ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ہندوستان کی موجودہ صورت حال میں جہاں ایک طرف سیکولر ذہن رکھنے والی طاقتیں خاص کر طلبہ وطالبات ملک کے دستور کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت اور بعض ریاستی حکومتیں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف پورے ملک میں چل رہی تحریک کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہیں۔ CAA، NPR اور NRC کی مخالفت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) سے اٹھنے والی اس تحریک میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر مذہب کو ماننے والے شریک ہیں۔ اب یہ آواز صرف ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے اٹھ رہی ہے۔ ہندومسلم اتحاد کے ساتھ CAA، NPR اور NRC کی مخالفت کرنا وقت کی عین ضرورت کے ساتھ ہم سب کی مشرکہ ذمہ داری بھی ہے ورنہ مستقبل میں جہاں قوم وملت کی پریشانیاں اور دشواریاں بہت زیادہ بڑھ جائیں گی وہیں ملک کی سلامتی بھی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ کچھ سیاسی پارٹیاں اور ریاستی حکومتیں ان قوانین کے خلاف کھل کر میدان میں آگئی ہیں حتی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض ممبران نے بھی ان کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردیاہے۔
ان نئے قوانین سے تمام ہی مذاہب کے ماننے والے اور ہر ریاست کے رہنے والے متاثر ہوں گے لیکن سب سے زیادہ دشواریوں کا سامنا مسلمانوں کو ہی کرنا پڑے گا کیونکہ موجودہ مرکزی حکومت ہندو مسلم کے درمیان نفرت پیدا کرکے جہاں اپنی حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے وہیں وہ ملک کو ہندو مسلم میں تقسیم کرکے ہندو ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہمیں حکمت وبصیرت سے حکومت کی اس غلط پالیسی کا مقابلہ کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بھی مضبوط کرنا ہے کیونکہ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلا رہا ہے اور وہی مشکل کشا، حاجت روا اور دشواریوں وپریشانیوں کو آسانیوں میں تبدیل کرنے والا ہے۔ اس لئے ہم توبہ واستغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کا خاص اہتمام رکھیں۔ اسلام کی پہلی جنگ عظیم (غزوہئ بدر) کے موقع پر بھی ساری انسانیت کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے راتوں کو گڑگڑاکر اللہ تعالی سے دعائیں کی تھیں۔ یعنی ہم دوا کے ساتھ دعاؤں کا بھی اہتمام کریں کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ دعاؤں سے بھی بڑے بڑے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کی اہمیت کو سمجھیں۔
دعا کی حقیقت:دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا، شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (سورۃ الزمر: ۸) حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ (ترمذی) نیز حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: دُعا عین عبادت ہے۔ (ترمذی) اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام وصالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام (قرآن کریم) میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
دُعا کی اہمیت:دعا کی اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہئ فاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ نیز ارشاد باری ہے: (اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ (سورۃ البقرۃ: ۶۸۱) غرضیکہ دعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے، اس سے بڑھ کر دعا کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے بندوں کوحکم دیتے ہوئے فرمایا: تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (سورۃ المؤمن: ۰۶) حضور اکرم ﷺنے بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کے فضائل اور آداب بھی بیان فرمائے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ (ابن ماجہ) یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔ (ترمذی)
دعا کے چند اہم آداب وارکان وشرائط اور واجبات:دعا چونکہ ایک اہم عبادت ہے، اس لئے اس کے آداب بھی قابل لحاظ ہیں۔ حضور اکرم ﷺنے دُعا کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں، دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کا خیال رکھے۔احادیث میں دعا کے لئے مندرجہ ذیل آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے، جن کو ملحوظ رکھ کر دُعا کرنا بلاشبہ قبولیت کی علامت ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی وقت بعض آداب کو جمع نہ کرسکے توایسا نہ کرے کہ دُعا ہی کوچھوڑ دے، دعا ان شاء اللہ ہرحال میں مفید ہے۔ ۱) اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ دُعا کرنا، یعنی یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری ضرورتوں کوپوری کرنے والا ہے، ارشاد باری ہے: تم لوگ اللہ کو خالص اعتقاد کرکے پکارو۔ (سورۃ المؤمن:۴۱) ۲) دعا کے قبول ہونے کی پوری اُمید رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ بلاشبہ قبول کرے گا، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سے اس طرح دُعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو۔ (ترمذی) ۳) دعا کے وقت دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجہ رکھنا کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ اس بندہ کی دُعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپری دل سے اور توجہ کے بغیر دُعا کرتا ہے۔ (ترمذی) غرضیکہ دُعا کے وقت جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور خشوع وخضوع اور سکون قلب ورقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔ ۴) دعا کرنے والے کی غذا اور لباس حلال کمائی سے ہونا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوشخص دور دراز کا سفر کرے اور نہایت پریشانی وپراگندگی کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتے ہوئے دُعا کرے جب کہ اس کی غذا اور لباس سب حرام سے ہو اور حرام کمائی ہی استعمال کرتا ہو تواس کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم) ۵)دُعا کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنا۔ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی وثنا سے دُعا کا آغاز کرے پھر مجھ پردرود بھیجے، پھر جو چاہے مانگے۔ (ترمذی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے یعنی درجہئ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک کہ رسول اللہ ﷺپر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی) ۶) دعا کے وقت گناہ کا اقرار کرنا، یعنی پہلے گناہ سے باہر نکلنا، اس پر ندامت کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ ۷)دعا آہستہ اور پست آواز سے کرنا یعنی دعا میں آواز بلند نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم لوگ اپنے پروردگار سے دُعا کیا کرو گڑ گڑا کر اور آہستہ۔ (سورۃ الاعراف: ۵۵) البتہ اجتماعی دعا تھوڑی آواز کے ساتھ کریں۔
دعا کے چند اہم مستحبات: وہ امور جن کا دعا کے وقت اہتمام کرنا اولیٰ وبہتر ہے: ۱)دعا سے پہلے کوئی نیک کام مثلاً نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کا اہتمام کرنا۔ ۲)قبلہ کی طرف رُخ کرکے دوزانو ہوکر بیٹھنا اوردونوں ہاتھوں کا مونڈھوں تک اس طرح اُٹھانا کہ ہاتھ ملے رہیں اور انگلیاں بھی ملی ہوں اور قبلہ کی طرف متوجہ ہوں۔ ۳) اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ ذکر کرکے دعا کرنا۔ ۴) اس بات کی کوشش کرنا کہ دُعا دل سے نکلے۔ ۵) دعا میں اپنے خالق ومالک کے سامنے گڑ گڑانا، یعنی رو رو کر دعائیں مانگنا یا کم از کم رونے کی صورت بنانا۔ ۶) دعا کو تین تین مرتبہ مانگنا۔ ۷)دُعا کے وہ الفاظ اختیار کرنا جوقرآن کریم میں آئے ہیں یاجو حضور اکرم ﷺ سے منقول ہیں کیونکہ جودُعائیں قرآن کریم میں آئی ہیں ان کے الفاظ خود قبولیت کی دلیل ہیں اور احادیث میں بھی ان کی فضیلت مذکور ہے اور جودُعائیں حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہیں وہ ضرور اللہ تعالیٰ کوپیاری ہونگی۔ ۸)تمام چھوٹی اور بڑی حاجتیں سب اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا۔ ۹) نماز کے بعد اور بالخصوص فرض نماز کے بعد دُعا مانگنا۔ ۰۱)دعا کرانے والا اور ساتھ میں دعا کرنے والے کا دعا کے بعد آمین کہنا،اور اخیر میں دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پرپھیرلینا۔
قبولیت دعا کے بعض اوقات وحالات:یوں تودعا ہروقت قبول ہوسکتی ہے، مگر کچھ اوقات وحالات ایسے ہیں جن میں دعا کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے، اس لئے ان اوقات وحالات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے: شب قدر یعنی رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی راتیں۔ ماہ رمضان المبارک کے تمام دن ورات، اور عید الفطر کی رات۔ جمعہ کی رات اور دن۔ آدھی رات کے بعد سے صبح صادق تک۔ ساعت جمعہ۔ احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے جس میں جودعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ مگراس گھڑی کی تعیین میں روایات اور علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ روایات اور اقوال صحابہؓ وتابعین سے دو وقتوں کی ترجیح ثابت ہے، اوّل امام کے خطبہ کے لئے ممبرپر جانے سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک، خاص کر دونوں خطبوں کے درمیان کا وقت۔ خطبہ کے درمیان زبان سے دعا نہ کریں، البتہ دل میں دعا مانگیں، اسی طرح خطیب خطبہ میں جودعائیں کرتا ہے ان پر بھی دل ہی دل میں آمین کہہ لیں۔ قبولیت دعا کا دوسرا وقت جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔ اذان واقامت کے درمیان۔ فرض نماز کے بعد۔ سجدہ کی حالت میں۔ تلاوت قرآن کے بعد۔ آب زم زم پینے کے بعد۔ جہاد میں عین لڑائی کے وقت۔ مسلمانوں کے اجتماع کے وقت۔ بارش کے وقت۔ بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑتے وقت۔
دُعا قبول ہونے کی علامت:دعا قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت اپنے گناہوں کویاد کرنا، اللہ کا خوف طاری ہونا، بے اختیار رونا آجانا، بدن کے روئیں کھڑے ہوجانا، اس کے بعد اطمینان قلب اور ایک قسم کی فرحت محسوس ہونا، بدن ہلکا معلوم ہونے لگنا، گویا کندھوں پر سے کسی نے بوجھ اُتار لیا ہو۔ جب ایسی حالت پیدا ہو تو اللہ کی طرف خشوع قلب کے ساتھ متوجہ ہوکر اس کی خوب حمد وثنا اور درودکے بعد اپنے لئے، اپنے والدین، رشتہ داروں، اساتذہ اور مسلمانوں کے لئے گڑگڑا کر دُعا کریں۔ ان شاء اللہ اس کیفیت کے ساتھ کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوگی۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعا کی قبولیت کا وقت معین ہے اور نااُمید بھی نہیں ہونا چاہئے اور یوں نہیں کہنا چاہئے کہ میں نے دعا کی تھی مگر قبول نہ ہوئی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناامید ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ دعا کی قبولیت میں اللہ تعالیٰ کبھی کبھی مطلوب سے بہتر کوئی دوسری شیء انسان کو عطا فرماتا ہے، یا کوئی آنے والی مصیبت دور کردیتا ہے۔
خلاصہئ کلام یہ ہے کہ دعا مظہر عبدیت اور ایک اہم عبادت ہے۔ دعا مضطرب قلوب کے لئے سامان سکون، گمراہوں کے لئے ذریعہئ ہدایت، متقیوں کے لئے قرب الٰہی کا وسیلہ اور گناہگاروں کے لئے اللہ کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ اس لئے ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے خالق ومالک کے سامنے وقتاً فوقتاً خوب دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں اپنے سے مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
09جنوری2020
جواب دیں