے اور ان تمام کاموں میں اپنے اور پرائے دانشوروں نیز سیاستدانوں کا سرگرم تعاون حاصل کرے، ملک میں تبدیل شدہ معیشت اور اس کی کھلی فضا کے موجودہ عہد میں ملٹی نیشنل تجارتی وصنعتی اداروں میں مذہب، ذات، برادری کا لحاظ کئے بغیر اعلیٰ تعلیم اور پروفیشنل مہارتوں کی بنیاد پر ملازمتیں دی جارہی ہیں۔
    دوسری طرف سرکاری ملازمتوں کا دائرہ سکڑ رہا ہے جو موجود ہیں ان میں پہلے سے ریزرویشن ہے، اگر مسلم نوجوانوں کی تربیت کرکے ان کی صلاحیتوں کو بیدار کردیا جائے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی ان کے لئے مواقع بڑھ سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے دین ودنیا کے امتزاج سے ایک کردار ایک وحدت، ایک ہدف کا تعین ضروری ہے او رجب تک یہ کام نہ ہوں گے ہندوستان میں مسلمانوں کے شام وسحر تبدیل نہیں ہوسکتے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

12دسمبر2020
 

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے