ممبئی میں اُتر باسی پھر تعصب کے نشانے پر

وہ مسلمانوں سے ملتے بھی ہیں انہیں یقین دہانیاں بھی کراتے ہیں ان سے قصیدے بھی پڑھواتے ہیں لیکن جب گورکھ پور کے آدتیہ ناتھ یوگی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو دہشت گردی کی نرسری کہتا ہے یا پارلیمنٹ کی زنانہ سادھوی ممبر یا ساکشی مہاراج الفاظ کی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں تو انہیں نہ سب کا ساتھ یاد آتا ہے نہ سب کا وکاس۔
دس برس تک یوپی اے محاذ میں یہی ہوتا رہا کہ بی جے پی کی پوری پارٹی آر ایس ایس، شیوسینا اور دوسری شریک پارٹیاں سب کہتے رہے کہ وزیر اعظم وہ کہتے ہیں جو سونیا کے دفتر سے ان کے پاس آتا ہے اور یہ منظر تو ہم نے بھی دیکھا کہ پوری مرکزی حکومت کا تیار کیا ہوا آرڈی نینس جو صدر جمہوریہ کے پاس پہونچ گیا تھا اور جسے دے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ امریکہ کے دورے پر گئے تھے اور اوبامہ سے ملاقات سے صرف چار گھنٹہ پہلے راہل گاندھی آفس سے باہر آئے جہاں جنرل سکریٹری اجے ماکن پریس کانفرنس کررہے تھے ان کا جملہ پورا بھی نہیں ہونے دیا اور ان کے ہاتھ سے مائک لے کر بولنے کے بجائے برسنے لگے کہ کیوں بھیجا گیا یہ آرڈی نینس؟ یہ بالکل اس قابل نہیں تھا اسے پھاڑکر پھینک دینا چاہئے تھا۔ جبکہ یہ سونیا کی مرضی سے اور کابینہ کے متفقہ فیصلہ سے بھیجا گیا تھا۔
کچھ ایسی ہی جھلکیاں صرف ڈیڑھ سال میں مودی سرکار میں نظر آگئیں۔ جگہ جگہ ٹی وی پر مذاکرہ ہورہا ہے کہ گیتا اور رامائن میں جو اچھی اچھی باتیں ہیں وہ نصاب میں داخل کردی جائیں اور یہ نہ کہا جائے کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ بحث کرنے والے ہمیں اور دنیا کو بے وقوف سمجھ رہے ہیں یا خود انتہائی جاہل ہیں۔ بات جب مذہب کی نہیں ہے صرف اچھی باتوں کی ہے تو ہر وہ کتاب جو اچھے لوگوں نے لکھی ہے اس میں اچھی باتیں ہیں اور سب اسے چھی باتیں تو اُن کتابوں میں ہونا چاہئیں جو دنیا اور انسانوں کو بنانے والے نے دنیا والوں کے لئے بھیجی ہیں۔ یہودیوں کی توریت، عیسائیوں کی انجیل اور پوری دنیا کیلئے قیامت تک کیلئے قرآن شریف۔ ہم نے جن کتابوں کا ذکر کیا ان میں سے دو اب اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں اور مسلمانوں کیلئے یا اللہ کو ماننے والے ہر طبقہ کیلئے وہ ختم کردی گئی ہیں۔ اب صرف آخری کتاب قرآن عظیم ہے جو سب سے بعد میںآئی ہے اور قیامت تک بس یہی رہے گی۔ اسی لئے کہ اس کتاب کے لئے خود پاک پروردگار نے فرما دیا ہے کہ ’وانالہ محافظون‘۔ کہ ہم خود اس کی حفاظت کریں گے۔ اور انہوں نے اس کی حفاظت کا یہ انتظام کیا کہ جتنے قرآن کتاب کی شکل میں محفوظ ہیں ان سے کچھ کم ایسے انسان ہیں جنہوں نے قرآن حفظ کرلیا ہے۔ اب اگر ساری دنیا کے قرآن جو چھپے ہیں وہ خدا نخواستہ جلا دیئے جائیں تو انہیں کیسے مٹایا جاسکتا ہے جو سینوں میں ہے اور روز پڑھا جاتا ہے۔
ہندوستان کے بارے میں ہم نے بعض ہندو دوستوں سے سنا ہے کہ رام چندرجی بھی اللہ کے نبی تھے اور مہاتما بودھ بھی اللہ کے نبی تھے۔ ایک بہت بڑے عالم سے جب ہم نے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے کہیں نہیں پڑھا لیکن اس لئے اس کا امکان ہے کہ پروردگار نے فرمایا ہے ’لِکُلِّ قومٍ ہادِ۔ ہم نے ہر قوم میں ہادی بھیجے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھی آئے لیکن یہ نہیں معلوم کہ ان میں کون تھا۔ لیکن وہ صاحب کتاب نہیں تھے اور جیسے ہزاروں نہیں تھے۔
قرآن پاک میں جتنی اچھی باتیں ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس مکہ میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا تھا وہ اتنے بڑے بت پرست تھے کہ ہندوستان اس کا چوتھائی نہیں ہے۔ لیکن یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس پورے جزیرۃ العرب میں ایک بھی بت پرست یا مشرک نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قرآن پاک جس زبان میں نازل ہوا وہ ان کی زبان تھی اور انہوں نے جگہ جگہ اعتراف کیا ہے کہ یہ انسان کی زبان نہیں ہے۔ مکہ کے کافروں نے جب اس سے انکار کیا تو بار بار حضور اکرمؐ نے ان عالموں کو جنہیں اپنی زبان پر مہارت حاصل تھی قرآن کی آیات سناکر فرمایا کہ اب اس مفہوم کی تم لوگ دو چار آیتیں لکھ کر لاؤ اس لئے کہ تم عربی کے بہت بڑے عالم ہو اور پورے مکہ نے دیکھا کہ پورے مکہ کے عربوں نے کوشش کرلی اور کوئی چھوٹی سی آیت بھی نہیں لکھ سکا۔ قرآن اب دنیا کی ہر زبان میں ہے ہندی میں بھی ہے اور انگریزی میں بھی۔ ہندی کے دانشور اسے پڑھ کر چھانٹیں اور اچھی اچھی باتیں نکال کر نصاب میں شامل کردیں۔
گیتا اور رامائن کی اچھی باتیں مقصد نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت اور اسے پھیلانے کے لئے اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسے بچوں کو پڑھایا جائے۔ 1857 ء کے بعد ملک کے چپہ چپہ پر مسلمانوں نے ایک پیسہ کی سرکاری امداد کے بغیر اپنے مدرسے قائم کئے اور اب ان کو اپنا دین پڑھا رہے ہیں اور انہیں ایسا بنا رہے ہیں کہ وہ اسلام پر اور مسلمانوں پر ہونے والے ہر اعتراض) کا جواب دے سکیں۔
نصاب میں وہی بہت ہے جو پڑھایا جاتا ہے اور جو نصاب ہے وہ ایک تو وہ ہے جو سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور ایک وہ ہے جو غیرسرکاری اسکولوں میں رائج ہے۔ اس کی کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ تبدیل کرے سرکار کا حکم صرف سرکاری اسکولوں میں چلتا ہے جہاں وہ بچے پڑھتے ہیں جو بغیر پڑھے بغیر امتحان دیئے آٹھ درجے پڑھ لیتے ہیں پھر وہ تعلیم یافتہ رکشہ والے، تعلیم یافتہ مستری، تعلیم یافتہ کوڑا اُٹھانے والے اور تعلیم یافتہ ٹھیلہ پر پھل اور سبزی بیچتے دیکھے جاتے ہیں۔
نصاب میں ایسے اضافہ کی تجویز کرنے والوں نے مہاراشٹر میں بہار پوربی یوپی اڑیسہ اور مدھیہ پردیش سے ٹیکسی ڈرائیوروں اور آٹو ڈرائیوروں کے منھ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اطلاع کی حد تک ٹیکسی اور آٹو ڈرائیوروں میں 75 فیصدی اُترباسی ہیں۔ بال ٹھاکرے سے لے کر ان کے بیٹے ان کے بھتیجے ہر تھوڑے دنوں کے بعد کوئی شوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اُترباسی اپنا بوریہ بستر لے کر واپس آنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
سنا ہے کہ کوئی پرانا قانون کبھی بنانے کی کوشش کی تھی لیکن جب اندازہ ہوا کہ اس سے کتنے لوگ بے روزگار ہوجائیں گے اور ٹیکسیوں اور آٹو کے مالک کی گاڑیاں گیراج میں کھڑی ہوجائیں گی تو اس عمل پر کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ اب بی جے پی اور شیوسینا حکومت میں ساتھ بھی ہیں مگر ہر وقت بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کے لئے زور آزمائی بھی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اسے زندہ کردیا اور اعلان کردیا کہ ٹیکسی اور آٹو چلانے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ 15 برس سے مہاراشٹر میں رہتا ہو اور اسے مراٹھی زبان کی نالج، جانکاری ہو۔ یہ ایسی دو دھاری تلوار ہے جس سے مرضی کے مطابق کاٹا جاسکتا ہے۔ زبان سے واقفیت یا جانکاری۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ اس زبان کو پڑھتا بھی ہو لکھتا بھی ہو اور اسے بھی زبان کا جانکار کہیں گے جو نہ لکھتا ہو نہ پڑھتا ہو بس ضرورت کے مطابق بولتا ہو اور خوب بولتا ہو۔
کسی بھی ڈرائیور کے لئے لکھنا پڑھنا ضروری نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے لئے یہ بہت ہے کہ وہ بولتا ہو اور جو پندرہ برس سے وہاں کسی دوسرے کی ٹیکسی یا کسی دوسرے کا آٹو چلا رہا ہے وہ شہر کے ہر چوراہے، ہر مشہور بلڈنگ، ہر مشہور اسپتال، ہر بڑے دفتر اور ہر اسکول اور بازاروں کے نام سے واقف ہوچکا ہوگا۔ اس کے باوجود اگر بہاریوں اور اُترباسیوں کو ممبئی سے بھگانا چاہتے ہیں تو یہ پابندی لگادی جائے کہ اخبار پڑھنا اور مراسلہ لکھنا بھی جانتا ہو۔
سعودی عرب میں صرف ایک شرط ہے کہ وہاں کے ٹریفک امتحان میں پاس ہوجایئے وہاں ہندوستانی پاکستانی چینی اور نہ جانے کتنے فلیپینی دیکھے ہیں وہ جاتے ہی کام شروع کردیتے ہیں۔ مالکوں میں سے کوئی ان کو موٹی موٹی باتیں بتا دیتا ہے اور پھر وہ ’’نعم‘‘ اور ’’لا‘‘۔ ہاں اور نہیں ایک دن میں ہی سیکھ جاتے ہیں۔ حج کے زمانہ میں 40 لاکھ آدمیوں کے لئے بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کی بھرتی ہوتی ہے وہ حج کے 35 دن سروس کرکے اپنا سال بھر کا خرچہ لے آتے ہیں۔ ہندوستان میں کلکتہ ممبئی سے بڑا ہے۔ کبھی نہیں سنا کہ ٹیکسی ٹیمپو یا رکشہ چلانے کے لئے 15 سال اور بنگلہ زبان کی جانکاری ضروری ہے۔ ہر وقت بھگوا نیتاؤں اور دھرم گروؤں کی زبان پر رہتا ہے کہ اس سے بھارت کے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ مسلمانوں سے ہوجائیں گے اردو زبان سے ہوجائیں گے جو مراٹھا بھارت ملک سے کٹ کر الگ ہوچکا اس کے لئے کوئی ہندو کیوں نہیں بولتا؟ مہاراشٹر کو ایسا قانون بنانے کی کیسے ہمت ہوئی جو ہندوستان کے کسی صوبہ میں نہیں ہے اور جس سے بہار اور پوربی اُترپردیش کے ہزاروں وہ انسان جو روزی روٹی کے لئے گئے ہیں بھوکے واپس آنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

«
»

مسلمانوں کے نام ،قربان شدہ بکرے کا ای میل

الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے