ذوالقرنین احمد
ملک میں کسی بھی سطح کے انتخابات کیوں نہ ہو ایک بات صاف ہے کہ فرقہ پرست تعلیم یافتہ طبقہ پوری سنجیدگی کے ساتھ موجودہ حکومت کی تائید میں ووٹ کرتا ہے۔اب ای وی ایم کو دوش دینا بند کردیجیے ای وی ایم مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کرنے والے واہی لوگ ہے جو فرقہ پرستوں کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح جو غریب عوام ہے وہ چند پیسوں میں ووٹ کا سودا کرتی ہیں۔ اور جن افراد کو حقیقت میں ملک سے محبت و ہمدردی ہے وہ مجبوراً فرقہ پرست سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ انھیں اپنی پسند کا کوئی بھروسہ مند حقیقی لیڈر نظر نہیں آتا ہے۔ اور کچھ افراد نوٹا کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
ایک طرح سے ملک کے انتخابات پوری طرح فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ بی جے پی صرف ایک ڈروانا فرقہ پرست چہرہ ہے اس کو مضبوط کرنے میں سیکولر پارٹیوں اور لیڈران کا ہاتھ ہے۔ جو اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ دیکھاتے ہیں جبکہ اندرونی طور پر وہ بھی فرقہ پرست ذہنیت کے حامل ہیں۔ مسلمان اگر متحدہ طور پر اپنے لیڈر کو چن کر لے کر آتے ہیں تو وہاں ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انتخابات مذہب کمیونٹی کی بنیاد پر لڑا گیا ہے۔ اور فلاح پارٹی فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر رہی ہے۔ جبکہ وہی مسلمانوں نے کانگریس کو سیکولر پارٹی کے طور پر آزادی کے بعد سے قبول کیا لیکن کانگریس نے ستر سالوں کے بعد بھی مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا ہے۔
آج مسلمانوں کی حالت ملک میں ایس سی ، ایس ٹی سے بھی خستہ ہے۔ کانگرس حکومت کے دور اقتدار کی رپورٹوں کے مطابق مسلمان کئی دہائیوں سے سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ملکی سطح پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر طرف بی جے پی کا خوف ہے ۔ جو سنگھ کی سیاسی جماعت ہے۔ آج کفار، مشرکین یہودی مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکا ہے۔ اور بڑے پیمانے پر سازش رچنے میں مصروف ہیں۔ جینو سائیڈ واچ نے ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ نسل کشی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے عالمی ماہرین نے ہندوستان میں موجود بی جے پی حکومت کی نگرانی میں ۲۰ کروڑ مسلمانوں کے امکان پر خدشہ ظاہر کیا ہے۔ نسل کشی کے ۱۰ مراحل اور مسلمان کے موضوع پر پینل مباحثے میں نہ صرف ہندوستانی حکومت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام کیلئے اسے عالمی برادری میں بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس مباحثہ کا اہتمام انڈین امریکن مسلم کونسل نے کیا تھا۔ اسی طرح یو پی میں یوگی حکومت نے ایک تیر سے کئی نشان کرنے کی تیاری کی ہے۔ لو جہاد پر فضول قانون بنایا گیا ہے جس کا مقصد مذہب تبدیلی کو روکنا ہے۔ اسکے پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ مسلم لڑکیوں کو غیر مسلم لڑکوں کے جال میں پھانس کر پیار و محبت کے نام پر انہیں گمراہ کرنا ہے۔ اور الزام مسلم نوجوانوں پر عائد کرنا ہے۔ جس میں جھوٹے الزامات میں گرفتاریاں بھی شروع ہوچکی ہے۔ اسی طرح مختلف ریاستوں میں بی جے پی خطرناک قانون سازی کر رہی ہے۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن وہ ہندوتوا ایجنڈے کی ایک کڑی ہے۔ جبکہ یوگی حکومت پوری دنیا میں لڑکیوں ، خواتین کے تحفظ میں ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ اور بدنام بھی ہے۔ ضرورت تو خواتین کے تحفظ کیلئے مجرموں کو فوری سزا دلانے کیلے قانون سازی ہونی چاہیے تھی لیکن یوگی حکومت مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے والے قانون بنا رہی ہے۔
ان سب سازشوں سے مسلمان اب بھی بے بہرہ ہے، مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ انہیں سیاست ، معیشت، میں قدم جمانے نہیں دیا گیا اور جو لوگ موجود تھے انہوں نے نسل در نسل سیاست کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے۔ اسی طرح ملی قیادت کا بھی حال ہے۔ مسلم رہنماؤں نے یہ سوچ مسلمانوں پر مسلط کی ہوئی ہے کہ قائد ابن قائد ہوگا اور عام مسلمان غلام ابن غلام ہی رہے گا۔ حالات بلکل بھی ہمارے لیے سازگار نہیں ہے میں کوئی خوف و دہشت پیدا کرنے کیلئے یہ بات نہیں کہے رہا ہوں حقیقت حال پر نظر ڈالیے پورے ملک میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر سرکاری اداروں میں سیاست میں ، پرائیویٹ سیکٹر میں سنگھی تنظیم کے افراد کو اقتدار میں بٹھا دیا گیا ہے۔
ملک کی تینوں فوجی جتھوں کی کمان چیف آف کمانڈر کا انتخاب کرکے اس کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ جو ملک کے ہوم منسٹر کے حکم کے تابع ہوگا۔
بی جے پی کا خوفناک ایجنڈہ ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ جس طرح سے بابری مسجد کو ظالمانہ طور پر سنگھی تنظیموں نے ۱۹۹۲ میں شہید کیا تھا اور پھر کانگرس نے اسی موضوع پر تقریباً تین دہائیوں سے بی جے پی کا خوف دیکھا کر سیاست کی ہے اور مسلمانوں کے ووٹوں کا استعمال کیا ہے۔ اور انہیں حقوق سے بھی محروم رکھا ہے۔ سپریم کورٹ جس پر ملک کے مسلمانوں کو اور ملی تنظیموں کو اعتماد تھا کہ بابری مسجد کا فیصلہ تمام حقائق کے پیش نظر مسلمانوں کے حق میں ہوگا لیکن سپریم کورٹ نے اکثریت کا خوف دیکھا کر مسلمانوں سے امن و امان کی اپیل کرکے فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں صادر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ اور عدالت کے پیمانے پر بھی ضرب لگی ہے۔ مسلمانوں کا اعتماد متزلزل ہوگیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بابری مسجد کے اہم مجرموں کو ۲۸ سال بعد سپریم کورٹ نے باعزت بری کردیا ہے۔ یہ جمہوریت کے قاتل افراد ہے جو آج اقتدار پر قابض ہے اور آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اور فرقہ پرست عناصر ملک سے محبت و وفاداری کا ثبوت مسلمانوں سے مانگتے پھرتے ہیں۔ جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ملک میں چاہے سیاسی میدان ہو یا انصاف کیلئے آواز بلند کرنا ہو تمام قوانین اور ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ اکثریت اور خوف کے سائے میں فیصلہ سناتی ہے۔
اگر قانون کے بالادستی قائم ہوتی تو بلا خوف و خطر انصاف کی کرسیوں پر بیٹھنے والے صحیح فیصلہ صادر کرتے چاہے انکی جان کیوں نہ چلی جاتی لیکن ملک میں ظالم حکمران جماعت اقتدار میں ہے۔ جن کے اشارے پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب مسلمانوں کو ملک میں اپنے وجود کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم حالات سے بے خبر ہے۔ مسلمانوں غفلت کی نیند سے بیدار ہوجاؤ اور ایمانی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرو اگر ہندوستان میں ایمان اسلام کے ساتھ اپنی نسلوں کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتے ہو تو آج ہی سے اپنے وجود کو ثابت کرنے کیلئے جد وجہد کیجئے ورنہ تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں۔
جواب دیں