مسلمان سائیں کے ہندو پجاری

کچھ لوگ احتجاج و مظاہرے کر رہے ہیں تو بعض نے اسے آستھا کو چوٹ پہنچانے کا معاملہ قرار دے کر شنکر آچاریہ کے خلاف کورٹ میں مقدمہ بھی درج کردیا ہے۔ راجدھانی دلی کے گیتا کالونی میں واقع سائیں مندر کے بھکت را م ویر سنگھ کو ناراضگی ہے کہ سائیں بابا کو مسلمان قرار دے کر ان کی عقیدت کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ برسوں سے سائیں بابا کے بھکت رہے ہیں تو میڈیا میں کام کرنے والے راجیش کمار بھی کہتے ہیں کہ شنکر آچاریہ کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہندو سائیں بابا کی پرستش نہ کریں۔ راجیش کمار خود سائیں بھکت ہیں اور وہ شرڈی تک گئے ہیں۔ یونہی نئی دلی کے لاجپت نگر میں سائی اسٹوڈیو چلانے والے اور ’’سائی سندھیا‘‘کا انعقاد کرنے والے پپو کا کہنا ہے کہ ہم کس میں آستھا رکھیں گے یہ طے کرنے کا حق شنکر آچاریہ کا نہیں ہے، ادھر پورے ملک میں کئی مقامات پر شنکر آچاریہ کے خلاف مظاہرے کر کے بھکتوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ آستھا کے معاملے میں کسی پابندی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں مگر دوسری طرف بنارس میں ہی ہندو دھرم گرووں کی ایک مٹینگ ہوئی جس کے بعدیہ اعلان کیا گیا کہ ہندووں کو سائین بابا کی پوجا نہیں کرنی چاہئے۔ ادھر شنکر آچاریہ نے کہا ہے کہ ’’سائیں بابا مسلمان تھے اس لئے ہندووں کو ان کی پوجا نہیں کرنی چاہئے‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ مسلمان تھے اور مسلمان ان کی پوجا نہیں کرتے پھر ہندو کیوں کرتے ہیں؟ جب یہ ہنگامہ بڑھا تو شنکر آچاریہ نے بھی کہہ دیا کہ جولوگ سائیں کی پوجا کرتے ہین انھیں رام اور کرشن کی پوجا نہیں کرنی چاہئے اور گنگا اشنا ن بھی نہیں کرنا چاہئے ۔شنکر آچاریہ کے بیان کے بعد پورے ملک میں اس موضوع پر بحث شروع ہوچکی ہے۔ ایک طرف شنکر آچاریہ کے عقیدت مند ہین تو دوسری طرف سائیں کے عقیدت مند۔ یہ تنازعہ میڈیا سے لے کر عوامی محفلوں اور چائے خانوں تک بحث کا موضوع بنا رہا۔ اس بحث کے شروع ہونے کے بعد لوگوں میں بھی سائیں بابا کے بارے میں جاننے میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے اور لوگ انٹر نیٹ پر سرچ کر رہے ہیں کہ سائیں کون تھے اور ان کے نظریات و خیالات کیا تھے؟ 
سائیں باباواقعی مسلمان تھے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا سائیں بابا واقعی مسلمان تھے؟ اور اگر وہ مسلمان تھے تو اب تک یہ بات ہندووں کو کیوں نہیں بتائی گئی؟سائیں بابا کی زندگی کے ابتدائی ایام پردۂ خفا میں ہیں مگر ان کے سوانح نگاروں نے جو لکھا ہے اس کے مطابق ان کی پیدائش ۱۸۳۸ء اور ۱۸۴۲ء کے آس پاس ہوئی۔ ان کا مقام پیدائش نظام دکن کی ریاست کا ایک گاؤں تھاپتھری(ضلع۔پربھنی)۔وہ سولہ سال کی عمر میں شرڈی آئے جو کہ مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر میں واقع ہے۔ یہاں انھوں نے ایک نیم کے پیڑ کے نیچے رہنا شروع کیا اور ایک مدت تک یہیں رہے۔ انھیں لوگ یہاں اکثر مراقبے کی حالت میں دیکھتے تھے۔ یہ سلسلہ کچھ دن تک چلا اور پھر وہ یہ جگہ چھوڑ کر یہیں قریب کے جنگل میں جاکر رہنے لگے۔ جب وہ جنگل سے لوٹے تو ان کا ٹھکانہ ایک مقامی مسجد بنی جسے وہ دوارکا مائی کہا کرتے تھے۔یہاں وہ نماز ادا کرتے ، تلاوت قرآن کیا کرتے اور کبھی کبھی محفل میلاد النبی ﷺ بھی منعقد کرتے تھے۔وہ اکثر حمد و نعت گنگناتے اور بے خودی کے عالم میں جھومتے رہتے تھے۔علاوہ ازیں انھیں قوالی کا بھی شوق تھا مگر ان کی مجلس میں صرف طبلہ اور سارنگی پر ہی قوالی ہواکرتی تھی۔ ان کے عقیدت مندوں میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو شامل ہوا کرتے تھے کیونکہ شرڈی ایک ہندو اکثریتی گاؤن تھا اور مسلمانوں کی آبادی کم تھی۔وہ اپنے عقیدت مندوں کو توحید کی تلقین کیا کرتے تھے اور ان کا مشہور زمانہ فقرہ ہے’’سب کا مالک ایک‘‘ وہ قرآن پڑھنے کی تلقین کرتے تھے اور ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جو نصیحت آموز باتیں ہیں ان سے نصیحت حاصل کرنے کی بھی بات کہا کرتے تھے۔ وہ ایک ایسے فقیر صفت انسان تھے جس کے دل میں دنیا سے بے رغبتی تھی اور اپنے ساتھ کفنی رکھا کرتے تھے۔اکتوبر ۱۹۱۸ء میں سائیں بابا کا انتقال ہوا اور انھیں اسی مسجد کی دیوار سے متصل دفن کیا گیا جہاں ان کا زندگی میں قیام تھا۔ 
تنازعہ کیا ہے؟
بھارت میں کروڑوں دیوی دیوتاؤں کے مندر ہیں مگر اسی کے ساتھ یہاں سپر اسٹار امیتابھ بچن،کرکٹر سچن تندولکر اوراداکارہ خوشبو کے بھی مندر ہیں، ایسے میں ایک سائیں بابا کے اضافہ سے کیا فرق پڑتا ہے۔اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ پوجا کس کی ہونی چاہئے؟ مذہب اسلام میں تو معاملہ واضح ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ کسی غیر کی عبادت شرک ہے جو سب سے بڑا ظلم اور اعتقادی جرم ہے، مگر ہندووٗں کے یہاں شرک عام بات ہے اور وہ کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتے ہیں۔ اب ایسے میں ایک سائیں بابا کا اضافہ ہوگیا اور انھیں ابھی ایک نیا دیوتا بنا لیا گیا تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ہندو صدیوں سے مظاہر فطرت کی پوجا کرتے آئے ہیں۔ وہ پتھروں ، پہاڑوں، درختوں اور ارواح کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کی مورتیاں بناکر ان کی بھی پوجا کرتے ہیں لہٰذا ان کے لئے ایک سائیں کی مورتی کا اضافہ ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ حالانکہ ہندووں کا ایک بڑا طبقہ مانتا ہے کہ ان کے مذہب میں بھی کروڑوں دیوتاؤں کی پوجا نہیں ہے بلکہ وید میں ایک ہی خدا کی عبادت کرنے کو کہا گیا ہے جو جسم و جسمانیت سے پاک ہے اور اس کی کوئی شکل صورت نہیں ہے۔ اگر شنکر آچاریہ ہندو دھرم میں موجود توحید کی تعلیمات کی بنیاد پر سائین بابا کی پرستش کی مخالفت کرتے تو لوگوں کی توجہ پاسکتے تھے مگر انھوں نے مخالفت کی جو بنیاد ڈھونڈی وہ فرقہ وارانہ تھی لہٰذا ہندووں کی طرف سے مخالفت شروع ہوگئی۔ شاید اسی بہانے کچھ سائیں بھکت اور مخالفین بھی توحید کی تعلیم سے آشنا ہوجائیں جو قرآن ، توریت، انجیل اور وید کی مشترکہ تعلیم ہے۔ 
سائیں کا مطلب؟
