شاہ نواز اپنے کو سید لکھتے ہیں اور ہم یا راجیشور سنگھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سید نہیں ہیں اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نقوی بھی سید ہوتے ہیں اس رشتہ سے یہ ان کی اولاد ہیں جن کے ماننے والے مسلمان کہے جاتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ وہ کن کی اولاد ہیں؟ تو وہ عرب کے لات و منات جیسے بتوں کو پوجنے والے بت پرست تھے اور عرب کی تاریخ میں نہ رام جی ملتے ہیں نہ سیتا جی اور نہ ہنومان جی اس لئے اگر انہیں گھر واپس لایا جائے گا تو یہ جے شری رام نہیں کہیں گے بلکہ کہیں گے جے ابوجہل۔
مسلمانوں میں جتنے سید ہیں، صدیقی ہیں، فاروقی ہیں، عثمانی ہیں، حسنی ہیں اور حسینی، علوی یا فاطمی ہیں وہ ایسے مسلمان ہیں جو عرب سے ہندوستان آئے ہیں انہیں اگر گھر واپس لایا جاتا ہے تو شری مودی اور مسز سوشما سوراج سے کہئے کہ وہ سعودی عرب سے بات کریں کہ وہ اپنے آدمیوں کو اپنے گھر بلالیں۔ عرب سے جو مسلمان سب سے پہلے کیرالہ آئے یا سندھ آئے اور وہاں سے تجارت شروع کی پھر ان کا اتنا آنا جانا ہوگیا کہ انہوں نے کیرالہ کی ہی لڑکیوں سے شادی کرلی اور یہ شادی زور زبردستی سے کی نہ پیسے کے بل پر بلکہ اپنی شرافت، دینداری اور دیانت داری کے بل پر کی اور لڑکی کے والدین کی خوشی سے کی تو ان کی اولاد کو اگر موہن بھاگوت گھر واپس لانا چاہتے ہیں تو وہی بتائیں کہ کس کا نانہال کہاں ہے؟ اس لئے کہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دادیال عرب میں ہے۔
ایک بات ہم مسلمانوں کے لئے بہت خوشی کی یہ ہے کہ مسلمان کو ہندو بنانے میں پانچ لاکھ خرچ ہوتے ہیں اور عیسائی کو ہندو بنانے میں صرف دو لاکھ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی اپنے مذہب کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لیا ہے جیسے ہندوؤں نے اپنی اپنی پسند کے بھگوانوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے جن میں ایک بالکل نئے بھگوان سائیں بابا بھی ہیں جن کے متعلق سب سے بڑے دھرم گرو کہتے ہیں کہ وہ پلاؤ کھاتا تھا مسجد میں رہتا تھا اور دوسرے ہندوؤں کو بھی گوشت کھلاتا تھا۔ لیکن اس کے ماننے والوں نے دیوالی کے دن بتایا گیا تھا کہ وہ بھگوان تھے اور انہوں نے دیوالی کے دن چمتکار دکھایا تھا کہ تیل کے بجائے پانی سے دیے جلائے تھے۔ بعد میں اس کی تفصیل بھی بتائی کہ جس گاؤں میں وہ رہتے تھے اس میں تھوڑے لوگ انہیں مانتے تھے اور زیادہ تر انہیں ڈھونگی کہتے تھے۔ ڈھونگی کہنے والوں نے گاؤں کی ہر دُکان دار سے کہہ دیا کہ دیوالی کے دیے جلانے کے لئے سائیں کو کوئی تیل نہ دے۔ سائیں لٹیا اور پیسے لئے لئے دُکان دُکان گھومے سب نے تیل دینے سے انکار کردیا تب سائیں کو غصہ آیا اور انہوں نے لٹیا میں پانی بھر کے اس پر پھونک ماری اور تمام دیوں میں تیل کے بجائے پانی بھر کے آگ لگادی جس سے سارا گاؤں چمکنے لگا۔ اس دن سے سب نے انہیں بھگوان مان لیا۔
عیسائیوں نے بھی یہی کیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں نسخے بائبل کے تیار ہوگئے ہیں جس میں جس نے جسے حرام کرنا چاہا حرام کردیا اور جسے حلال کرنا چاہا حلال کردیا۔ اسی وجہ سے شاید سستے میں عیسائی ہندو ہوجاتے ہیں۔ لیکن مسلمان کی پانچ لاکھ کی بات سمجھ میں نہیں آئی؟ وہ ایک خدا کو مانتا ہے اسے ایک خدا سے ہٹاکر رام، ہنومان، کالی ماں، لکشمی، شری گنیش، گائے، بندر، سانپ، سورج وغیرہ وغیرہ کو خدا کا شریک منوانے میں پانچ لاکھ کیوں خرچ ہوں گے۔ مسلمان کو تو ہندو بنانا بہت آسان ہے کہ وہ ایک خدا کے بجائے ایک کسی اور کو خدا مان لے بس وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اب وہ ہندو ہوا یا مشرک یا جو کچھ بھی ہوا بس مسلمان نہیں رہا۔ ہمیں تو شبہ ہوتا ہے کہ یہ ایسے ہی کمائی کا ذریعہ ہے جیسے رام مندر کے لئے ہزاروں کروڑ جمع کیا تھا نقد روپئے کے بجائے نہ جانے کتنی سونے کی اینٹیں بھی تھیں اور کتنا روپیہ پونڈ اور ڈالر کی شکل میں تھا۔ ایسے ہی اب آر ایس ایس نے مسلمان کو گھر واپس لانے کے نام پر جمع کرنے کا ڈھونگ رچایا ہے۔
دھرم جاگرن نے شاہ نواز حسین اور مختار عباس نقوی کو تو واپس لانے کی بات کی ان دونوں کی پتنیوں کو لانے اور جن ہندو لیڈروں کی بیٹیاں مسلمانوں کے گھروں میں ہیں ان سے شروعات کیوں نہیں کی؟ پارلیمنٹ میں حکومت مذہب کی تبدیلی پر بحث کرانے کے لئے تیار ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ بحث کی بنیاد سیکولرازم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوگا یہ دونوں ایسے موضوع ہیں جنہیں آر ایس ایس نہیں مانتا اور جب سنگھ نہیں مانتا تو حکومت کے ماننے سے کیا ہوتا ہے؟ حکومت نریندر مودی ہیں جنہوں نے دہلی سے لے کر واشنگٹن تک گاندھی جی کو دیش پتا ثابت کیا چین کے صدر سے ان کا چرخہ چلوا دیا اور پارٹی یا سنگھ وہ ہے جو کہتا ہے کہ ناتھورام گوڈسے محب وطن تھا یا جو کہتی ہے کہ ہندوستان میں جو ہے وہ رام زادہ ہے۔ اسی ملک کے صوبے مہاراشٹر میں سولہ سال پہلے جب بی جے پی اور شیوسینا کی حکومت تھی اس وقت ایک شاندار تقریب گوڈسے کے جنم دن کی منائی گئی تھی اتفاق سے ٹی وی پر دیکھنے کا ہمیں بھی موقع ملا دولھن کی طرح سجے پنڈال میں کئی بھاشن ہوئے ایک صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں بہرحال گاندھی جی کو ختم کرنا تھا اگر ناتھو رام ناکام ہوجاتا تو یہ خدمت ہم کسی دوسرے کے سپرد کرتے اس کے بعد حکومت کانگریس کی آگئی۔ اب پھر بی جے پی اور شیوسینا کی حکومت ہے اور ابتدا اس کی یہ ہے کہ ایک ممبر پارلیمنٹ گوڈسے کو محب وطن بتا رہا ہے اور مودی صاحب اسے پارٹی سے نہیں نکالتے۔
یہ بات تو پارلیمنٹ کے ممبر کی ہے جب اُترپردیش کے گورنر صاحب کہیں کہ اجودھیا میں رام مندر بننا چاہئے اور ان کے کچھ کہنے کی راہ میں یہ رکاوٹ نہ ہو کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لئے کسی کو کچھ نہیں کہنا چاہئے تو ہماری رائے میں مان لینا چاہئے کہ دہلی میں ہندو راج ہوگیا اب مسلمانوں کو اپنے بزرگوں سے درخواست کرنا چاہئے کہ وہ دارالحرب قرار دے کر اس کے مسائل کی وضاحت کردیں اس سے پہلے کہ حکومت دو تہائی ممبروں کی مدد سے دستور سے وہ سب نکال کر پھینک دے جو اس کی راہ کی رکاوٹ ہے۔
جواب دیں