مشرف شمسی زیادہ تر لوگوں کی رائے ہے کہ 2014 کے بعد ملک کی قومی میڈیا کا کریکٹر بدل گیا ہے ۔صبح شام ٹی وی چینل ہندو مسلم کرتا رہتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ایک حکمت عملی کے تحت ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کیا جاتا […]
زیادہ تر لوگوں کی رائے ہے کہ 2014 کے بعد ملک کی قومی میڈیا کا کریکٹر بدل گیا ہے ۔صبح شام ٹی وی چینل ہندو مسلم کرتا رہتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ایک حکمت عملی کے تحت ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کیا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک ایجنڈے کے تحت آج جس طرح کا نفرتی ماحول بنایا جاتا ہے ایسا ہی ماحول 2014 کے پہلے بھی نہیں بنایا جاتا تھا ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ٹی وی چینلوں کا پروپیگنڈہ نظر نہیں آتا تھا اور اب نظر آ رہا ہے۔کانگریس یا دوسری سیکولر پارٹیاں بی جے پی کے ہندوتوا کے پروپیگنڈہ کو جاننے اور سمجھنے کے باوجود کاؤنٹر نہیں کر پاتی تھی یا جان بوجھ کر کرتی نہیں تھی ۔یاد کریں اٹل سرکار کے جانے کے بعد پورے ملک میں بم دھماکے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔دھماکہ کہیں بھی ہو مرنے والوں میں صرف مسلمان ہی کیوں نہیں ہو لیکن دھماکے کے پانچ منٹ بعد این ڈی ٹی وی سمیت سبھی چینلوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ دھماکہ کسی مسلم نام والی تنظیم نے کیا ہے اور یہ سبھی خبر ذرائع کے حوالے سے چلائی جاتی تھی ۔ہر ایک دھماکہ کے بعد گرفتاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا ۔مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں سے پورے ملک کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا رہتا تھا ۔ہیمنت کرکرے نے اُن بم دھماکے کے راز افشاں کرنے کی کوشش کی لیکن ممبئی حملے میں اُنکی بھی موت ہو گئی ۔اسکے باوجود بم دھماکے میں گرفتار زیادہ تر مسلم نوجوان کئی سال جیل کی سلاخوں میں گزارنے کے بعد عدالت سے رہا ہو چکے ہیں ۔حالانکہ اُنھیں بم دھماکے میں کرنل پروہت اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا بھی نام آئے ہیں اور ابھی اجمیر بم دھماکہ میں آر ایس ایس کے ایک کار کن کو سزا ہوئی ہے ۔لیکن یو پی اے کی سرکار ہونے کے باوجود پورے ملک میں مسلمانوں کے نام پر دہشت کا ماحول بنائی گئی تھی اور اس وقت کی سرکار کچھ کرنے کے بجائے کونے میں دبکی بیٹھی ہوئی رہتی تھی ۔چینلوں پر مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ خبریں چلائی جاتی تھیں اور اس ملک کے مسلمانوں کو دہشت گرد بتانے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا گیا ۔یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ سبھی مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے ہیں لیکن ہر ایک دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے ۔بم دھماکے کے نام پر مسلمانوں کو سماج سے الگ تھلگ کر دیا گیا ۔یہاں تک کہ غیر مسلم سوسائٹیوں میں مسلمانوں کو گھر نہیں دیا جانے لگا۔مرکز اور ریاست کی سیکولر جماعتوں کی سرکار ٹی وی چینلوں کے پروپیگنڈہ کے سامنے تماشائی بنی رہی ۔یہاں تک کہ چینلوں کے پروپیگنڈہ پر عدالتوں میں بھی بیل اور جیل ہونے لگا۔
برہمن وادی کارپوریٹ میڈیا بی جے پی کی سیاسی ایجنڈہ کو پورا کرنے کے لئے 2014 کے پہلے سے کام کرتی رہی ہیں ۔چونکہ یو پی اے اس وقت حکومت میں تھی اسلئے سرکار سے سوال کرنے کے نام پر ان چینلوں کا حقیقی چہرہ چھپ جاتا تھا ۔لیکن چینلوں میں تب بھی بی جے پی کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے زیادہ جگہ ملتی تھیں اور اُنکے موضوع کو زیادہ زور شور سے اٹھایا جاتا تھا ۔یہ اور بات ہے کہ پارٹی کی اندرونی جھگڑے کی وجہ سے کچھ خبریں بی جے پی کے خلاف آ جاتی تھیں ۔کانگریس یا دوسری سیکولر پارٹیاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُنکی حکومت کے وقت ادارے اور میڈیا آزاد ہوا کرتے تھے اور سرکار اُنکے کام میں دخل انداز نہیں ہوتی تھیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ادارے اور میڈیا کی آزادی کے نام پر سرکار اُنہیں من مانی کرنے کی اجازت دے رہی تھی ۔چونکہ اس وقت کی سرکار میں موجود کمیونسٹوں کو چھوڑ دیں تو سبھی سیاسی جماعتوں میں برہمنوں نے قبضہ جمع رکھا تھا جو آج بھی ہے اسلئے سرکار چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔جب تک برہمنی سوچ کو نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور سسٹم سے باہر نہیں نکالا جاتا ہے تب تک بی جے پی اور آر ایس ایس سے مقابلہ کرنا نا ممکن ہے ۔ ملک کی سرکاری سسٹم سے مسلمانوں کے خلاف نفرتي پروپیگنڈہ کر کے سیکولر پارٹیوں کے خلاف بی جے پی اور آر ایس ایس ماحول بناتی رہی تھیں اور بناتی رہیگی ۔اسلئے یہ کہنا کہ میڈیا اور ادارے آج بی جے پی کا ساتھ دے رہی ہے سرا سر غلط ہے ہاں آج کھل کر ساتھ دے رہی ہے ۔پہلے بھی یعنی 2014 سے پہلے بھی اُنھیں کے ساتھ تھی اور مسلمانوں کو نمبر ون دشمن کی شکل میں پروجیکٹ کیا جاتا رہا ہے۔2014 سے پہلے مسلمانوں کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا تھا اور اب معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ یہ ہوگا۔کسی بھی حالت میں مسلمانوں کو راحت نہیں ہے ۔یہ راحت تب تک نہیں ملے گی جب تک برہمنی سوچ کو اس ملک سے باہر نہیں کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے ملک کے سسٹم میں ایک انقلاب یا بدلاؤکی ضرورت ہے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں