منور رانا: عہدِ رواں کا حساس نوعیت کا مقبول عوامی شاعر

شاہ خالد مصباحی

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 

    ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے 

    تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا 

سیاسی میدان میں اپنے ایک مزکورہ بالا شعر سے حکومتی مشینری و عملا کو جھنجھوڑ دینے والا ایک قابلِ فخر ، باہمت و حوصلہ مند شاعر منور رانا صاحب، جس نے اپنی شاعری سےانسان اور اس کی  زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا، جس نے اشعار کہہ کر اپنی انوکھی خوبیوں کی بناء پر بر وقت لوگوں کا علاج، جوانوں کی آواز، بوڑھے ماں و باپ کا سہارا، حالات کی نزاکت و کمپرسی کے عالم میں لوگوں کے غموں کا غمخوار بننے کا نعرہ دیا۔ اس مختصر سی مدت زندگی میں اپنے شاعری سے خوب نام و شان کمانے والا یہ مقبول جہان شاعر، آج محتاج تعارف نہیں۔

 ملک و بیرون ممالک کے سبھی لوگ اور بچے ، جوان ، بوڑھے اور سبھی عمر کے لوگ ان کی اشعارِ بے مثال کی بنیاد پر جو بر وقت لوگوں کے احساسات و تجربات، درد و کرب کی ترجمانی کر رہی ہوتی ہیں، ان سے شناسائی رکھتے ہیں۔ ایک اچھے شاعر کے اندر یہ ایک بنیادی کمال ہوتا ہے کہ سماج و حالات کے تمام پہلوؤں کو اپنے مثبت نظریہ سے دیکھ کر اس کے منفی اثرات کو اجاگر کرتا ہے، ان خامیوں و خوبیوں پر شعر لکھتا، پڑھتا ہے اور چند لفظوں میں ان باتوں کو کہہ دیتا ہے جس کو کہنے کے لیے ایک غیر شاعر انسان کو ہزاروں صفحے درکار ہوتے ہیں۔ منور رانا صاحب اپنے فن و شعور میں کامل دسترس رکھتے تھے، اور زندگی کے سبھی مراحل کی نگرانی و ترجمانی آپ نے بڑی انوکھی صورت میں اپنے اشعار و بیان کے ذریعہ فرمائی۔ 

میری نظر میں عہدِ رواں و ماضی قریب میں اقبال و غالب، میر و سودا کے بعد کوئی ایسا شاعر نہیں دکھتا ہے جس نے زندگی کے سبھی پہلوؤں پر بڑی گہرائی و گیرائی سے اپنی بات رکھی ہو، فرقت و جدائی، عشق و عاشقی کی ناکامی، محبت کی جیت مثل سیراب افسانہ، خورشید و ماہ کی قسمت نگار داستانوں، حالی و فیضی، مجنون و مسرور کی انقلابی ، غزل گو باتوں  کی ادبیات اردو میں بھرمار ہے اور یہی اس کی امتیازی صفات بھی ہے۔ اس تناظر میں منور رانا صاحب کی شخصیت، اپنے ستر سالہ زندگی میں اپنی موروثی عوامل کی پاسداری کرتی نظر آئی اور اپنی شاعری ، اور اس کے اندر پائے جانے والی گہرائی، مفہوم کی پیچیدگی، اور سیاسی و عسکری ، سماجی و فلاحی جیسی کیفیتوں سے مزین لازوال مطابقت کے لیے عالمی سطح پر  ممتاز نظر آئے۔  رانا صاحب کا ہر شعر اپنے فن و مضمون میں اعلی ترین نوعیت کا درجہ رکھتا ہے، جس کو عوام و خواص سبھی نے یکساں درجہ و  احترام دیا، اور جس نے اردو و ہندی، بنگالی ادب پر گہرا اثر اندیخت کیا۔ 

    عالمی سطح پر رانا صاحب کی مقبولیت کی مختلف وجوہ ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ان کی شاعری ہی تھی،  دنیا بھر میں شاعری کے شائقین و ادبیات کا عاشق و غم خواں  ان کی قدر کرتے تھے۔ اردو زبان کا آج کوئی ایسا شاعر و نثرنگار نہیں جو ان کے نام سے واقف نا ہو، اور یہ صلہ ان کی اس مختصر سی مدت زندگی میں بے شمار اردو ادب و شعر و شاعری کی خدمت کرنے کے واسطے سے ہے، جو اب زندگی کے ہمہ موڑ پر ان کے رحلت فرما جانے کے باوجود بھی ان کے احساسات و شواہد ، جزبات و زندہ دلی کو لوگ زندہ و جاوید رکھیں گے۔  

عشق و عشرت کی بے باک ترجمانی، جس نے بے باک انداز میں اپنے سوز قلب و جگر کو عشق و عاشقی کی تئیں، الم و نشرح کا داستان الاپ کیا، جس نے خالص ایک شعر میں سارے عاشقوں و غم فرقت کو سمیٹ دیا، جس کو منور صاحب اپنے اچھوتے انداز میں یوں بیان کرتے ہیں :

               اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو

               تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو

    

   ڈائیلیکٹیکل مواد کسی بھی موضوع میں ہو تو اس فن کی خصوصیت کی  رنگا رنگی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے، اور یہ ڈائیلاگ اگر عشق کی بابت میں مستعمل ہو تو ہر عاشق مزاج شخص اس کی خوبی و منزلت کو بخوبی  سمجھ سکتا ہے۔ جیسا کہ منور صاحب نے اپنے ایک شعر کے زریعہ ایام مرورہ، عشق کی یک رخی کی یوں ترجمانی کرتے ہیں :

       میں راہ عشق کے ہر پیچ و خم سے واقف ہوں

       یہ راستہ مرے گھر سے نکل کے جاتا ہے

منور رانا صاحب کی شاعری ، صرف عشق و عاشقی کے موضوع پر ہی نہیں، بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کے زریعہ ماحول اور اپنے اردگرد کے مسائل پر اس قدر نظر ڈالی کہ لاکھوں صفحات ان مسائل پر موجود لیٹریچر عوامی زندگی کو متاثر نہیں کرسکیں اور ناہی اتنی سرعت سے عوامی توانائی و شہرت حاصل کر پائیں، جیسا کہ ملک ہندوستان میں اس چیز کی ازالہ کی کوشش کرنے میں حکومت روزآنہ منصوبے بناتی ہے، شہری تنظیمیں عوامی بیداری قائم کرتی ہیں، لیکن سماج کا ایک بڑا طبقہ بے چینی و بے قراری کا شکار ہے، اس سے چھٹکارا پانا، ان کے لیے ممکن نہیں۔ لیکن فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے ملک کے ہزاروں شہری پائے جائیں گے جو بلا تکلف چین و سکون کی نیند لیتے ہیں،صبح کی روٹی کھائی، شامیانہ کا انتظام نہیں لیکن دل و دماغ پر کسی چیز کا کوئی بوجھ نہیں: 

    سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر 

     مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے 

شاعر اپنے آپ کو ہر روز کے وجود میں دکھانے کی کوشش کرتا ہے، ایک اچھے شاعر کی فکر کبھی منجمد نہیں ہوسکتا، اس کی سوچ دن و رات کے گھوماؤ کے ساتھ چکر کاٹتی رہتی ہے، اور وہ حالات کی سنگینی اثرات کے ساتھ اپنے تخیل کا اثر چھوڑتے رہتا ہے۔ اسی طریقے سے منور صاحب کا ذہن و دماغ جب آج کے اسکولی نظام، مختلف چیزوں کے نام پر بھاری بھرکم فیس پر  پڑی تو وہ اس دکھ و غم کو یوں بیان کرتے ہیں:

               بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات 

              میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا

 

یہ چیز سچ ہے کہ آج انسانیت اپنے غیر تجزیہ شدہ اعمال کی وجہ سے اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ فکر غیر کو بھلا کر اپنی مجموعی ترقی کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے جب کہ انفرادی ترقی ہی سماج کی مکمل ترقی ہے، آج انسان دوسروں سے آگے بڑھنے کی جلدی پر ایسے اعمال کر جاتا ہے ، جس سے سیکنڈوں میں انسانیت کی اقدار و روح  کچل دیا جاتاہے۔ ماں ہی دنیا کا ایک ایسا واحد رشتہ ہے، جس نے اپنی تمام تر کامیابیوں، خواہشوں، ضروریات سے اپنی اولادوں کو اوپر رکھتی ہے، یہ رشتہ کبھی بھی پرایہ نہیں ہوتا، دونوں کے احساس و شعور میں بوڑھاپے تک وہی بچپن کے ساون بھادوں کا کھیل قائم رہتا ہے۔  لیکن افسوس آج انسان کی زندگی ایک موڑ پر کہی نا کہی اس کی تقدس کی بھی پامالی کر جاتی ہے، اور اس کا احترام ولڈ ہاؤس یا کسی دیگر صارف دستی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔  موجودہ تناظر میں ماں کی تقدس کے حوالے سے جناب منور صاحب کی تبلیغ کا کام بہت اہم ہے، اور ماں کا موضوع آپ کی شاعری کا نہایت اہم موضوع رہا، اور یہ موضوع آپ کی تربیت و نظر سے بہت قربت بھی رکھتی ہے۔ بوڑھے ماں ، باپ، ان کے لاغر جسم کا سہارا بننے کی طاقت آج کے دور میں  ہرکوئی نہیں رکھتا، آپ ایسے دور میں فرماتے ہیں:  

     تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک 

     مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی 

انسان کتنا بھی عمر داراز ہوجائے اور ترقی کے کتنے بھی شاہراہوں کو چھولے، لیکن ماں کی نظر شفقت، پیار ہر انسان پر ایسے ہی برستا ہے، جس کو رانا صاحب نے اپنے اس شعر کے ذریعہ سے عوام و خواص کو محسوس کرایا

   کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں 

       یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے 

والدین کی خدمت کرنا ہر انسان پر اولین فرض ہے، والدین کی خدمت ، بوڑھاپے میں ان کا سہارا بننا، ان کی خدمت میں لگے رہنا، جیسی "کرنی ویسی بھرنی کی مانند ہوتی" جیسی خدمت آپ اپنے والدین کی کریں گے ویسے ہی جزا آپ کو اپنے بچوں کے زریعہ ملے گا۔ مذہبی و سماجی حیثیت سے بھی ماں کی حیثیت و تقدس نرالا ہے۔ ان کی شعری مفہوم میں جہاں مذہب کا رنگ دوبالا ملتا ہے وہیں پر سماجی برائیوں کے ازالہ کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ حدیثوں میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ ہجرت و جہاد کی بیعت کرنے  سے بھی افضل ہے کہ انسان والدین کی خدمت بجا لائے، آپ نے مجموعی طور سے ماں کی اہمیت و افادیت، افضلیت و ابتری پر کھل کر شعر کہے اور اس سے منسلک ہر مسائل کی بیباکانہ ترجمانی فرمائی، جس سے ان کے اندر مذہبی جذبات ہونے اور اس سے قلبی لگاؤ رکھنے کا سر چشمہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اس ضمن میں رانا صاحب کے چند قابلِ رشک اشعار مندرجہ ذیل ہیں: 

        یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں 

             اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا 

             برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر 

     ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے 

    یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا 

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

ماں کے موضوع پر ان کی شہرۂ آفاق غزل، جس کو لوگوں نے خوب سراہا، محفلوں و انجمنوں کی خوب زینت بنی، اکیڈمیوں اور کونسلوں کی طرف سے اعزازات و اسناد سے نوازے گئے، حتی کہ اس غزل کا ہر حرف صداقت پر مبنی، معاشر کی ناکامی و بدحالی کی تسدید کرتی ہے۔ جس کا معانی و مطالب ہر بصیرت مند انسان کے قلب و جگر کو سنتے ہی بھالی، خوب زکر خیر کیا اور اس سے خوب زکر انام ہوا، تو ضروری ہے کہ اس کیمیائی فکر پر مشتمل، غزل کے چند اشعار آپ احباب کی خدمت میں پیش کروں : 

      کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی 

 میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی 

یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا 

میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی 

ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا 

بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی 

کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید 

اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی 

مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری 

تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی ۔۔۔۔

   ریل گاڑی سے جڑے مسائل ہندوستانیوں کے لیے کافی حیران کن ہیں، کھانے، پینے وغیرہ کی سہولیات درکنار، ریل کے ڈبوں و پلیٹ فارم کی صفائی و ستھرائی کا مسئلہ بھی پریشان کن ہے۔ اور اس سے زیادہ دکھ و تکلیف کی بات یہ ہے کہ اس گندے پن میں ملک و انسانیت کی روح اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ ہر اسٹیشن سے قریب لوگوں کی جگی، جھوپڑیاں، جس میں معصوم بچوں کی مسکراہٹ سے لےکر قہقہ زن بوڑھے افراد اپنی زندگی کی روٹی سینک رہے ہوتے  ہیں، ہر طرح کی سہولیات سے مجرد ہوکر جیون کی ناؤ پر ایسے لوگ  سوار ہیں، آخر ان کے درد کا مداوا کیسے ممکن ہوگا۔ بڑی شفقت بھرے لہجے میں رانا صاحب ان‌کے تحت اپنے خیالوں کی پردازی یوں کرتے ہیں : 

   فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں 

   وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

اسی طریقے سے مرحوم منور رانا صاحب زندگی سے جڑے ہر مسائل پر انہوں پر اپنے اشعار و بیان کے زریعہ اپنی بات رکھی، اور انسانوں کے مختلف علاقوں، طبقوں ، نسلوں اور تہذیبی ورثے و تقافت کے تحت اپنے خیال کا اظہار فرمایا۔ جیسے کہ میل، ملین،  پیار و محبت کے تہوار، بھائی بہن کے رشتہ کی لاج و وفا سے مستعار رکشا باندھن تہوار کی ترجمانی آپ یوں کرتے ہیں: 

   کسی کے زخم پر چاہت سے پٹی کون باندھے گا 

  اگر بہنیں نہیں ہوں گی تو راکھی کون باندھے گا 

ایک اور بڑا دلچسپ شعر جو بگڑتے ہوئے سماجی تعلقات کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور شہری و دیہی تعلقاتِ انسانی کی غمازی کرتی ہے کہ

تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے 

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں۔  

 یہ ہے  مرحوم منور رانا صاحب کی زندگی کی کلیدی کرداروں میں سے ایک ادنی سی جھلک، جو انہوں نے سماج و حالات، ملک و ملت، عوام و خواص سے جڑے مسائل کی بڑی بیباکانہ انداز میں اپنے اشعار کے زریعہ توضیح فرمائی ۔ 

اس کے علاوہ مرحوم موصوف کے اندر بہت سی ایسی خوبیاں جمع تھیں جن کو وہ عمل میں لاکر حق و حقیقت کا اظہار فرماتے تھے، وہ بیباک شاعر ہونے کے ساتھ، اچھے ادیب و انسان بھی تھے۔ شعر نگاری کے ساتھ نثر نگاری کے صنف  میں بھی ممتاز تھے۔ ان کی طرزِ استدلال و بیان میں بیک وقت لکھنوی، کلکتہ کا رنگین ادب غالب تھا، جن کو ان کی نثری تالیف " بغیر نقشے کا مکان، سفید جنگلی کبوتر، چہرے یاد رہتے ہیں، ڈھلان سے اترتے ہوئے اور پھنک تال" کو پڑھ کر محسوس کیا جاسکتا ہے۔   

منور رانا صاحب سن 1952 میں اتر پردیش، بھارت کے رائے بریلی شہر میں پیدا ہوئے، اور زندگی کے گوشوں کو مختلف شہروں میں گزارکر گزشتہ شب بروز اتوار لکھنؤ کے پی جی آئی ہاسٹل میں آخری سانس لی۔ اور اپنے پیچھے روتا بلبلاتا ہوا پسماندگان و محبان کی کثیر جماعت چھوڑگئے۔ 

  اس  مقبول عوامی شاعر جس نے  ہندی اور اودھی الفاظ کو اردو اشعار میں استعمال کرکے موجودہ نسل کے لوگوں کے لیے نیا دریچۂ فن کھولا ہے، اس کا صد بار احترام کرنا ہم ہندوستانیوں، اردو دانوں  پر لازم ہے۔ بالآخر اس مختصر سی تحریر کے زریعہ مرحوم کی روح کو ان کے اس شعر کے زکر کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں: 

        مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے

    مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

   جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہو جائیں گے ہم

اے زمیں اِک دن تری خوراک ہو جائیں گے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے