از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى ، آكسفورڈ
دل جو تها اك آبله پهوٹا گيا
رات كو سينه بہت كاٹا گيا
گاؤں ميں جب كوئى جانور مرتا ہے تو آبادى اور كهيتوں سے پرے كسى بنجر زمين پر اسے پهينك ديتے ہيں، چيل اور گِدهہ آ پہنچتے ہيں، اور مزه لے لے كر اسے كها تے ہيں، هم لوگ بچپن ميں چيل اور گِدهوں كى بهيڑ سے سمجهه جاتے تهے كه كوئى مردار پهينكا گيا ہے، اور اس طرف جانے سے بچتے تهے۔
كل رات نو بجے كے قريب دار العلوم ندوة العلماء، لكهنؤ كى سامنے كى چہار ديوارى پر كچه موم بتياں جلائى گئيں، مجهے اور اسى طرح عام ندويوں بلكه عام مسلمانوں كو اس كى خبر اس وقت ہوئى جبكه مردار كهانے والے انسان نما چيل اور گِدهہ اس پر ٹوٹ پڑے، اور اس سے اپنى بهوك مٹانے لگے، ديكهتے ديكهتے ان كى بدبو ہر طرف پهيل گئى، غلاظتوں كے ناپاك دفتر تيار كئے گئے، اور ايسى عفونت اٹهى جو سنڈاس سے بهى بد تر تهى، زميں پر زلزله برپا گيا اور فرشتوں كو شرمانے پر مجبور كيا گيا، كائنات كى وسيع فضا ميں خدا كے بندوں كا سانس لينا دو بهر ہوگيا۔
مجه سے ميرے كچه دوستوں نے كہا كه ميں اس پر كچه لكهوں، ميں نے سوچا ہر چيز پر لكهنا صحيح نہيں، چيلوں اور گِدهوں كا كام مردار كهانا ہے، دو ايك روز ميں كوئى اور مردار مل جائے گا اس پر ٹوٹ پڑيں گے، اور اگر كوئى مردار نه بهى ملا تو اپنى بهوك مٹانے كى خاطر اپنے قلم فريب كار اور اپنى زبان نيش دار سے نئے مردے ايجاد كر ليں گے، گاؤں ميں بهى كسى نے مردار كهانے والے جانوروں كو كبهى كوئى نصيحت نہيں، البته عام لوگوں كو تاكيد ہوتى تهى كه دو چار روز تك اس علاقه سے دور رہيں كيونكه بدبو سے اذيت ہوگى اور مشك وعنبر سے بهى اس كا ازاله آسان نه ہوگا۔
ميرے ذہن ميں آيا كه ان چيلوں اور گِدهوں كو سمجهانا مناسب نہيں، ناپاكوں سے پاكى كى اميد نہيں، ستمگروں سے مہر كى توقع نہيں، ليكن عام مسلمانوں كے لئے يه واضح كرنا ہمارا فرض ہے كه ايسے حالات ميں كيا كريں، قرآن كريم ميں بهى افواه پهيلانے والے فاسقوں سے خطاب نہيں ہے، بلكه اہل ايمان سے خطاب ہے كه ان كے شر سے بچيں، فرمايا:" يا ايها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا أن تصيبوا قوماً بجهالة"، اس مضمون كى متعدد آيتيں ہيں، اور حديثوں ميں بهى اہل اسلام كو منافقين اور شر پسندوں كے فتنوں سے دور رہنے كى تلقين كى گئى ہے۔
اہل ايمان اپنا وقت كار آمد چيزوں ميں لگاتے ہيں، خدا كى بندگى كرتے ہيں، ذكر كرتے ہيں، قرآن كريم كى تلاوت كرتے ہيں، طلب علم ميں مشغول ہوتے، معيشت وتجارت پر توجه ديتے ہيں، اور دوسرے دنيا وآخرت كے نفع بخش كاموں ميں لگتے ہيں، وه فضول باتوں پر دهيان نہيں ديتے، افواہوں پر كان نہيں لگاتے، اور مسلمانوں كا گوشت كها كر اپنے بد طينت ہونے كا اعلان نہيں كرتے۔
اے ميرے اہل ايمان بهائيو! ذرا سوچو، جس اداره ميں توحيد كى تعليم ہو رہى ہے، جہاں ہمه وقت قال الله وقال الرسول كى صدائيں گونجتى ہيں، جہاں كے علمائے ثقات نے سيرت النبى لكهى، ارض القرآن تصنيف كى، سيرت الصحابه والتابعين تحرير كى، جہاں سيرت سيد احمد شہيد لكهى گئى، جہاں كے فارغين ہندوستان كے گوشه گوشه ميں دين كى خدمت كر رہے ہيں، جہاں كے سند يافته دور دراز ملكوں ميں دعوت وتبليغ كا كام كر رہے ہيں، جن كى كوششوں سے مسلمانوں كى اصلاح ہو رہى ہے اور غير مسلم حلقه بگوش اسلام ہو رہے ہيں، كيا وه اداره چند لمحوں ميں شرك كا علمبردار بن گيا؟۔
رائے بريلى ميں رہنے والے اس سن رسيده پاكباز وصاف دل، وارث تحريك توحيد وسنت، جانشين اہل صلاح وتقوى پر شرك كى تہمت دهرى جانے لگى، وه جس كى راتيں ياد الہى ميں گزرتى ہيں، جس كے دن تعليم وتربيت ميں بسر ہوتے، جو آه سحر گاہى ميں مست ہے، جس كى خلوت خوش، جس كى بزم خوش، جو مبارك وميمون ہے، جو سعيد وكامران ہے، جسے ديكهكر خدا كى ياد آتى ہے، جس كى صحبت سے باطن كى تاريكياں دور ہو جاتى ہيں، جو اس عہد سيادت ظلم وظلام ميں مينارۂ ہدايت ہے، جو اس وقت ملت بيضا كى آبرو ہے، جس كا سينه سوز والم سے داغ داغ ہے، جس كا اندروں درد وغم سے فگار ہے، اور تمہارى سادگى كه تم نے اس بيہودگى پر يقين كر ليا! كيا تم واقعى الله كے نيك بندوں كو تكليف پہنچا كر خوش ہوتے ہو؟ كيا تم بنى اسرئيل كى اس سنت پر گامزن ہو جس سے تمہارے پروردگار نے يه كہكر روكا تها "لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها"؟ كيا تم سورۂ نور كى وه آيت بهول گئے جس ميں تمہيں يه ہدايت كى گئى ہے كه جب اس طرح كى فتنه انگيز باتيں پهيلائى جائيں تو تم اپنے مسلمان بهائيوں اور بہنوں سے حسن ظن ركهو اور كہو كه يه سراسرافترا اور افك مبين ہے۔
كيا وه ضرب المثل تمہيں ياد نہيں: "نیش عقرب نه از ره کین است، اقتضای طبیعتش این است"، يعنى بچهو كا ڈنك كسى دشمنى كا نتيجه نہيں ہوتا، بلكه ڈنك مارنا اس كى فطرت كا تقاضا ہے، تم ان منافقين كى باتوں پر دهيان نه دو، يه آج كسى كو ڈنك ماريں گے، كل كسى اور كو، ان كى فطرت ہى ڈنك مارنا ہے، ان ميں اور بچهو ميں ايك فرق ہے، بچهو كسى دشمنى اور نفرت سے ڈنك نہيں مارتا، يه وه نفاق پيشه ہيں جن كے دل گندے ہيں، دشمنى اور نفرت سے پر ہيں، ان كو ہر اس بات ميں مزه ملتا ہے جس سے كسى كو تكليف پہنچے، چهوڑ دو ان كو ان كے حال پر كه ان كى منزل مقصود كعبه نہيں، يه صرف بدبو اور غلاظت كے پجارى ہيں، ان كے لئے مرده لاشوں سے بهرا كوئى مندر بنا دو جہاں يه اپنى بهوك مٹائيں۔
اے ايمان والو! مجهے ان منافقين سے بات نہيں كرنى ہے، بلكه تم ميرے اپنے ہو، اور ميں خود كو تمہارا ايك فرد سمجهتا ہوں، دنيا جہالتوں كى تاريكيوں ميں ڈوب جائے، شر انگيزى فيشن بن جائے، اور فتنه پرورى كو ہنر سمجها جانے لگے تو اس سے منہ پهير لو، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے سامنے لوگ زنا كا اقرار كرتے تو آپ منه پهير ليتے، وه دوسرى طرف سے آتے، پهر بهى آپ منه پهير ليتے، تيسرى بار بهى آپ اعراض كا معامله كرتے، چوتهى بار ايسا كرنے پر انہيں عبرت ناك سزا ديتے، اور جب آپ سزا دينے پر قادر نہيں تهے تو صرف منه پهيرنے پر اكتفا كرتے، اور الله بحكم "إنا كفيناك المستهزئين"، و"والله يعصمك من الناس" آپ كى حفاظت فرماتا، تم بهى ان مردار كهانے والوں سے دور رہو، ان كو كسى بنجر علاقه ميں تنہا چهوڑ دو، بے بركتى ان كے قدم چومے گى، خير سے وه محروم ہوں گے، اور تم اگر اعراض كرو گے تو تمہيں بركتوں سے نوازا جائے گا، اور رحمت ومغفرت كے دروازے تمہارے لئے كهول ديئے جائيں گے۔
06 اپریل 2020
جواب دیں