مسلمان تاریخ سے سبق لے کر اتحاد کا مظاہرہ کریں

حالانکہ اس ملک میں مسلمانوں نے تقریباً ۸ سو سال تک حکومت کی تھی، ان کے دور حکومت میں علوم وفنون اور تہذیب وتمدن کو جو فروغ ہوا وہ تاریخ عالم کاسنہرا باب ہے۔ اگردعویٰ کیاجائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ اسپین کے مسلمانوں نے اپنے عروج کے دور میں علم وفن کے جو چراغ روشن کئے ان سے آج بھی اہلِ علم روشنی حاصل کررہے ہیں ۔ اور اسپین میں مسلمانوں کی یہ کیفیت اس وقت بھی رہی جب کہ اس کے اقتدار وسیاست کی بساط اس ملک میں الٹ چکی تھی اس وقت بھی وہ اپنے عیسائی ہم عصروں سے زندگی کے ہر شعبہ میں آگے تھے لیکن تاریخ کا المیہ ہے کہ اپنی تمام تر ترقیات علمی وحربی صلاحیت کے باوجود انہیں اسپین سے نکلنا پڑا۔ اس المناک واقعہ کی صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں تھا۔ ان کا جو حکمراں طبقہ تھا وہ اقتدار واختیار کی حرص میں مبتلاء ہوگیا۔ دانشوروں کے طبقہ میں بھی قول وفعل کی ہم آہنگی نہیں تھی اور ان دونوں طبقوں کے اختلافات اور نفاق سے عام لوگ بھی متاثر ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی طاقت روز بروز کمزور ہوتی چلی گئی اور وہ قوم جونویں دہائی میں ایک فاتح کی حیثیت سے اسپین میں داخل ہوئی تھی اسے ۱۴۹۲ء کو ایک مجبور ومقہور قوم کی حیثیت سے اس سرزمین سے نکلنا پڑا تھا۔
ہندوستان میں بھی مسلمان ایک ہزار سال سے آباد ہیں۔ اس ملک پر انہوں نے حکمرانی بھی کی مگر یہ سمجھ کر کہ یہ ان کا وطن ہے، پھر ایک دور ایسا آیا کہ انگریز حکمراں بن بیٹھے اور یہ صورت حال بھی مسلمانوں کے باہمی نفاق اور انتشار کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ کچھ دوسرے عوامل بھی ہوسکتے ہیں، لیکن بنیادی بات یہی تھی کہ اس وقت کے نہ مسلم حکمرانوں میں اتحاد تھا اور نہ برادرانِ وطن نے انگریزوں کے خلاف ہندو مسلم اتحاد کی قدر وقیمت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں کی حکومت یہاں قائم ہوگئی اور یہ بھی اب تاریخ کا ایک باب ہے کہ جب ان دونوں میں اتحاد پیدا ہوا تو اس نے تحریک کی شکل اختیار کرلی جس کے نتیجہ میں انگریزوں کے قدم اکھڑ گئے۔ اور ملک آزاد ہوا۔
تاریخ کے یہ واقعات ہیں جن سے مسلمانوں کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے لیکن کیا ان کی موجودہ صورت حال اس بات کی گواہی دیتی ہے ۔ انہوں نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہو، اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ ہندوستان کے مسلمان اس وقت جس قدر منتشر حالت میں ہیں شاید ہی پہلے کبھی رہے ہوں گے۔ ان کے اندر صرف عمل کا ہی انتشار نہیں فکر کا بھی انتشار ہے۔ وہ ان گنت خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اگرچہ یہ درست ہے کہ ملی اتحاد کی باتیں بہت کی جاتی ہیں اور ہر پلیٹ فارم سے کی جاتی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جس جس پلیٹ فارم سے اتحاد واتفاق کی تلقین کی جاتی ہے چند دنوں بعد وہی پلیٹ فارم کئی ٹکڑوں میں منقسم ہوجاتا ہے ۔ کاش کہ مسلمان اب بھی تاریخ سے سبق لیں۔

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے