اور نہ ہی مکمل طور سے قابو پانے کی امید ہے کیوں کہ ملک بھر کے جرائم پیشہ افراد کا ممبئی میں ڈیرہ ہے، پہلے اس شہر میں علاقائی دادا ہوا کرتے تھے انہی کی دھاک محلے میں رہتی تھی اس کے بعد علاقائی سطح پر غنڈہ ٹولیاں بنیں الگ الگ نام سے گینگ بناکر شہر میں نہ صرف خوف ودہشت کا ماحول بنایا، بلکہ بلڈر، تاجر اور فلم صنعت سے وابستہ لوگوں کا جینا حرام ہوگیاتھا، تب سابق پولس کمشنر جیولیو ریبیرونے انکاؤنٹر اسکیم شروع کی۔ تقریباً 25سال تک جاری پولس انکاؤنٹراسکیم کے بعد شہر میں سبھی نامی گرامی انڈر ورلڈ کا صفایا ہوگیا ۔ ورنہ رمانائیک گینگ، امرنائیک گینگ، بابوریشم، گاؤلی، وجے کنجیاگینگ، شردشیٹی گینگ، کے علاوہ ڈی کمپنی ، چھوٹا راجن، چھوٹاشکیل، ابوسالم اور فضلو گینگ کی شہر میں زبردست دہشت تھی، گینگ وار شباب پرتھا اس میں پولس انکاؤنٹر بھی جاری تھی ایک کے بعد ایک مارے جانے لگے سرغنہ ملک سے باہر فرار ہوگئے، اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ مذکورہ بالا سبھی نامی گرامی انڈرورلڈ گینگ کی کمر ٹوٹ گئی، اس کے بعد شہر میں چھٹ بھیا گینگ شروع ہوئی جن کا نہ کوئی پولس ریکارڈ ہوتا تھا اور نہ ہی پولس کے پاس ان کی شناخت ، وہ مہینے میں ڈکیتی ولوٹ مار کے ایک دو واردات انجام دے کر فرار ہوجاتے تھے جس سے پولس انہیں پکڑنے میں ناکام رہتی تھی، یہ زیادہ تر یوپی، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی گینگ ہوتی تھی۔ پولس نے جب ان کا بھی قلع قمع کرنا شروع کیا تو ممبئی شہر میں لوٹ مار او رڈکیتی کے علاوہ ایک سنگین واردات ہونے لگی جس میں 12سے 18سال کے نوجوانوں کو لاپتہ کیا جانے لگا، پولس ریکارڈ میں جتنے بھی گمشدگی کے واقعات درج ہیں اس میں شاید ہی ایک آدھ پکڑے گئے ہوں، پولس کمشنر راکیش ماریا نے خود اس کا اعتراف کرتے ہوئے اب ان گمشدہ نوجوانوں کی تلاش کے لیے پولس کا علاحدہ خصوصی دستہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بچے گئے کہاں؟ اس سلسلے میں مختلف رائے اور الگ الگ پیشین گوئیاں ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ بچوں کی بلی چڑھا نے کے لیے اغوا کیاجاتا ہے۔
جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں کو اغوا کرکے انہیں بڑی کمال ہوشیاری سے باہر ممالک میں اسمگل کیا جاتا ہے حال ہی میں ایک کنٹینر سے بڑی تعداد میں بچے اور کچھ نوجوان ملے تھے، کنٹینر میں سامان دکھا کر اس کی جگہ انہیں اسمگل کیاجارہا تھا، اس کے علاوہ بھی مختلف آراء ہیں مگر کوئی وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ گمشدہ بچوں کا کیا ہوتا ہے؟وہ کہاں چلے جاتے ہیں اور ان کا کیا ہوتا ہے؟ ایسا بھی سناگیا ہے کہ ایسے لڑکوں کو دیگر ممالک میں جنگ کے مورچے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے مگر حقیقت کیا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ پولس ریکارڈ کے مطابق بچے اور نوجوانوں کی گمشدگی کے زیادہ ترواقعات کثیر مسلم اکثریتی علاقوں میں ہورہے ہیں جہاں بڑی تعداد میں بچے اور نوجوان اپنے گاؤں سے ملازمت کے لیے آتے ہیں کسی کارخانے سے اگر کوئی بچہ یا نوجوان غائب ہوجائے تو ایک دو دن تلاش کرکے خاموش ہوجاتے ہیں اگر ان کے ماں باپ بھی ہیں تو وہ انتھک محنت کرکے تلاش کرتے ہیں اور پھر رو پیٹ کر صبر کرجاتے ہیں کیوں کہ پولس کی جانب سے انہیں محض دلاسہ ملتا ہے۔ ممبئی جیسے شہر سے اگر بچوں کی گمشدگی کے پراسرار واقعات ہونے لگے تو یہ عوام میں تشویش ہونا فطری بات ہے، چند ماہ قبل کلیان سے چند نوجوان لاپتہ ہوئے تھے ان کے عراق میں ہونے کی خبر ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ ان کی ذہن سازی کرکے انہیں جنگ کے مورچے میں لے جایا گیاتھا مگر ایسے واقعات بہت کم ہیں جبکہ بچوں کو اغوا کرنے کے واقعات ملک میں ہی زیادہ ہیں وہ کہاں لے جاتے ہیں ان سے کیا کراتے ہیں کسی کو نہیں معلوم۔ یہ بھی قیاس کیاجاتا ہے کہ ان کے گردے اور آنکھیں نکال کر بڑے پیمانے پر اس کی اسمگلنگ کی جاتی ہے، مگر بچوں کے گردے اور آنکھ کی اسمگلنگ کی بات ذہن قبول نہیں کرتا۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ گمشدہ بچے جاتے کہاں ہیں ان کا کوئی سراغ کیوں نہیں لگتا، سینکڑوں میں ایک آدھ ایسی مثال ملی ہے کہ دو پانچ سال بعد لڑکا مل گیا، ایک تو دل دہلانے والا واقعہ چند سال قبل کا ہے کہ ایک اچھے خاصے گھرانے کا 6سالہ بچہ لاپتہ ہوگیا ، 8سال بعد اس بچے کو اس کے گھر والوں نے ایک مندر کے باہر بھیک مانگتے ہوئے دیکھا، شبہ کی بنیاد پر جب اس بچے کو پکڑا تو عورت آدمی ان پر ٹوٹ پڑے، مگر بچے کے جسم پر جو نشان تھا اس کی بنیاد پر اصلی ماں باپ نے بچے کو پہچاناتھا، معاملہ اتنا بڑھا کہ پولس آگئی دواصلی اور دو نقلی ماں باپ کے بیچ میں ایک 14سالہ لڑکا کھڑا تھا، پولس نے جب دونوں نقلی ماں باپ سے اپنے انداز میں پوچھ تاچھ کی اور بچے کو اعتماد میں لے کر ان کا بیان لیا تو رونگٹے کھڑے کردینے والے حقائق سامنے آئے۔
پولس کی مار سے دونوں نقلی ماں باپ نے بتایاکہ انہوں نے چھ سالہ لڑکے کا اغوا کیا، اسے مارا پیٹا اور خوفزدہ کرکے اس سے مندر کے باہر بھیک منگواتے تھے، چھ سالہ لڑکا 14سال کا ہوجانے کے باوجود بھی اپنے اصلی ماں باپ کو کچھ دیر بعد پہچان پایا، اور لپٹ لپٹ کر خوب رویا پولس بچے کے ماں باپ کو اسکی گمشدگی کی رپورٹ اور پولس اسٹیشن میں پوچھ تاچھ کرنے پر پتہ چلا کہ ماں باپ ممبئی میں رہتے تھے اور بچہ ناسک میں ملا۔ ایسے بہت سارے واقعات ہیں کہ جس میں بچے کو اغوا کرکے لے جاکر ان سے کام کرایا جاتا ہے، بھیک منگوایا جاتا ہے ایسی گینگ بہت زیادہ سرگرم ہیں مگر جو پولس کے ہاتھ آگئیں اسی سے راز ملتا ہے ورنہ بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ پولس کے رجسٹرڈ میں ہی دبی رہ جاتی ہے۔
مہاراشٹر میں ڈینگو کا قہر ، ذمہ دار کون؟
*فاروق انصاری
ان دنوں مہاراشٹر میں ڈینگو کی دہشت پھیلی ہوئی ہے اموات بھی ہو رہی ہیں اور اس کے مریض بھی بڑھتے جا رہے ہیں مگر سرکار اور میونسپل انتظامیہ کے پاس ابھی تک اسکی روک تھام کے لئے کوئی کار گر علاج نہیں ہے کہتے ہیں کہ یہ بیماری گندگی سے پھیلتی ہے اس گندگی میں پلنے والے مچھروں کے کاٹنے سے یہ بیماری ہوتی ہے مگر ابھی تک اس پر بھی ریسرچ نہیں ہو پایا ہے کہ اصل میں معاملہ کیا ہے حالانکہ میونسپل کارپوریشن اس سلسلے میں قانون بنانے پر غور کر رہی ہے ممبئی میونسپل کارپوریشن نے ایک ایکٹ تیار کیا ہے جس کے مطابق گندگی پھیلانے پر سخت کارروائی کی تجویز ہے ناگپور میونسپل کارپوریشن بھی اس سمت میں ٹھوس کام کر رہی ہے اس نے ممبئی میونسپل کارپوریشن سے ایکٹ کی کاپی منگائی ہے جس کا مطالعہ کرکے اسی طرز پر کام کرنے کے لئے کمر بستہ ہو رہے ہیں بتایا جاتا ہے کہ ڈینگو سے اب تک آٹھ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں حالانکہ میونسپل انتظامیہ نے سبھی کلینک اور پرائیویٹ اسپتالوں کے ذمہ داروں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ اگر ان کے پاس ڈینگو کا کوئی مریض آئے تو وہ فوری طور پر میونسپل محکمہ صحت کو مطلع کریں مگر ایک المیہ یہ بھی ہے کہ دواخانوں کے ڈاکٹر ایسے مریض کی جلد تشخیص نہیں کر پاتے جس سے مرض بڑھ جاتا ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ بخار کو معمولی سمجھ کر صرف دوا پر کام چلاتے رہتے ہیں جس سے مرض بڑھتا جاتا ہے اور ایک اسٹیج پر آکر یہ لا علاج ہو جاتا ہے یہ سچ ہے کہ ڈینگو کی بیماری گندگی سے پھیلتی ہے گندگی میں جو مچھر نشودنما پاتے ہیں اسکے کاٹنے سے یہ بیماری ہوتی ہے مگر افسوس کہ ہم گندگی کو ختم کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے ہیں بلکہ اب تو مسلم علاقوں کی پہچان ہی گندگی ہے ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے گھروں میں مہنگے سے مہنگا ماربل لگاتے اور گھر کے باہر ہی تھوکتے ہیں گھر میں بیٹھے بیٹھے کچرا گھر سے باہر راستے پر پھینک دیتے ہیں ہمیں یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ وہ کسی انسان پر ہی گرجائے، حالانکہ اس کا آسان حل یہی ہے کہ ہر شخص اپنے گھر کے باہر کچرے کا ڈبہ رکھے دن بھر اسی میں کچرا پھینکے ۔کچرے والا اسے اٹھا لیجائے گا مگر یہ بھی نہیں کر سکتے گٹر میں اور راستوں پر کچرا پھینکنے کے بعد یہ نہیں سوچتے کہ اس سے نقصانات کیا ہونگے اور پھر وہی گندگی گھر والوں کے لئے وبال جان بن جاتی ہے اگر ہم احتیاط کے طور پر صاف صفائی کا خاص خیال رکھیں تو بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مگر ہماری سمجھ میں صاف صفائی کے تعلق سے ابھی تک کسی قسم کی بیداری نہیں پیدا ہوئی ہے جبکہ ہمارے مذہب نے صفائی کو نصف ایمان بتایا ہے مگر افسوس کہ ہم آدھے ادھورے ایمان کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں اور اس کا کوئی ملال بھی نہیں ہے پھر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمیں اپنے ایمان کی بھی پرواہ نہیں ہے۔آج نہ صرف ممبئی بلکہ پورے مہاراشٹر میں ڈینگو کا قہر ہے اور ہم اس بیماری کے تدارک سے غافل ہیں۔جبکہ سب سے زیادہ ہمیں اس معاملے میں بیداری دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ صفائی کی تاکید ہمارا مذہب کر رہا ہے اسلئے اپنے اپنے علاقوں میں صاف صفائی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ڈینگو جیسے خطرناک بیماری کے علاوہ اس طرح کی سبھی بیماریوں سے نجات پا جائیں۔
کتوں کی دہشت سے عوام کو کون بچائے؟
*فاروق انصاری
ان دنوں کتوں کی دہشت ہے گلی محلے میں لوگوں کو چلنے کی جگہ نہیں ہے اور اس میں کتے بھی دوڑ رہے اور لوگوں کو کاٹ رہے ہیں پولس نے دہشت گردی کے خلاف سخت سے سخت قانون بنا کر دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی کمر توڑ دی ہے مگر کتوں کی دہشت گردی کے خلاف پولس کے پاس کوئی ٹھوس قانون نہیں ہے اس لئے آئے دن اسکول کے اطراف گھر کے اطراف یہ آوارہ کتے دہشت پھیلائے ہوئے ہیں اوربچوں و بڑوں کو کاٹ رہے ہیں؟ اس کا ذمہ دار کون ہے کتے کے کاٹنے سے آدمی پاگل ہو کر مر جاتا ہے اسکی درد ناک موت پر بھی سرکار اور میونسپل انتظامیہ کو ذرہ برابر بھی غم نہیں ہے ہر روز یہی سننے میں آتا ہے کہ فلاں جگہ کتے نے ایک شخص کو کاٹ لیا ہے جب اسے اسپتال لیکر بھاگو تو وہاں پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کتے کے کاٹنے کا انجکشن ہی موجود نہیں ہوتا۔یہ حال ہے ہمارے اسپتالوں کا ۔ بیچارہ ایسا شخص جسے کتّے نے کاٹا ہے وہ صحیح علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حالانکہ ایسے آوارہ کتوں کو پکڑنے کے لیے مہم ممبئی میونسپل کارپوریشن نے شروع کی تھی اور گلی کوچوں میں گھومنے والے کتوں کو پکڑ کر اسکی نسبندی کرکے چھوڑ دیتے تھے اس طرح کتوں کی افزائش نسل پر روک لگ رہی تھی مگر جانوروں کے تحفظ کی نام نہاد تنظیموں نے اسکی مخالفت کی اور میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ یہ کارروائی روک دی گئی اس سے کتوں کی تعداد بھی خوب بڑھ رہی ہے اور انکی دہشت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے سرکار اور پولس ہر طرح کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نئے نئے قانون بنا رہی ہے مگر وہ کتوں کی دہشت کے خلاف قانون بنانے سے قاصر ہے ایسا کیوں ہے پتہ نہیں جانوروں کا تحفظ کرنے والی نام نہاد تنظیموں کو کیا انسانوں کی جان سے زیادہ جانور وں کی زندگی پیاری ہے یہ کون سی انسانیت ہے۔ کہیں کتا بھی کسی مذہب کی علامت تو نہیں کہ جس کے خلاف کارروائی کرنے سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہوں۔یا پھر کوئی اور بات ہے کہ کتوں سے اتنی محبت کہ انسان کے مرنے کا کوئی غم نہیں ہے خیر مہاراشٹر میں تو ابھی تک کوئی سرکار بنی نہیں ہے کہ ان سے اس سلسلے میں کچھ کہا جائے ۔ میونسپل کارپوریشن کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عواکم کی حفاظت کرے کتوں کی دہشت سے عوام کو نجات دلائے۔اسکول جانے والے بچے محفوظ نہیں ہیں انہیں بھی کتے کاٹ رہے ہیں لوگ دیکھ رہے ہیں پھر بھی کچھ اقدام کرنے سے قاصر ہیں۔جس گلی میں دیکھو کتے ہی کتے نظر آئینگے۔شہر کے مقابلے مضافات میں تو کتوں کی بھر مار ہے دیر رات اگر کوئی ڈیوٹی سے اپنے گھر جا رہا ہو تو وہ بالکل محفوظ نہیں ہے اس پر المیہ تو یہ ہے کہ اسپتالوں میں دوائیاں بھی نہیں ہیں کتے کے کاٹنے سے پیٹ میں انجکشن لگتا ہے اسپتال میں وہ انجکشن بھی باہر سے منگائے جاتے ہیں میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے سبھی اسپتالوں میں ایسے انجکشن کو لازمی طور پر دستیاب کرائے تاکہ کتے کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کی جان بچائی جا سکے۔
جواب دیں