ملک شام

ملک شام کی سرزمین پہاڑوں اوروسیع صحراؤں کامجموعہ ہے،علوم جغرافیہ والے اسکے صحرا کو ’’صحرائے شام‘‘بھی کہتے ہیں۔ترکی سے شروع ہونے والاایک دریا ملک شام میں داخل ہوتا ہے جو یہاں کے لیے قدرتی پانی کا واحد بڑا ذریعہ ہے،1973میں حکومت نے اس دریاپر بندباندھ کر ’’اسدجھیل‘‘کے نام سے پانی کاایک بہت بڑا ذخیرہ بنالیاجسے اب متعدد مقاصد کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔پہاڑی علاقوں میں چھوڑی بڑی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جوعلاقے کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔یہاں کا موسم خشک اورگرم ہے،پہاڑی علاقوں کی چوٹیوں پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے لیکن بہت کم،بارشوں کی سالانہ اوسط بھی تیس سے چالیس انچ سالانہ سے زیادہ نہیں۔ سال میں ایک دو دفعہ ریت کے ایسے طوفان بھی اٹھتے ہیں کہ آسمان سیاہ ہوجاتاہے۔1962میں یہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد سے اب تک تیل ہی ملک شام کی سب سے نقد آور صنعت ہے۔
ملک شام ایک عرصہ تک یونانیوں اوررومیوں کے زیرتسلط رہاجس کے اثرات وباقیات آج تک بھی کچھ دیہی علاقوں میں موجود ہیں،پھر اسلام سے روشناس ہوا اور632ھ میں خالدبن ولیدؓنے دمشق فتح کیا۔آغاز اسلام کی بہت ہی دلچسپ تاریخ ملک شام کے گلیوں اور بازاروں میں رقم ہوتی رہی۔ چار سوسالوں تک یہاں عثمانی ترکوں کی حکومت بھی رہی لیکن اس سارے عرصے میں ملک شام پر عرب ثقافت کی برتری قائم رہی اور قدیم و جدید مل کر بھی ملک شام کی عربی شناخت کو ختم تو کیا اسے کمزور بھی نہ کر سکے۔عربوں کے علاوہ کردوں کے بھی بہت سے قبائل یہاں آباد ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کرد بھی اب آہستہ آہستہ عربی تمدن کو ہی اختیارکر چکے ہیں ،نسلی پہچان اگرچہ انکی جدا ہی ہے۔عربی یہاں کی سب سے بڑی بولی جانے والی زبان ہے لیکن کردزبان اور ترکی زبان کے بولنے والے لوگ بھی سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔کم و بیش پونے دو کروڑ کی آبادی اس ملک کی سرحدوں کے اندر رہائش پزیر ہے اورآبادی میں شرح خواندگی کا تناسب 83% ہے۔یہاں کی اکثریت بلکہ بہت بڑی اکثریت مسلمان ہے اور اسی وجہ سے ملک شام کو اسلامی ملکوں میں شمار کیاجاتاہے ،کم و بیش 10%عیسائی بھی یہاں رہتے ہیں اور چند ہزار یہود کی تعداد بھی یہاں پر موجود ہے۔آبادی کانصف شہروں میں اور نصف ہی دیہاتوں میں آباد ہے۔1948کے بعد اسی ہزار فلسطینی ہجرت کر کے تو ملک شام میں آن آباد ہوئے تھے اور 1967میں جولان کی پہاڑیوں کے مفتوح ہوجانے کے بعد یہاں کی بہت بڑی آبادی ملک کے دوسرے حصوں میں سدھار گئی۔1958میں کیمونزم کے معاشی نظام کو یہاں اپنا لیاگیاجس کے باعث ملکی آبادی کی بہت بڑی تعداددوسرے عرب ممالک میں جانے پر مجبور ہو گئی شاید اس لیے کہ محمد عربی ﷺ کی امت کے ملک پر کوئی دوسرا نظام کیسے پنپ سکتا ہے؟؟تب سے ملک کے بڑے بڑے کاروبار اور صنعتیں جن میں بجلی کی پیداواراور ریلوے بھی شامل ہے حکومت کی ملکیت ہی ہے تاہم بہت چھوٹی سطح پر نجی اداروں کو بھی کاروبار کی اجازت میسرہے۔
1973ء میں یہاں ایک آئین منظور کیاگیا جس کے مطابق ملک شام عرب کا ایک اہم حصہ ہے،آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے لیکن حافظ الاسد کے زمانے سے ہی بنیادی حقوق معطل چلے آرہے ہیں۔آئین کے مطابق ملک شام کی عرب سوشلسٹ پارٹی کی قیادت ملک کے لیے صدر کا تقرر کرتی ہے اور صدر اپنی معاونت کے لیے وزراکا تعین کرتا ہے۔حافظ الاسدیہاں کے صدر تھے انکی اچانک وفات کے بعدانکے صاحبزادے بشارالاسدآئین کے مطابق ملک کے صدر نہیں بن سکتے تھے کیونکہ انکی عمر کم تھی چنانچہ بیٹے کو باپ کی جگہ تخت نشین کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی اور اتنی عمر لکھی گئی جتنی عمر میں بشار الاسداس وقت موجود تھے۔یہ ملک شام کی جمہوریت ہے جس کا دارومدار سوشلسٹ فکر پر ہے۔ملک میں دوصوبے بھی ہیں اورانکے گورنرز بھی تعینات کیے جاتے ہیں لیکن اختیارات کا ارتکاز مرکز پر ہی ہوتا ہے اورمرکز سے مرادصدر کی ذات بابرکات ہی ہے،جمہوریت کے نام پر شخصی اقتدارکی اس سے بدتر اور کیامثال ہوگی،کم و بیش یہی صورتحال عراق میں صدر صدام کے وقت میں تھی۔ملک شام کی سوشلسٹ پارٹی کے بالترتیب تین ادارے ہیں ،سب سے بڑا دادارہ نیشنل کمانڈ،پھر ریجنل کمانڈ اور تیسراادارہ پیپلزکونسل،کہنے کو ان اداروں سے منتخب لوگ اوپر جاتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہیں لیکن انکی حیثیت ربر سٹیمپ کے برابر بھی شاید نہیں ہوتی اور بدترین قسم کاآمرانہ نظام ملک شام کے باسیوں پر مسلط ہے۔عدلیہ کے نظام میں اسلام کے ساتھ ساتھ فرانس کا قانون بھی رائج ہے ۔
ملک شام میں آٹھ سال کی عمر میں تعلیم لازمی ہوجاتی ہے ۔سکول کے بچوں کو حکومت کی طرف سے کتب مفت میں مہیا کی جاتی ہیں۔پرائمری تعلیم کا دورانیہ چھ سال ہے اور اسکے بعد تین سال تک ثانوی تعلیم دی جاتی ہے۔اسکے بعد یونیورسٹی کی تعلیم یا فنی تعلیم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اعلی تعلیم کی جامعات 1963کے بعد سے قائم کی گئی ہیں۔ملک شام میں فوجی تربیت تمام نوجوانوں کے لیے لازم ہے ،کالجوں کے تمام طلبہ عسکری تربیت بطور لازمی تعلیم کے حاصل کرتے ہیں۔یہاں کی فضائیہ روس کے تعاون سے تیار کی گئی ہے اور ایک مختصر سی بحری قوت بھی بحری سرحدوں پر موجود رہتی ہے۔فلسطینی گوریلے نوجوان شام کی سرحدوں سے ہی اسرائیل کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں اور ان گوریلے فلسطینی نوجوانوں کی تربیت کا انتظام بھی شام میں ہوتاہے۔
1840میں یورپین افواج ملک شام کے ساحلوں پروارد ہوئیں ،یہ عثمانی ترکوں کادور حکمرانی تھا،مسلمانوں اوریورپین کی کشمکش کا ایک طویل دور ملک شام میں جاری رہا اور آہستہ آہستہ عثمانیوں کے زوال کے ساتھ ہی یورپ کے اقتدار کا سورج ملک شام میں طلوع ہوتاگیا۔1866کے بعد فرانس نے اپنے تعلیمی ادارے بھی ملک شام میں کھول دیے اور عام لوگ بھی یورپی تہذیب میں رنگنے لگے،لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی اکثریت کی ہمدردیاں سلطان کے ساتھ ہی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران 1918میںیورپی افواج نے ملک شام پر قبضہ کر لیااور عیسائی و یہودی شہریوں نے فاتح افواج کو خوش آمدیدکہا۔مسلمانوں کی ہمدردیاں اگرچہ اب بھی عثمانیوں کے ساتھ ہی تھیں،لیکن غدار امت ’’شریف مکہ‘‘نے مسلمانوں کی امیدوں کے برعکس اور خلافت اسلامی کی افواج کاساتھ دینے کی بجائے برطانوی افواج کی وفاداریوں کادم بھرنا شروع کر دیااورصلیبیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرلیااوراس طرح شریف مکہ کے بیٹے کی قیادت میں ایک عرب لشکر تیار کیاگیا جس نے برطانوی کمانڈر کے تحت ملک شام کو اسلامی ترک سپاہ سے خالی کرالیا۔
معاہدے کے مطابق ملک شام کااقتدار شریف مکہ کے بیٹے ’’فیصل‘‘کو سونپ دیاگیالیکن سامراج کاوعدہ کوئی وعدہ نہیں ہوتا اور جولوگ اپنی ملت کے ساتھ وفا نہیں کرتے دشمن بھی ان کے ساتھ کبھی وفا نہیں کرتا،دو سال حکومت کاجھولا جھولنے کے بعد فرانس نے ملک شام پر قبضہ کر کے تو فیصل کو وہاں سے بے دخل کردیا۔فرانس یہاں حکومت کرنے لگااور ملک شام میں فرانسیسی انتظامیہ کے تحت متعدد انتخابات بھی ہوئے ۔فرانس کی عملداری جاری تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے منحوس سائے انسانیت پر مسلط ہوگئے جس کے بعد برطانیہ اور فرانس میں ایک طویل دورانیے کے مذاکرات میں مشرق وسطی کی آزادی کے اصول و ضوابط طے ہوتے رہے اور بالآخر اپریل 1946کو فرانسیسی افواج کا مکمل انخلا عمل میں آیا اور ملک شام آزاد ہوکر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا تاسیسی رکن بنا۔1948ء میں عالمی سامراج کی بندر بانٹ کے نتیجے میں اورشریف مکہ کی غداری کے ثمرات کے طور پر اسرائیل کا ناپاک وجودسرزمین عرب میں وارد ہوگیا،اس سے جہاں پوری امت مسلمہ اورپوراعالم عرب خاص طور پر متاثر ہواوہاں ملک شام اسکا براہ راست نشانہ بن گیا کیونکہ اسرائیل کی سرحدیں ملک شام سے بالکل منسلک کر دی گئی تھیں۔1958سے1961تک مصر اور شام ایک ہوگئے لیکن یہ تجربہ کوئی بہت اچھا ثابت نہ ہوا اور ملک شام کے فوجی افسران نے دوبارہ اپنے ملک کو آزاد ریاست بنالیا۔سوشلسٹ خیالات کے سیکولر فوجی افسران نے 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کھائی اور جگہ جگہ بری طرح ہزیمت کاشکارہوئے اور نتیجہ کے طور پر ملک شام اپنے قیمتی علاقے جولان کی پہاڑیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔1973کی جھڑپوں میں اس سیکولر فوجی عنصر نے اپنے ملک کا پہلے سے بھی زیادہ نقصان کیااور پھر1982کی جنگ میں پھر شکست کھائی لیکن حیرانی ہے کہ اس بدترین تجربوں کے باوجود اپنے دین کی طرف پلٹنے کی بجائے پھر بھی روس کے پس ماندہ نظریات سے ہی وابسطہ رہے۔حقیقت یہی ہے کہ مشرق و مغرب کی بجائے صرف مکہ و مدینہ میں ہی امت کی نجات و فلاح پنہاں ہے۔

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے