مسلمانوں کیلے شرم کا مقام
بقلم: ذوالقرنین احمد
( چکھلی ضلع بلڈانہ)
مالیگاؤں کے دیہات پھول ساونگی کی جامع مسجد کے امام حمالی کرنے پر مجبور یہ ہیڈنگ اخبار میں دیکھ کر دل زخمی ہوگیا ہے۔ اور اس قوم کی لا شعوری اور علمائے کرام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک انکی عظمت و رفعت بلند مقام کی ناشکری افسوس کا مقام ہے۔
علمائے کرام کو انبیاء کا وارث کہا گیا ہے۔ انہیں نائب ممبر رسول کہا جاتا ہے۔ علماء اکرام کا دنیا سے اٹھ جانا علم کے اٹھا لیے جانے کے مترادف ہے۔ اور قرب قیامت کی نشانی کہا گیا ہے۔ لیکن آج علماء اکرام، حفاظ قرآن، امام مسجد کے حالات زندگی زار ہوتی دیکھائی دیتی ہے۔ معاشی تنگی، ضروریات زندگی کا پورا نہ ہونا، اور گھر چلانا، بچوں کی فیس، والدین، بیوی بچوں کی بیماریوں کا خرچہ سب بہت مشکل ہوتا جارہا ہے عید وغیرہ کی ضرورتوں کی تو بات الگ ہی ہے۔ امامت کے فرائض انجام دینے پر اتنا کم معاوضہ دیا جاتا ہے جس میں بچوں کی اسکول کی فیس بھی ادا نہیں ہوسکتی ہے نہ ہی دوا وغیرہ کا انتظام ہوسکتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کا انتظام کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ آج مسلمانوں میں فضول خرچیا عروج پر ہے۔ مسجدوں کے طہارت خانوں کو مہنگے ٹائلس سے سجایا جاتا ہے لیکن امام مسجد کے کرائے کے گھر کی چھت گر جانے سے اسکی پوری فیملی کی موت ہوجاتی ہے۔ ایک امام مسجد جسے مالیگاؤں بم بلاسٹ میں جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا تھا بے قصور بغیر کسی گناہ کے ۱۲ سال حکومت اور پولیس کے تعصب کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے کے بعد رہائی کے بعد آج یہ حالت ہوچکی ہے کہ حمالی کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔
یہ سب حقیقت ہے کوئی فسانہ نہیں ہے۔ آج مہنگائی عروج پر ہے۔ ضروریات زندگی کا پورا ہونا ہی ایک بہت بڑا مسٔلہ بن چکا ہے۔ امام مسجد پر امامت کی ذمے داری ہوتی ہے اس وجہ سے وہ دیگر کام کاج کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے لیکن ان کا معاوضہ انہیں پورا نہیں دیا جاتا ہے۔
انگریزی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلانے والے سال کے لاکھوں روپیے بچوں کی فیس ادا کرتے ہیں۔ لیکن جو امام مدرسہ کا معلم تمہارے بچوں کی دونوں جہاں کی کامیابی کیلے تعلیم دیتا ہے انہیں تین چار ہزار روپیہ مہینہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اس میں بھی مسجد کمیٹی کے ذمہ دران چار چار مہینے امام کی تنخواہیں نہیں دی جاتی ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جس معاشرے میں روز مزدوری کرنے والے کو جب ایک دو دن مزدوری نہیں ملتی ہے تو اسکے گھر میں فاقے کی نوبت آجاتی ہے تو پھر امام مسجد کو چار چار مہینے تنخواہ سےمحروم رکھنے پر اسکا گزارا کیسا ہوتا ہوگا۔ وہ ان مہینوں میں کتنا مقروض ہوجاتا ہوگا۔ اور پھر قرض کیسے ادا کرتا ہوگا۔ مسلمانوں کیلے شرم کا مقام ہے اور سوچنے کی ضرورت ہے ۔ کہ آج ہمارے فضول خرچیا کتنی عروج پر ہے۔ عیش و آرام کیلے کتنے پیسہ بےجا خرچ کردیتے ہیں ایک دن کی پارٹی پر دوستوں پر گھروں میں برتھ ڈے منانے میں ہزاروں روپیے خرچ کردیتے ہیں۔ شادیوں میں لاکھوں روپے غیر اسلامی رسم رواج میں ڈیکوریشن پر خرچ کردیتے ہیں ۔ لیکن امام مسجد معلم کو معاوضہ دینے کی بات آتی ہے تب کنجوسی کرتے ہیں۔ کفایت شعاری دیکھاتے ہیں۔ جو امام تمہارے بچوں کی پیدائش پر کانوں میں اذان اقامت پڑھنے سے لے کر تمہارے ُمردوں کو غسل دینے سے لے کر قبر میں اتارنے تک تمہارے کام آتا ہے۔ زندگی گزارنے کا اسلامی طریقہ تمہیں سیکھاتا ہے۔ جو ہر مقام پر تمہارے لیے رہنمائی کرتا ہے۔ آج وہی ائمہ کرام کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اس معاشرے پر مسلمانوں پر جو انکی قدر نہیں کرتے ہیں۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے اگر یہی رویہ مسلمانوں کا علماء اکرام ، ائمہ کرام، حفاظ کرام، معلمین، کے ساتھ رہا تو آئیندہ مستقبل میں چند سالوں میں حالت یہ ہوگی کے غسل دینے کیلے کوئی ملنے والا نہیں۔ اگر ایسی نا قدری ائمہ کرام کی مسلمان کرتے رہے تو کل کو یہ ائمہ کرام امامت کے فرائض کو چھوڑ کر معاشی تنگی کی وجہ سے روزگار کرنے میں لگ جائے گے۔ اور پھر تمہاری میت کو قبر میں اتارنے والے بھی نہیں ملے گے۔
اماموں کی قدر کیجئے۔
وہ بھی تمہاری طرح انسان ہے جیسے تمہارے لوازمات ہے جیسی تمہاری زندگی میں تمہیں خوشیوں کی ضرورت ہے، ضروریات زندگی کی ضرورت ہے انہیں بھی تمام زندگی کے مراحل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ رویہ ہے کہ کوئی امام اگر اچھے موٹر سائیکل پر سوار گھومتا دیکھائی دیتا ہے کار میں سفر کرتا دیکھائی دیتا۔ ے تو انہیں تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے دیکھو امام صاحب کیسے مزے اڑا رہے ہیں۔ کوئی امام اچھی ہاٹل میں کھاتے دیکھائی دیا تو ہم کہتے امام صاحب آپ یہاں کیسے۔ یہ کیسا دوہرا معیار بن چکا ہے۔ وہ بھی ہماری طرح ایک انسان ہے انہیں بھی دل ہے۔ انکے اندر بھی جذبات خواہشات کا مادہ ہے۔ اس لیے آج انکی قدر کیجئے۔ ورنہ حالات بڑے خطرناک ترین دور کی طرف اشارہ کر رہے ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں