شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا
ارشاد علی افریقہ
شہر مرڈیشورمیں یقینا ماضی،حال میں بہت ساری علم دوست شخصیات پیدا ہوئیں لیکن مرحوم محمد زبیر منا جیسی ہمہ جہت شخصیت جس نے چھوٹی سی عمر میں معاش کی تلاش میں نکلا اور شروعات مرکارہ، بمبی سے طبع آزمائی کرتے ہوئے بالآخر جزيرة العرب شہر دمام میں اپنا آخری پڑاؤ ڈالا اور آسودہ زندگی کے لئے بہتر معاشی استحکام کے حصول کے لئے اپنے عرب دوست شیخ قحطانی کی کفالت میں جو تجارت کی بنیاد رکھی جو بہت کم مدت میں ترقی کی دشوار منزلوں کو طئے کرنے کے بعد معاشی تجارتی استحکام نصیب ہوا۔
ماشاء اللہ تجارت کے استحکام اور فروغ نے قوم و ملت کا قومی اداروں کا بہت کچھ بھلا ہوا ہے جس سے قومی خدمت گزار ، نبض شناس لوگ واقف ہیں جس کی تفصیلات کی ضرورت نہیں ہے ۔
مرحوم کا کمال ہی تھا اپنی تجارتی صلاحیت و مشغولیت میں ہوتے ہوئے قومی اجتماعیت کے لئے جو خاموش کوشش کی ہیں وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے ۔
زندگی کے شباب میں پر سکون زندگی کے لئے نیز صالح نسل کی افزائش کے لئے ایک ہمسفر خاتون جنت کی ضرورت ہوتی ہے جو وفا شعار خدمت گزار محبت پیار نچھاور کرنے والی ہو اور ال اولاد کی تربیت کرنے کا ذوق رکھتی ہو ماشاء اللہ اس خاتون کو مرحوم جیسا ہمسفر ، راز دار ، وفا شعار، خدمت گزار ،محبت پیار نچھاور کرنا شوہر ملا جو آگے چل کر اپنی اولاد کے لئے وکان ابوھما صالحا کی عملی تصویر بنے۔
مرحوم اپنے بھائی بہنوں کے لئے صرف بھائی نہیں تھے بلکہ ان کے لئے مہربان باپ کی مانند تھے۔
مرحوم قومی سطح پر اخلاق حسنہ، کردار ، دوراندیش ، ایثار قربانی ، صاحب رائے مخلصانہ مشورے دینے والی شخصیت تھی۔ آپ کا شمار قومی سطح پر متفق علیہ غیر متنازع شخصیات میں سے میں ہوتا تھا آج نہ رہے ۔
مدرسہ تنویرالاسلام و فائزات آپ کی امیدوں کا مرکز اور مشن تھا ۔ مدرسہ ھذا کے لئے ماضی میں تن من دھن کی قربانی پیش کرنے والوں کی کمی نہیں تھی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق خدمات کو پیش کیا مگر مرحوم زبیر بھاو منا کی کچھ اور بات تھی جھنون مدرسہ کےلئے اپنے اپ کو مکمل طور یعنی مدرسہ کی ظاہری و باطنی ضروریات کی فراہمی کے لئے مشن کی طرح خدمت انجام دی اس طرح خدمت دینے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ۔
لہذا مرحوم نے مدرسہ کی مسند صدارت پر فائز رہ کر مدرسہ کی خدمت کو مشن بنا کر داعی اجل کو لبیک کہا اور راہی جنت ہوئے ۔ہوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا دار فانی سے کوچ کرتے کرتے صدقہ جاریہ کا بڑا دفتر اپنے ساتھ لے چلے بقول شاعر
(کس قدر تیری ضرورت آج تھی تنویر اسلام کو
کتنی امیدیں تھیں تجھ سے ملت و اقوام کو )
(علم دین کی خدمت اس کے لئے خلوص سے کام کرنے والے افراد کی یوں ہی کمی ہے مگر ان جیسے اصحاب علم دوست کا ہم جدا ہونا یقینا قوم و ملت کا بڑا خسارہ ہے )
ان کی وفات کے بعد انکے جسد خاکی کو آخری دیدارِ کرنے والے حسرت بھری نگاہوں نے اس طرح زبان حال کہا ہوگا
( دل سے ان کی موت کا غم دور ہوگا کس طرح
کس طرح ان کو بھلایا جائے گا پروردگار )
جس شخص کی زندگی کے آخری ایام مدرسہ کے طلبہ و طالبات کی راحت رسائی کے لئے قربانیاں دی ہوں گویا
(کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرنا اس کو اوڑھنا بچھنا بنا لینا ہر ایک کی بس کی بات نہیں مگر مرحوم زبیر بھاو منا اس کی ایک مثال ہے )
اجتماعی زندگی کی حقیقت سے اور اس کے ثمرات سے جو شخص محسوس کرتا ہو وہ کیوں کر انفرادی زندگی کو ترجیح دیگا ہمارے مرحوم زبیر بھاو کا کیا کہنا ۔
(جماعتی زندگی ہمارے اسلاف کی بڑی امانت ہے اسی امانت کی حفاظت کے لئے مرحوم زبیر بھاو منا نے بہت سالوں پہلے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سعودی عرب دمام و ریاض میں مقیم مرڈیشور کے احباب کو جماعتی نظام کے تحت جوڑنے میں بنیادی کردار رہا ہے )
آپ کی پوری زندگی بلند فکر کی آئینہ دار تھی اور انکی یادیں وقفہ وقفہ سے ضروری رلائیں گی مگر موت کی منزل سے گزرنا تقدیری فیصلہ ہے اس منزل سے بڑی راحت کے ساتھ کو گزرنا بڑے خوش نصیب انسان ہونے کی علامت ہے
(ہر لمحہ تیری یاد کا تاباں درخشاں جادوان
یاراں تیز گام سے منزل کو جالیا
(جماعتی زندگی کے لئے ایک منظم شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے زبیر بھاو منا اس کی عمدہ مثال ہیں)
( منتشر افراد قوم کو جماعتی نظام دینا اور اس کا مشترکہ ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن مرحوم زبیر بھاو منا اور ان کے رفقاء کی دوراندیش نگاہوں نے آسان کردیا اور اس طرح مرڈیشور کے احباب کو ایک مرڈیشور مسلم خلیج کونسل کا پلیٹ فارم مہیا کیا )
داماد اور بہو کا رشتہ بہت نازک ہوتا ہے ان دونوں کو اپنے بیٹے و بیٹوں جیسا پیار نصیب ہو زہ نصیب
(مرحوم کے اخلاق کردار گفتار اور ان کی قابلیت صلاحیت کو پرکھنے کے لئے اس کا اپنا شخص گواہ ہوتا ہے) داماد محترم جناب آمین سیف اللہ صاحب کی زبانی پتہ چلا ہمارے سسر مرحوم ہمارے لئے مشفق والد ماجد کی طرح تھے ۔
دوست احباب کا ہونا کوئی عیب و نقصان دہ نہیں مگر ایسی دوستی جو آخرت تباہ و برباد کردے یقینا نقصان دہ ہے لیکن ہمارے مرحوم زبیر بھاو منا ایک ایسے دوست تھے جو بھلائے نہیں بھلائے جائیں گے
(ایک مخلص اور بےتکلف علم دوست جاتا رہا مرحوم ایک گرم دم جستجو تھے ، جس کام کو لیتے بس اسی میں لگ جاتے ہمت و حوصلہ کی وجہ وہ قوم کے نوجوان میں بےحد عزیز تھے یونس قاضیا صاحب ان کے رفیق خاص تھے )
اہل خانہ میں بیوی بچے نواسے پوتے ان کے لئے باپ دادا نانا روشن چراغ کے مانند ہوتے ہیں اور اولاد ہمدرد باپ کی تلاش میں ہوتی ہیں
(حسن معاشرت کے لئے گھر کی آل اولاد والدین سے بڑھ کر کون ہمدرد ہوسکتا ہے مرحوم اپنی بیوی بچوں کے لئے سراپا ہمدرد تھے ۔والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا
(دار فانی سے سوئے دارالبقا چلنا پڑا
زندگی کو موت کی آغوش میں میں پلنا پڑا
التجا عرض رحمت کی ہے اے شاہ ازل
پھر عطاء کر قوم کو ان کا نعم البدل
جاں دے ہی دی زبیر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بےقراری کو قرار اہی گیا
زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں
کامیاب تاجر کے لئے وقت کی پابندی اور ڈسپلن بہت ضروری ہے مرحوم زبیر بھاو منا کی زندگی ہمیں اس کی عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے
ہر قوم میں چند روشن دماغ روشن ضمیر اشخاص ہوا کرتے ہیں مرحوم زبیر بھاو منا روشن دماغ روشن ضمیر انسان تھے
بہرحال کاتب تقدیر کا فیصلہ کوئی ٹال نہیں سکتا محترم زبیر صاحب منا کاتب تقدیر کی طرف سے لائی ہوئی آجل مسمى کو پورا کیا اور اپنی زندگی کو موت تک خاطر خواہ کامیابی حاصل کیلے اپنی جان جو اللہ کی امانت تھی بڑی دیانت داری کے ساتھ گزار اللہ تعالٰی کے حضور حاضر ہوئے
مرحوم ہمیں پیغام دے گئے ہیں ائے میری قوم تمہیں بھی اللہ کے حضور جوابدہ ہونا ہے موت تک اپنی زندگی کے باقی ایام کو علم نافع قال اللہ قال رسول کی اطاعت اس کی نشر و اشاعت میں لگادو سوفیصد کامیابی قدم چومیں گی
اللہ تعالٰی ہمیں موت سے عبرت حاصل کرتے ہوئے موت سے پہلے موت کی تیاری کی سعادت نصیب فرمائے صالحین ابرار و متقین کے زمرے میں شامل فرمائے
اللہ تعالٰی مرحوم زبیر بھاو منا کی بال بال مغفرت فرمائے جملہ مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے پسماندگان ، لواحقین ، خویش واقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور قوم کو مرحوم کا بہترین خدمت گزار نبض شناس مردم شناس فرد نصیب فرمائے
اللهم اغفر له وارحمه و ارفع درجته في المهديين و اجعل قبره روضة من رياض الجنة والسلام
جواب دیں