(لمحہ فکریہ)
تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
آج مسلمانوں کے حالات پوری دنیا میں ناساز ہیں، پوری دنیا میں ذلت آمیز ماحول پیدا ہورہا ہے، پوری دنیا میں شک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے جس ملک میں مسلمانوں کی حکومت ہے وہاں پر بھی چین و سکون نہیں ہے، کہیں ذات برادری کا جھگڑا، کہیں مسلکی جھگڑا، کہیں رنگ و نسل کا جھگڑا، کہیں فرقہ پرستی کی مار، کہیں سیاسی لاشعوری کی مار، کہیں تاناشاہی کی مار، کہیں بیماری کی مار، کہیں سیاسی قیادت کے فقدان کی مار، کہیں جمہوری نظام کے تحت حاصل شدہ حقوق کا فائدہ نہ اٹھانے کی مار، دین سے دوری کی مار، قول خدا و قول محمد سے نافرمانی کی مار پھر بھی مسلمان سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا ہے.
صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد اخبار اٹھائے گا تو کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد دیکھے گا اور اندازہ لگائے گا کہ مجموعی طور پر تعداد اتنے تک پہنچ چکی ہے تخمینے کی دنیا میں کھوکر اور قیاس آرائیوں کی شاہراہ پر سوار ہو کر دنیا کے دیگر کیمیکل اشیاء پر غور کرے گا لیکن تخیلات کی شاہراہ پر سوار ہو کر آج بھی اپنا محاسبہ کرنے کو تیار نہیں ہے حکومتیں ڈگمگا رہی ہیں، حکمراں قوم کی شناخت گم ہوتی جا رہی ہے، مذہبی، سیاسی، سماجی ہر اعتبار سے پہچان مٹتی جارہی ہے اور بدنصیبی و بدقسمتی قوم مسلم کا پیرہن بنتی جارہی ہے کرونا وائرس کی بیماری کا آغاز چین سے ہوا اور اب وہ بیماری دیگر ممالک میں بھی پھیلتی جارہی ہے یہ حقیقت ہے کہ قدرت کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی لیکن جب جسم پر پڑتی ہے تو ہڈیاں کافور ہوجاتی ہیں، خدا کے وہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے بیشک اللہ غفور الرحیم ہے، رحمان ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ قہار بھی ہے، جبار بھی ہے اس لیے ضروری ہے اسکی شان رحیمی کو یاد کرتے ہوئے اس کی قہاریت اور جباریت کو بھی یاد رکھا جائے اس کی پکڑ بہت سخت ہے یہ تو اس کا بے انتہا کرم ہے کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی قوموں کی طرح ہمیں عذاب میں مبتلا کرکے مٹایا نہیں گیا کتنی قومیں ایسی تھیں جو صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں، نیست و نابود کردی گئیں لیکن ہاں اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہاری قوم ایکدم بگڑ جائے گی تو میں عذاب کے جھٹکے ضرور دونگا تاکہ تمہاری امت راہ راست پر آجائے.
آج ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کونسی برائی ہے جو مسلمانوں کے اندر نہیں ہے چوری، ڈکیتی، حق تلفی، غرور، تکبر، فقراء و مساکین سے نفرت، غیبت، چغلی، شراب نوشی، عیاشی، بیحیائی، بے شرمی اور سب کچھ کرنے کے بعد فخر کرنا اپنے آپ کو چالاک اور ضرورت سے زیادہ قابل و ہوشیار سمجھنا اور دین کی بات بتانے والے کو کمتر سمجھنا. چھوٹاسا کوئی اچھا کام کبھی کر بھی لیا تو خوب پرچار کرنا.
ہم صرف دوسروں پر الزام لگاتے ہیں کہ دشمنان اسلام مذہب اسلام کی شبیہ خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم مذہب اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے کیا کرتے ہیں،، ہم تو خود ہی اسلام کی شبیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں خانقاہوں کو روزی روٹی کا ذریعہ بنا لیا، بزرگانِ دین کے آستانوں کو سیر و تفریح کا مرکز سمجھ لیا وہ بزرگانِ دین جنہوں اخلاق اور کردار کا ایسا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ لوگ جوق درجوق اسلام کے شامیانے میں شامل ہوتے گئے آج انہیں بزرگان دین کے آستانوں پر ہماری حاضری ہوتی ہے تو شکل و صورت، رہن سہن، سر سے پاؤں تک کا لباس بھی اکثر غیر اسلامی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں اگر واقعی ہمارے سینوں میں بزرگانِ دین کی سچی محبت ہوتی تو ہم اس پہلو پربھی غور کرتے کہ یہ صاحب مزار، صاحب آستانہ مرنے کے بعد بھی عقیدت و محبت کا مرکز بنے ہوئے ہیں یقیناً ان کی سیرت مشعل راہ ہے اور جب اتنا غور کریگا تو اسے یہ بھی احساس ہوگا کہ فنا ہونا اور بات ہے،، فنا فی اللہ ہونا اور بات ہے.
لیکن مسلمانوں کا ضمیر بھی مردہ ہوتا جا رہا ہے احساس نام کی چیز ختم ہوتی جارہی ہے مسجد کے مینارے سے مؤذن صدا لگاتا ہے تو لگاتا رہے ہم جو کام کر رہے ہیں وہ پورا ہونا چاہئے ذاتی مفاد پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے نتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری دنیا جہاں ایک طرف مسلمانوں کے لیے تنگ ہوتی جا رہی ہے طرح طرح کی مشکلات منہ کھولے کھڑی ہے وہیں دوسری طرف کرونا وائرس سے بچنے کیلئے حرمین شریفین کی زیارت اور عمرہ کے لئے پابندی عائد کر دی گئی چلئے تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ ایک بیماری سے بچنے کیلئے یہ احتیاطی تدابیر ہیں لیکن سوچنے اور غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کیا یہ مسلمانوں کو منظور ہے اس کے لیے کچھ دنوں تک خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کا دروازہ بند کردیا جائے اسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک بندہ جب شراب پیتا ہے تو اس وقت تک جب تک وہ منہ سے شراب لگائے رہتا ہے تب تک کے لیے اس کے دل سے ایمان نکل جاتا ہے جب شراب پی کر فارغ ہوجاتا ہے تو پھر ایمان واپس آتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مسلمان کو یہ گوارا ہے کہ چند لمحوں کے لیے اس کے دل سے ایمان نکل جائے اگر نہیں گوارا ہے تو پھر کیوں شراب پیتا ہے اور گوارا ہے تو پھر بے بسی کا رونا کیوں روتا ہے اور پھر بھی بے بسی کا رونا روتا ہے تویہ ایک طرح کی ہٹ دھرمی ہے اللہ تعالیٰ کا مزاق اڑانا ہے اور احساس نام کی چیز جس کے اندر باقی ہوگی تو اسے ایک سکنڈ کے لیے بھی دل سے ایمان کا نکل جانا ناقابل برداشت ہوگا اسے گوارا ہوہی نہیں سکتا اور ایسے ہی لوگوں کے لئے آج خون کے آنسو رونے کا وقت ہے کہ زیارت حرمین شریفین اور عمرہ تک پر بھی آج روک لگ گئی وقتی طور پر ہی سہی لیکن دنیا کے بہت سے ممالک کے مسلمانوں کے لئے حرم کا دروازہ بند کر دیا گیا افسوس صد افسوس دنیا میں برائیوں کا گراف کتنا اوپر ہوگیا ہے اگر اب بھی ہم نہیں سنبھلے تو آج حرم کا دروازہ بند ہوا ہے کل توبہ کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا اور در حقیقت آج خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی زیارت عمرہ پر عائد پابندی کا یہی پیغام ہے بس سوچنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور ہمیں اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
01 مارچ2020
جواب دیں