اس دہشت گردانہ کارروائی کی قیادت تھانے ضلع کے اے سی پی امیت کالے کررہے تھے ، جن کے ساتھ نہ صرف ممبرا کی پولیس کے اہلکار بلکہ تھانے شہر کی کرائم برانچ محکمے کے اہلکار بھی تھے۔ پولیس کی مذکورہ کارروائی کے نتیجے میں رشید کمپاؤنڈ کے رہنے والے تقریباً ڈیڑھ سو لوگ جن میں عورتیں، بوڑھے، بچے، بیمار اور نوجوان سبھی شامل تھے، سلاخوں کے پیچھے پہونچادئے گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ علاقے کے سرکردہ افراد کی فوری مداخلت سے یہ تمام لوگ اسی شب رہا بھی ہوگئے ۔ مگر پولیس کی اس کومبنگ آپریشن کی وجہ سے علاقے کے ہی نہیں بلکہ پورے ممبرا کے لوگوں پر جو خوف مسلط ہوا ہے، وہ ہنوز برقرار ہے کہ نہ معلوم کب پولیس کی کوئی گاڑی آئے اور وہ ایک بار پھر سلاخوں کے پیچھے پہونچ جائیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ جس علاقے میں پولیس نے یہ کومبنگ آپریشن کیا تھا، وہاں کوئی بہت بڑا مجرم ، یا دہشت گرد چھپا ہوا تھا ۔یا پھر یہ کہ کوئی دہشت گردانہ واردات ہوئی تھی ، اور پولیس کو کچھ مشکوک لوگوں کے اس علاقے میں چھپے رہنے کی خبر ملی ہو۔ پولیس کی جانب سے اب تک اس کی کوئی توضیح سامنے نہیں آئی ہے کہ یہ کومبنگ آپریشن کیوں کیا گیا۔ تھانے شہر کے پولیس کمشنر نے اس پورے معاملے سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے جبکہ آپریشن کی قیادت کرنے والے اے سی پی امیت کالے کے مطابق یہ ’اوپر کا آرڈر ‘ تھا ۔لیکن کون ہے’ اوپر‘ جس نے اس کومبنگ آپریشن کا آرڈ دیا؟ اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہے۔ یعنی کہ کوئی حتمی وجہ سامنے نہیں آئی ہے کہ پولیس نے یہ کارروائی کیوں کی اور کیوں سکڑوں لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے پہونچایا جن میں ایس ایس سی کے امتحانات دینے والے طلبہ بھی تھے۔ پھر آخر یہ کارروائی کیوں کی گئی؟ اس سوال کا جواب نہ پولیس کے پاس ہے اور نہ ہی ممبرا کی عوام کے پاس۔
جن سیکڑوں لوگوں کو اس کارروائی میں گرفتار کیا گیا ، اس میں معروف شاعر عبید اعظم اعظمی بھی تھے۔ میں نے جمعہ کے روز جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی تک نہیں معلوم کہ مجھے کیوں گرفتار کیا گیاتھا۔ میں کسی پروگرام میں شریک ہوکر گھر جانے کے لئے رشید کمپاؤنڈ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ پورا علاقہ پولیس چھاؤنی بنا ہوا ہے۔ پولیس نے والوں نے مجھ سے میرے بارے میں دریافت کیا اور مجھے گاڑی میں بیٹھا لیا اور پولیس اسٹیشن لے گئے۔اپنی گرفتاری کے بارے میں بار بار دریافت کرنے پر بھی مجھے اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ یہی حال دیگر لوگوں کا بھی تھا کہ کسی کچھ نہیں معلوم کہ انہیں کیوں گرفتار کیا جارہا ہے ۔
مائی ممبرا فاؤنڈیشن کے صدر عبدالرؤف خان لالہ کے مطابق مجھے جیسے ہی معلوم ہوا کہ پولیس زبردستی رشید کمپاؤنڈ سے مسلمانوں کوگرفتار کررہی ہے ، میں پولیس اسٹیشن پہونچا اور اے سی پی امیت کالے سے جب میں نے یہ سوال کیا کہ اس کومبنگ آپریشن کیوں کیا جارہا ہے تو اس کے پاس میرے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کا رویہ نہایت سخت تھا اور اس نے یہ کہا کہ مجھے یہ کام بہت پہلے کرنا چاہئے تھا ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ وہی امیت کالے ہیں جب گزشتہ فروری میں ممبرا میں مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کی آمد کے پیشِ نظر پولیس سے اجازت طلب کی گئی تھی تو انہوں نے ہی تحریری طور پر ممبرا کو فساد زدہ علاقہ قرار دیا تھا۔
ممبرا میں پولیس کی اس بربریت نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ مسلمان بھلے ہی ملک کے دیگر طبقوں سے زیادہ قانون کی پاسداری کریں اور خود کو بہتر شہری ثابت کریں، وہ پولیس کی نظر میں مجرم تھے اور مجرم رہیں گے۔ پولیس کایہ کومبنگ آپریشن کسی دہشت گردانہ واردات کے بعد مسلم علاقوں میں ہونے والے کومبنگ آپریشن کی یاد تازہ کردی تھی کہ جس میں یک طرفہ طور پر مسلمانوں کو گرفتار کرنے کی روایت ہے۔ورنہ ممبرا کے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے والی اس کارروائی کی کوئی توتوضیح پولیس کے پاس ہوتی۔ پولیس نے اپنی اس کارروائی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ پولیس کے اندر مسلمانوں کے تعلق سے جو سوچ پائی جاتی ہے وہ ہنوز برقرار ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اگر کوئی دہشت گردانہ واردات ہوجائے تو مسلمان موردِ الزام ٹھہرتے ہی ہیں ، اور اگر کوئی دہشت گردانہ واردات نہ بھی ہو توبھی پولیس محکمہ مسلمانوں کے اندر مجرمانہ احساس پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ اسی احساس پیدا کرنے کی غرض سے مذکورہ کومبنگ آپریشن ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تھانے شہر کے پولیس کمشنر کے ذریعے اس معاملے کی انکوائری کرائے جانے کی یقین دہانی سامنے نہ آتی۔
اے سی پی امیت کالے نے اسے الیکشن سے قبل کا روٹین کومبنگ آپریشن قرار دیا ہے۔ مگر ممبرا کی تاریخ میں الیکشن سے قبل اس طرح کے کسی کومبنگ آپریشن کی روایت نہیں پائی جاتی۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی روٹین کی کارروائی تھی جس سے تھانے ضلع کے پولیس تک واقف نہیں تھے؟ آخر یہ کیسی روٹین کی کارروائی تھی ؟ کون یہ روٹین طئے کرتا ہے؟ اور اس روٹین کا مظاہرہ صرف مسلم علاقوں میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا ہم گجرات میں جی رہے ہیں کہ پولیس جب چاہے اور جسے چاہے گرفتار کرے اور مسلمانوں کو دہشت زدہ کرے؟ یہ یقینی طور پر پولیس کی من مانی ہے، پولیس کی دہشت گردی ہے اور پولیس محکمے میں موجود اس سوچ کا مظہر ہے کہ مسلمان مجرم ہیں ، دہشت گرد ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کومبنگ آپریشن کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کیا پولیس کی اس دہشت گردی کی کوئی توضیح کی جاسکتی ہے کہ بغیر کسی وجہ کے وہ بوڑھے ، بچے اور عورتوں کو شب کے ڈھائی بجے محض اس لئے گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے پہونچادیا جائے ؟
یہ کارروائی پولیس محکمے میں موجود اس مفروضے کو اجاگر کرتی ہے کہ جس کا اعادہ مختلف بم دھماکوں کے تفتیش میں بارہا کیا جاتا رہا ہے ۔ درحقیقت پولیس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان ہی سب سے زیادہ سافٹ ٹارگیٹ ہیں اور انہیں ٹارگیٹ کرنے پروہ کہیں جوابدہ نہیں ہونگے ۔ہمارے سامنے اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں ، جس میں پولیس کی یک طرفہ اور پہلے سے طئے شدہ مفروضے کے تحت کی گئی کارروائیاں عدالتوں میں ثابت ہوئی ہیں، مگر آج تک کسی بھی پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی تو دور ان پر ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ہیں۔ جب پولیس کو معلوم ہے کہ وہ جو چاہیں کریں، جس مسلمان کو چاہیں گرفتار کریں، ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے ، تو یہ سلسلہ جاری رہے گااور پولیس دھڑلے سے قانون کے نام پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کی اپنی کارروائی جاری رکھے گی۔
پولیس کی اس کارروائی کو کسی طور حق بجانب نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔اگر اس کومبنگ آپریشن کی وجہ کسی مجرم کی تلاش بھی تھی تو اس طرح کی کارروائی جس میں پوری پوری سوسائٹی پر دھاوا بولا جائے اور لوگوں کے دروازے توڑ توڑ کر ان کے بیڈروم تک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر باہر نکالا جائے ، کسی طور قانونی قرار نہیں دی جاسکتی۔ جمعہ کے روز جیسے ہی پولیس کی اس کومبنگ آپریشن کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ، مجھے ملک کے کئی حصوں سے فون آئے اور سبھوں نے اسے پولیس کی دہشت گردی ہی قرار دیا ۔
پولیس کی اس بربریت اور دہشت گردی کی ذمہ داری حکومت پر بھی کسی نہ کسی طور عائد ہوتی ہے کہ جس نے پولیس کو شترِ بے مہار بنا دیا ہے ۔ کیا صرف بم دھماکوں کو ہی دہشت گردی کہیں گے ؟ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے کہ ایک خاص طبقے کے لوگوں کو قانونی کارروائی کے نام پر دہشت زدہ کردیا جائے؟ کیا ا س طرح کی غیرقانونی حرکت کرنے والوں کے خلاف ہماری اس سیکولر حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ابھی سے جتن میں جٹ گئی ہے؟یہ صرف پولیس کی دہشت گردی تھی اور حکومت کو اس دہشت گردی کی جوابدہی پولیس پر طئے کرنی چاہئے۔ہمیں پولیس یا دیگر کسی تفتیشی ایجنسی کی جانب سے کی جانے والی اس طرح کی ہر دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہئے اور حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ شہریوں کو دہشت زدہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے۔
جواب دیں