’’سائیں‘‘ ہندوستانی لفظ ہے جو اردو اور ہندی دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہ اصل میں عوامی زبان ہے جس کا مطلب ہوتا ہے’فقیر اورمالک‘‘یہ لفظ بنجاروں کی زبان میں استعمال ہوتا ہے اور سندھی میں بھی بولا جاتا ہے۔ سائیں بابا کا اصل نام کیا تھا کوئی نہیں جانتا مگر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ ایک مسلمان فقیر کی صحبت میں رہے اور اسی سے انھوں نے تصوف اور روحانیت کے رموز سیکھے۔ سائیں بابا کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے کہ ان کے والدین برہمن تھے جنھوں نے انھیں ایک مسلمان فقیر کے حوالے کردیا تھااور وہ ایک مدت تک اسی فقیر کے ساتھ رہے ااور وہیں اسلام کی تعلیم پائی۔ اگر سوانح نگار کی بات درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سائیں ایک نومسلم تھے۔ 
سائیں بابا کی تعلیمات
سائیں بابا کا قیام عموماً ایک مسجد میں ہوتا تھا جہاں ان کے عقیدت مندوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے۔ ان کے عقیدت مندوں میں ہندووں کی اکثریت تھی جنھیں وہ اللہ کے ایک ہونے کے دعوت دیا کرتے تھے۔ اکثر ان کی زبان پر ہوتا’’اللہ مالک‘‘ اور وہ اپنے بھکتوں کو کہا کرتے تھے ’’سب کا مالک ایک‘‘وہ اصل میں وہ صوفیہ کے نظریہ ’’اتحادِ انسانیت‘‘ کے قائل تھے اور لوگوں کو مذہب، ذات اور فرقے میں بانٹنے کے قائل نہ تھے۔ وہ تمام انسانوں کو ایک ہی اللہ کی مخلوق مانتے تھے۔
مجاہد آزادی؟
۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے دوارن وہ اچانک شرڈی سے غائب ہوگئے تھے اور پھر ۱۸۵۸ء میں وہ لوٹے۔ بعض سوانح نگاروں کا خیال ہے کہ وہ جنگ آزادی میں حصہ لینے کے لئے گئے تھے اور جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی فوج میں شامل ہوکر انھوں نے انگریزوں سے لوہا لیا تھا۔ پتہ نہیں اس دعوے میں کچھ سچائی ہے یا کوری عقیدت!
سائیں کی شہرت
۱۹۱۰ء کے آس پا س ممبئی اور مہاشٹر میں سائیں بابا کی شہرت شروع ہوئی اور لوگون نے شرڈی جانا شروع کیا۔ اس سلسلے میں اضافہ تب ہوا جب فلموں میں بھی اس مقام کو دکھایا جانے لگا۔ بعد میں خود سائیں بابا پر فلمیں بنیں اور ٹی وی سیریرل بھی نشر ہوئے۔ بھیو پوری ،کجرات میں پہلا مندر بنا۔فی الحال شرڈی کے سائیں مندر میں روزانہ بیس ہزار عقیدت مند حاضری دیتے ہیں اور خاص ایام میں یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ سائیں تحریک امریکہ، انگلینڈ، ملیشیا، افریقہ اور متحدہ عرب امارات میں پہنچ چکی ہے۔ہر مہینے کروڑوں روپیئے کا چڑھاوا آتا ہے۔ بعض گم نام عقیدت مند بھی قیمتی اشیاء نذر کر جاتے ہیں ایک بار گیارہ ملین سے زیادہ قیمت کے دو ہیرے کسی نے یہاں لاکر چڑھایا تھا۔ آج سائیں کے نام کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ ان کے نام پر ساری دنیا میں کروڑوں کا دھندا چل رہا ہے اور عقیدت کی تجارت میں عیار لوگ خوب مال بنا رہے ہیں۔ البتہ سائیں کی تعلیمات میں نہ تو انھیں دلچسپی ہے جو عقیدت مند ہیں اور نہ ہی انھیں جو دکانداری کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے جو سائیں پوری زندگی ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے رہے آج اسی سائیں کی پوجا ہورہی ہے، بالکل اسی طرح سے جیسے فلم ’’او مائی گاڈ‘‘ میں ہوا تھا۔

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے