كورونا وائرس (Covid-19) مسلمانوں كے مذہبى اجتماعات كے متعلق رہنمائى

 

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى( آكسفورڈ )

 

 كورونا وائرس اس وقت تقريبا  دنيا كے ہر ملك ميں پهيل چكا ہے، اور مزيد پهيلتا جا رہا ہے،  اب تك اس كا كوئى علاج دريافت نہيں ہوا ہے، اس سے بچنے كا سب سے زياده كارگر طريقه يہى  سمجها جا رہا ہے كه لوگ ايك دوسرے سے بچيں، سفر سے پرہيز كريں، بهيڑ كى جگہوں پر نه جائيں، جن ملكوں نے ان ہدايات پر سختى سے عمل كيا  ہے وه نسبتًا محفوظ ہيں، اور جن ممالك نے ان ہدايتوں كو اہميت نہيں دى ان ممالك ميں اس وبا  كا اثر بہت زياده ہے، اور اموات كى تعداد بهى خوفناك حد تك پہنچى ہوئى ہے۔
 زندگى كے تمام مسائل كى طرح بيماريوں كے متعلق بهى اسلام كى رہنمائى يہى ہے كه قرآن كريم كى واضح تعليمات اور صحيح حديثوں كى پيروى جائے، اور اطباء اور حفظان صحت كے ماہرين كى ہدايتوں پر عمل كيا جائے، خوش عقيدگى، خواب، كشف والہام وغيره كى بنا پر كوئى تدبير بتانا سخت خطرناك، گمراه كن اور غير ذمه دارانه عمل ہے۔
 اسلامى ممالك نے بهى اس بيمارى كو سنجيدگى سے ليا ہے،  سعودى عرب، قطر، بحرين، امارات، تركى، مليشيا وغيره ممالك  نے اس بيمارى كى روك تهام كے لئے جہاں دوسرى بہت سى احتياطى تدابير اختيار كى ہيں وہيں غير متعينه مدت كے لئے  مسجدوں كے بند كرنے كے احكام  بهى جارى كئے  ہيں، ان ممالك كے فقہاء اور مفتيان كرام نے متفقه فتوى ديا ہے كه لوگ اپنے گهروں ميں جماعت سے يا تنہا نماز پڑهيں، اور جمعه كى نماز كى جگه ظہر ادا كريں، يورپ اور امريكه ميں بهى علماء  كى ايك بڑى تعدادكى رائے يہى ہے، جس كے نتيجه ميں ان ممالك ميں بهى بہت سى  مسجديں بند كردى گئى ہيں۔
 مسجدوں كا بند كرنا كتنا ہى تكليف ده كيوں نه ہو ليكن اس بيمارى كو روكنے كے لئے  يه ايك مؤثر ذريعه ہے، اور يه اسلامى تعليمات كے عين مطابق ہے، اس موضوع پر ميں نے عربى اور انگريزى ميں دو مدلل مضامين لكهے ہيں ان كى طرف رجوع كيا جاسكتا ہے، اور جيسا كه ذكر كيا گيا مشرق وسطى اور مغربى ممالك كے عام علماء وفقہاء كا فتوى يہى ہے كه عارضى طور پر مساجد بند كردى جائيں، كيونكه مسجدوں ميں آنے سے نمازيوں كے اندر اس بيمارى كے پهيلنے كا انديشه بہت زياده ہے،  سنن ابى داود وغيره  ميں حضرت جابر رضي الله عنه سے مروى ہے كه ہم ايك سفر ميں تهے، اور ہمارے ايك ساتهى كے سر پر پتهر لگنے سے چوٹ آگئى تهى، اور وه  شديد زخمى تهے، انہيں احتلام ہوا تو انہوں نے لوگوں سے پوچها كه كيا ميرے لئے تيمم كى رخصت ہے؟ لوگوں نے كہا كه چونكه پانى موجود ہے اس لئے آپ تيمم نہيں كرسكتے، انہوں نے غسل كيا، اور اسى ميں ان كا انتقال ہوگيا، ہم لوگ سفر سے لوٹے اور ہم نے نبى اكرم صلى الله عليه وسلم سے اس حادثه كا تذكره كيا، آپ نے فرمايا كه ان لوگوں نے انہيں قتل كرديا، الله انہيں برباد كرے ۔ اس حديث سے اندازه ہوا كه فروعى معاملات ميں رخصت كے ہوتے ہوئے عزيمت پر عمل كرنا صحيح نہيں، خاص طور سے جبكه عزيمت پر عمل كرنے سے جان كے نقصان كا انديشه ہو۔
 كورونا  كى ايك خصوصيت يه بهى ہے كه اس كے اثرات فورًا ظاہر ہونا ضرورى نہيں، كبهى كبهى دو ہفتے تك بيمارى كے اعراض  كا پته نہيں چلتا، اور وبا زده شخص  صحتمند لوگوں كى طرح  ہر جگه آتا جاتا ہے، سب سے ملتا جلتا رہتا ہے، اور يوں يه وائرس دوسروں تك پهيلتا رہتا ہے۔
 حيرت ہے كه اس بيمارى كے سنگين نتائج اگر چه خواص وعوام كو ہر جگه معلوم ہيں اس كے باوجود بر صغير كے متعدد علماء كى رائے يه ہے كه  مسجدوں كا بند كرنا صحيح نہيں ہے، البته جو لوگ اس بيمارى ميں مبتلا ہيں يا جو زياده بوڑهے ہيں يا جنہين اس بيمارى كا شبہ ہے وه مسجدوں ميں نه آئيں،  ائمه اس كا خيال ركهيں كه نماز اور خطبه مختصر ہو، لوگ گهروں سے وضو كركے آئيں، وغيره وغيره۔
 اس رائے كے متعلق تين باتيں عرض كرنى ہيں:
 ايك  يه كه اگر مسجديں بند نہيں ہوں گى تو بہت سے بوڑهے اور مريض مسجدوں ميں آتے رہيں گے، اور ان كو روكنا آسان نہيں ہوگا، يه كوئى مفروضه نہيں، بلكه اس وقت بهى بہت سے ضعيف اور بيمار لوگ مسجدوں ميں جا رہے ہيں، اور منع كرنے كے باوجود نہيں مانتے، اور كہتے ہيں كه جب تك مسجدين كهلى رہيں گى ہم مسجدوں ميں جاتے رہيں گے، مسجدوں كے پاس ان كو روكنے كا كوئى معقول اور مؤثر انتظام نه ہے اور نه ہى ممكن ہے۔
 دوسرے يه كه يه سلسه كب تك چلے گا؟ اگر خدا نخواسته  يه وبا اس طرح پهيل گئى جيسے اٹلى اور ايران ميں پهيل چكى ہے، تو كيا اس وقت بهى مسجدين كهلى رہيں گى؟ ظاہر ہے كه جواب نفى ميں ہوگا،  پهر كيا يه دانشمندى نہيں ہے كه ہم وه صورت حال نه پيدا ہونے ديں، اور پيشگى ايسى تدبير اختيار كريں كه بعد ميں پچهتانا نه پڑے۔
 تيسرى بات يه ہے كه جيسا كه اوپر بتايا گيا اس بيمارى كے اعراض كبهى  كبهى دو ہفتوں تك ظاہر نہيں ہوتے، اور وبا زده شخص خود كو تندرست سمجهتا ہے، اسے بيمارى كا شبہ بهى نہيں ہوتا اور لوگ بهى اسے صحتمند سمجهتے ہيں، ايسے لوگوں كو روكنے كا كيا طريقه ہوگا؟ اور دنيا ميں ہر جگه ايسے ہى لوگوں سے يه بيمارى زياده تيزى سے  پهيل رہى ہے۔
 كيا مسجدوں كے پاس بيمارى كے ٹيسٹ كرنے كا كوئى انتظام ہے؟ اس طرح كے انتظامات تو عام حكومتوں كے پاس نہيں، تو ظاہر ہے كه مسجدوں كے پاس كہاں ہوگا؟ اور ہر نماز سے پہلے ہر نمازى كا  ٹيسٹ  كون كرے گا؟
 اس لئے جو لوگ يه سمجهتے ہيں كه وه بيمار لوگوں كو مسجدوں ميں آنے سے روك ديں گے، ان كى يه بات بالكل غلط ہے اور گمراه كن ہے، اور اس ميں شك نہيں كه عملاً ايسا كرنا  نا ممكن ہے۔
 غور كرنے كى بات يه ہے كه كيا ہم كسى انسان كى موت كى ذمه دارى لے سكتے ہيں؟ ايك شخص كى موت سے اس كے گهر والوں كا كيا ہوگا كيا ہم اس انجام كىا تصور كرسكتے ہيں؟ نہيں اور ہرگز نہيں، لهذا خدا سے ڈريں، اور لوگوں كو ترغيب ديں كه گهروں ميں جماعت سے نماز پڑهيں، اور اگر  گهر ميں نماز پڑهنے والے  افراد نه ہوں تو تنہا پڑهيں اور نيكى كے دوسرے كام كريں۔
 ايك بار پهر عرض ہے كه يه بات ہرگز نه بهوليں كه اس بيمارى كے عوارض فورا ظاہر نہيں ہوتے، اور  وبا زده اشخاص كو مسجدوں ميں آنے سے ہم  قطعاً نہيں روك سكتے، اس لئے سمجهدارى سے كام ليں، امت بلكه انسانيت كے مفاد عامه كى فكر كرين، اور عام مسلم ممالك كے نقش قدم پر چلتے ہوئے  وقتى طور پر مسجديں بند كرديں، اور لوگوں كو ہدايت دى جائے كه وه فضوليات سے بچيں اور  زياده سے زياده وقت نماز، ذكر ، تلاوت اور استغفار ميں گزاريں۔
  الله تعالى ہم سب كو اپنے حفظ وامان ميں ركهے،  اس وبا كو اٹها لے اور ہميں اچهى طرح اپنى بندگى كى توفيق دے، آمين۔

«
»

کورونا وائرس‘ قیامت صغریٰ کا منظر

دہلی فساد متاثرین: بس ایک اللہ کا آسرا… ظفر آغا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے