پہلے کثیر ملکی کمپنیوں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ا یسٹ انڈیا کمپنی جیسے خطرات کی طرف سے آگاہ کیا جاتا تھا لیکن ہندوستانی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اپنی صلاحیت اور تاجرانہ ہمت کے جھنڈے گاڑ دئے اور کئی بیرونی کمپنیوں پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ ان کو دیوالیہ پن سے بچایا ۔ ہندوستان میں تاجرانہ سر گرمیاں بڑھنے ، نئی صنعتیں لگنے اور سرمایہ کاری کا ماحول ساز گار ہونے کی وجہ سے نہ صرف روز گار کے مواقع بڑھے بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کی تنخواہوں اور بھتوں نیز دیگر سہولیات سے متاثر ہو کر نوجوانوں نے سرکاری نوکریوں کی طرف توجہ دینا ہی کم کردیا ۔ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ حکومت کو لگنے لگا کہ با صلاحیت نوجوان صرف پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت تلاش کررہے ہیں اس لئے سرکاری ملازمت میں محض دوئم درجہ کی صلاحیت والے Mediocre) ہی رہ جائیں گے لہذا چھٹے تنخواہ کمیشن کی سفارشات میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ سرکاری عملہ کی تنخواہیں بھی پرائیویٹ سیکٹر جیسی ہوجائیں تاکہ حکومت کے پاس باصلاحیت عملہ کی کمی نہ رہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اچھے اور با صلاحیت منیجروں کی فراہمی کیلئے ملک بھر میں منیجمنٹ کالجوں کا جال بچھ گیا اور بڑی بڑی کمپنیاں طلبا کو ڈگری ملنے سے قبل ہی ان کے کالجوں میں جاکر ہی ان کی تقرر ی کرنے لگیں ، تاجرانہ سر گرمیاں بڑھنے سے روز گار کے مواقع بڑھے جس سے لوگوں کی قوت خرید بھی بڑھی اور جس گاؤں میں لوگ کبھی کھا کبھار آنے والی موٹر سائیکل یا کار کو دیکھنے کیلئے جمع ہو جاتے تھے وہاں ان کی بھیڑ ہوگئی ۔ آج حالت یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے اور پسما ندہ گاؤں میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کم از کم ایک موٹر سائیکل اور ایک سے زائد موبائل سیٹ نہ ہو ۔ غرض یہ کہ ترقی کا ایک ایسا چکر چل گیا جس نے ہندوستا ن کی تصویر ہی بدل دی اگر صرف25سال پہلے کے ہندو ستان اور آج کے ہندوستان کا ایماندارانہ اور منصفانہ مقابلہ کیا جائے تو تصویر بالکل صاف ہوجائے گی ۔
جواہر لال نہرو کے دور سے لے کر اندرا گاندھی کے دور تک ہندوستان اگر چہ مخلوط معیشت کی راہ پر چلا لیکن ترجیح سوشلزم کو دی گئی کیونکہ تب نہ ہندوستانی صنعت کار اتنے مضبوط تھے اور نہ ہی ہندوستان میں ڈھانچہ جاتی سہولیات تھیں۔ چونکہ ان میں منافع کے امکانات بہت کم تھے اس لئے حکومت نے یہ ذمہ داری خود سنبھالی اور عوامی زمرہ میں بڑی بڑی کمپنیاں اور ادارے قائم کئے گئے جنہوں نے گر چہ بڑے بڑے کام کئے لیکن بتدریج ان پر لال فیتہ شاہی اور بدعنوانی حاوی ہوتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ ان میں سے زیادہ تر سفید ہاتھی بن گئے ۔ تب تک عالمی حالات بھی کافی حد تک بدل گئے تھے اور سوشلزم یا کمیونزم جو کبھی فیشن بن گیا تھا اس کی بخیہ ادھیڑی جانے لگی۔ سوشلزم کا سب سے مضبوط قلعہ سو ویت یو نین اپنے اندرونی دباؤ میں گرکر چکنا چور ہوگیا ۔ سو ویت یو نین اور اس کے سوشلزم کے نظریہ کا یہ زوال اگر چہ سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی نہیں تھی لیکن وہ بہر حال ایک ازکار رفتہ نظام تو بن ہی گیا تھا ۔ہندوستان میں راجیو گاندھی نے معاشی اور سیاسی محاذ پر ہو رہی اس اہم تبدیلی کا ادراک کرتے ہوئے ہندوستانی معیشت کو تبدریج کھولنے کا سلسلہ شروع کیا اس میں ان کے دیگر مشیروں میں ایک اہم نام منموہن سنگھ کا تھا جو اس وقت رزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کی حیثیت سے ہندوستانی معیشت کے خدو خال کا تعین کررہے تھے ۔ راجیو گاندھی اور ان کی ٹیم نے ایک جانب ہندوستانی معیشت کو کھولا دوسری جانب پنچایتی راج نظام کے ذریعہ ترقی اور خوشحالی کے پھلوں کو دور دراز کے گاؤں تک پہنچانے کی پہل کی جس کا آغاز جواہر روز گار یوجنا کے تحت کھڑنجہ سڑکوں کا جال بچھا کر آمد ورفت کو آسان کرنے سے ہوا جو تمام ترقیاتی سر گرمیوں کی کلید ہے ۔راجیو گاندھی کی شکست اور ان کے قتل کے بعد کا ہندوستان نہ صرف مندر منڈل کی سیاست کا شکار ہو گیا بلکہ سیاسی عدم استحکام میں ایسا جکڑا کہ دس برس تک کوئی کام ہی نہیں ہوسکا نتیجتاً معیشت اس نہج پر پہنچ گئی کہ ضروری خریداری کے لئے سونا گروی رکھنا پڑا تھا۔
نر سمہا راؤ کی قیادت میں جب کانگریس پھر برسر اقتدار آئی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزارت مالیات کی ذمہ داری سونپی گئی اس نئی حکومت نے ہندوستانی معیشت کو عالمی معاشی نظام سے ہم آہنگ کرنے Globalisation کا سلسلہ شروع کیا ۔ آزاد تجارت اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ۔ راشن کوٹہ پرمٹ راج کو ختم کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس اسکوٹر کو خریدنے کے لئے پانچ چھ سال انتظار کرنا پڑتا تھا اور بلیک میں بکتی تھی وہ خونچہ لگاکر آدھار بھی بیچی جانے لگی اس معاشی نظام کی کچھ خامیاں بھی ہیں اور اس کے بداثر سے بھی ایک طبقہ متاثر ہواہے لیکن بحیثیت مجموعی اس نے ملک کی تصویر اور تقدیر بدل دی کوئی ہٹ دھرمی پرآمادہ ہوکر اس حقیقت سے انکار کرے تو یہ لا علاج مرض ہے۔
منموہن سنگھ کی اس معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں متوسط طبقہ کے لوگوں کی تعداد اچانک بہت بڑھ گئی اور یہ طبقہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اپنا مسیحا سمجھنے لگا جبکہ اس سے قبل وہ بی جے پی کا ٹھوس ووٹ بینک تھا۔ 2009 کے پارلیمانی الیکشن میں اس متوسط طبقہ نے کانگریس کو بھر پور ووٹ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے روایتی دیہی ووٹروں اور اس متوسط طبقہ کے ووٹ کی وجہ سے کانگریس نے 206سیٹیں حاصل کرلیں جبکہ بی جے پی کا گراف بہت نیچے چلا گیا۔ اس شکست نے آر ایس ایس کو تلملادیا اور وہ اپنے کھوئے ووٹ بینک کو واپس لانے کے لئے سر گرم ہوگئی جس کا آغاز ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کر دار کشی سے ہوا۔ ایک طرف انا ہزارے کو میدان میں اتارا گیا دوسری جانب الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ طومار کھڑے کئے گئے کمپٹرولر اور اڈیٹر جنرل نے اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردیا تخمینی گھاٹے کا حساب لگانے کا نیا سلسلہ شروع کیا اور میڈیا کہ مہر بانی سے یہ تخمینی گھاٹا بدعنوانی میں بدل گیا ۔ انگریزی کی کئی ڈکشنری دیکھنے کے بعد راقم آج تک یہ سمجھ سکا کہPresumptiveLossیعنی تخمینی گھاٹہScam یعنی بدعنوانی میں کیسے بدل گیا۔ فیس بک کے ذریعہ ٹی وی کے بڑے بڑے صحافیوں سے اس کی وضاحت چاہی مگر کوئی جواب نہیں ملا اس دو ان حکومت کی پے در پے سیاسی غلطیاں اور عالمی حالات کی وجہ سے شرح نمو گھٹنے اور افراط زر بمعنی گرانی بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور جس کی بڑی سیاسی قیمت کانگریس کو ادا کرنی پڑ سکتی ہے ۔ ذاتی طور سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی امیج جتنی خراب ہوئی ہے شاید اتنی کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کی نہیں ہوئی جس شخص نے ملک کی تقدیر بدل دی ہو اس کے اس انجام پر ہر شریف انسان کو افسوس ضرور ہوگا خصوصاً تب جب ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ ذاتی طور سے ان کا دامن بدعنوانی سے پاک ہے۔
پارلیمنٹ میں حکومت کی مکمل اکثریت نہ ہونے کی بناپر نہ صرف حلیف اور حریف بلکہ دوسرے جمہوری ادارے اور میڈیا بھی بات بات پر حکومت کو آنکھیں دکھاتے ہیں کوئی جمہوری و آئینی ادارہ ایسا نہیں ہے جس نے اپنی حد سے تجاوز کرکے حکومت کے لئے مشکلات نہ کھڑی کی ہوں حکومت کی حالت غریب کی بیوی سب کی بھابی جیسی ہوگئی ۔ حکومت کا ہر فیصلہ اس کا ہر قدم اس کی ہر پالیسی کی نہ صرف مخالفت کی جانے لگی بلکہ حکومت کا ہاتھ امیٹھ کر اس کا فیصلہ بدلنے کی بھی کوشش ہونے لگی حکومت کے ہر فیصلے میں بدعنوانی تلاش کی جانے لگی حالات اتنے بگڑچکے ہیں کہ اب کوئی وزیر اور کوئی افسر دور رس اور حوصلہ مندانہ فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کر پارہاہے سبکدوش افسر شاہ تک قانون کے شکنجے میں لائے جارہے ہیں جو فیصلے کرے گا اس سے غلطی بھی ہوگی اور اگر اس میں بد دیانتی اور مالی منفعت شامل نہیں ہے تو اسے بدعنوانی کے زمرہ میں نہیں رکھا جا سکتا لیکن اپوزیشن نے بے سرو پا الزامات لگانے اور میڈیا اسے طشت از بام کرنے کی مہم چلاکر اپنا سیاسی مقصد بھلے ہی حاصل کرلیا ہو لیکن ملک کو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے آج حالت یہ ہے کہ نہ صرف بیرونی سرمایہ کار بلکہ خود ہندوستانی سرمایہ کار اور صنعت کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ پتہ نہیں ان کی کسی بات میں یا کس سرکاری سہولت میں بدعنوانی کی تلاش شروع کرکے ان کی کر دار کشی شروع کردی جائے عدالت سے زیادہ انہیں ٹی وی پر چلنے والی بحث اور اس کے ذریعے کردار کشی سے شکایت ہے۔ ممتاز صنعت کار کمار منگلم برلا کی گرفتاری اور وزارت کوئلہ کے سابق سکریٹری مسٹر پر کھ کے خلاف ایف آئی آر نیز وزیر اعظم منموہن سنگھ جو اس زمانہ میں وزارت کوئلہ بھی دیکھ رہے تھے ان کے خلاف مہم نے ہندوستان کے معاشی و صنعتی نظام کو ہلاکر رکھ دیاہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی حامی میڈیا نے اپوزیشن کی سیاست کو جو نئی نہج دی ہے اس کا شکار وہ خود 2014میں ہوسکتی ہے اگر خوانخواستہ اس کی حکومت بن جائے تو ،یعنی ملک سیاسی خود غرضی کی قیمت چکاتا ہی رہے گا ان حالات میں صنعت کاروں کی تنظیم ایسوسی ایٹڈ چمبر آف کامرس کے عہدیداروں کا وزیر اعظم کے نام مکتوب نہ صرف ان کی تشویش کو اجاگر کرتاہے بلکہ مستقبل کے خطروں کی طرف بھی آگاہ کرتاہے ضرورت ہے کہ نہ صرف حکمراں جماعت بلکہ اپوزیشن میڈیا ، عدلیہ، دیگر آئینی ادارے اور خود عوام حکمرانی کی نزاکتوں کا ایماندارانہ ادراک کرتے ہوئے مستقبل کا اپنا لائحہ عمل طے کریں ۔ ملک سیاسی مہم جوئی کا متحمل نہیں سکتا۔
جواب دیں