ملک میں امن و قانون کی بگڑتی صورت حال کی کسی کو پروا نہیں

 ملک میں اخلاق اورکردارکے موضوع پر اب گفتگو تک نہیں ہوتی

عبدالغفارصدیقی

اس وقت میرے سامنے جولائی مہینے کی کچھ خبریں ہیں،جو ایک معتبر واٹس اپ گروپ سے لی گئی ہیں۔ان خبروں سے ملک کی اخلاقی،سماجی صورت حال اور امن و قانون کی ناگفتہ بہ تصویر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ایک خیر خواہ اور درمنددل رکھنے والاانسان جب ان خبروں،واقعات اور حادثات کو پڑھتا اور سنتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے۔وہ اپنے ماضی کو یاد کرکے بیتے ہوئے اچھے دنوں کو یاد کرتا ہے۔اسے یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ملک کا مستقبل انتہائی تاریک ہے۔ان تمام خبروں میں سب سے دل دہلادینے والی خبر منی پور فسادات کی وہ ویڈیو ہے جس میں دو لڑکیوں کو برہنہ کرکے دوڑایا جارہا ہے اور ان کے ساتھ درندگی کی گئی ہے،اس سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ یہ ویڈیو دو ماہ بعد منظر عام پر آیا ہے،مزید شرمناک خبر یہ ہے کہ بقول ذمہ داران حکومت  ایسی سینکڑوں واردات اس تشدد میں ہوئی ہیں۔میرٹھ میں بھی اسی طرح کا واقعہ دہرایا گیا ہے۔منی پور فسادات جسے نسل کشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ فسادات کے مناظر دیکھ کر گجرات فسادات کے زخم ہرے ہوگئے ہیں۔گجرات میں مسلمانوں کو سبق سکھایا گیا تھا اور منی پور میں عیسائیوں کو سکھایا جارہا ہے۔250سے زائد چرچوں کا جلاجانا یہی ثابت کرتا ہے۔
 دوسری خبر جو پورے ماہ سرخیوں میں رہی وہ سیماحیدر سے متعلق ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جس سیما اور سچن کو غیر قانونی اور ملک مخالف سرگرمیوں کے عوض جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا ان کا استقبال کیا جارہا ہے،بی ایس ایف اور دیگر سیکیوریٹی ایجنسیوں کی ناکامی پر متعلقہ افسران کو سزا دینے کے بجائے،سیما کو شہریت دلانے کی مہم چلائی جارہی ہے،جس عورت کے پاس سے پانچ موبائل فون،پانچ پاسپورٹ ملے ہوں،جس کے بیانات میں اختلاف ہو،جس فراٹے سے وہ ہندی بول رہی ہو،جو نیپال کے ہوٹلوں میں فرضی نام سے رہی ہو،جس نے ہندوستان آنے کے لیے غیر معروف راستوں اور غیر قانونی ذرائع و وسائل کا استعمال کیا ہو،جس کے اندر کا اعتماد اس کے ماہر جاسوس ہونے کی کھلی شہادت دے رہا ہوہم اس کو اپنی بہو بنانے پر نازاں و شاداں ہیں،صرف اس لیے کہ وہ پہلے سیما حیدر تھی اور اب سیما سچن ہوگئی ہے،اس کا مطلب ہے کہ ہمارے لیے دھرم،ملک سے زیادہ ہے۔ملک کے مسلمانوں کو این آر سی کے نام سے ملک بدر کرنے کا خواب دیکھنے والے،دشمن ملک سے بھاگ کر غیر قانونی راستوں سے آئی نام نہاد مسلم عورت اور اس کے چار بچوں کو شہریت دینے اور دلانے کی بات کس منہ سے کررہے ہیں۔اس موضوع پر گودی میڈیا نے جو طوفان بدتمیزی برپا کیا اور اس کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا اس کا جواب انجو نے دے دیا۔اب ہمارے ملک کی انجو ویزا لے کر اپنے محبوب نصر اللہ سے ملنے پاکستان کے صوبہ خیر پختون خواہ پہنچ گئی ہے،اس پر گودی میڈیا خاموش ہے۔سیما کی حمایت ان حالات میں ہورہی ہے کہ اسی مہینے ہمارے دو شہری نوین پال اورپردیپ کل کر  پاکستان کو خفیہ معلومات دینے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ہیں اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر مشتبہ ڈرونز اڑتے دیکھے گئے ہیں۔
ملکی سیاست سے اخلاقیات کا باب آزادی ملنے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔لیکن جب سے نیتک شکشا نام کی کتاب ہمارے اسکولوں کے نصاب سے باہر کی گئی ہے تب سے تو اخلاقیات کے موضوع پر ہمارے سیاست داں بات ہی نہیں کرتے،ہمارے سیاسی اخلاق اور آدرش کا حالیہ ہے کہ وہی این سی پی جس کے خلاف الیکشن لڑا،جن کو کرپٹ کہا،جن پر کروڑوں روپے کے غبن کا الزام چند روز پہلے تک لگاتے رہے،وہی جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہی پاک ہوگئے اور حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ بنا دیے گئے۔ وہی راج بھر جن کی پارٹی میں مختار انصاری کا مافیاڈان بیٹا ایم ایل اے ہے اب این ڈی اے کا حصہ ہوگئے۔وہی جینت چودھری جن کے پرکھوں نے ہمیشہ فسطائی ذہنیت کی مخالفت کی مگر موقع پرستی کی سیاست کے چلتے انھیں بی جے پی میں شامل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ایک طرف کیجریوال ملک کے وزیر اعظم کو ان پڑھ بتاکر ملک اور اہل ملک کی توہین کرتے ہیں تو ہم کچھ نہیں کرتے،لیکن دوسری طرف راہل گاندھی کو سزا دیتے ہیں،ایک طرف ہندو دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام جنتر منتر پر ملائوںکو کاٹنے کی بات کرتی ہیں تو کچھ نہیں ہوتالیکن دوسری طرف اعظم خان کو ہیٹ اسپیچ معاملہ پر سزاسنائی جاتی ہے۔آخر یہ کون سے آدرش ہیں،میں آر ایس ایس کو اخلاقی اعتبار سے بہت اچھی تنظیم سمجھتا تھا،بھلے ہی نظریاتی اختلاف رہا ہو،لیکن ان نو سال میں اس نے اپنے نوے سال کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔
کسی جمہوری ملک میں کوئی فرد جب کسی آئینی عہدے پر ہوتا ہے تووہ پارٹی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر بات کرتا ہے،اس لیے کہ وہ پارٹی کا نمائندہ نہ ہو کر ملک کانمائندہ ہوتا ہے،منموہن سنگھ جی تک یہ سلسلہ ہم دیکھتے ہیں، اٹل بہاری باجپئی جی کے اندر بھی اتنی مریادا باقی تھی۔مگر موجودہ وزیر اعظم ہمیشہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کہ وہ صرف بی جے پی کے وزیر اعظم ہوں،اس کے علاوہ اس ماہ کی حیران کن خبر یہ ہے کہ ہمارے نائب صدر جمہوریہ جناب پردیپ دھنکڑ جی نے آسام میں آئی آئی ٹی کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’یو سی سی فوراً نافذ ہونا چاہئے،تاخیر سے نقصان ہوگا۔‘‘وہ بھول گئے کہ وہ ملک کے نائب صدر ہیں،یوسی سی پر لاء کمیشن رائے لے رہا ہے،اس کی حمایت میں کم، مخالفت میں زیادہ آوازیں اٹھ رہی ہیں،ان کی رائے سے آئینی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ان کا یہ بیان ہماری جمہوری اقدار کے خلاف ہے اور اس سے ملک کا مستقبل تاریک تر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟
 زعفرانی حکومتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں اور ہر قدم پر عصبیت کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔خبر ہے کہ اترپردیش آگرہ میں جامع مسجد میٹرو اسٹیشن کا نام بدل کر ہمارے قابل وزیر اعلیٰ نے منکامیشور مندر رکھ دیا ہے۔بہار میں بجلی کا نظام درست کرنے کے لیے دھرنا دینے والے مسلمانوں پر پولس نے گولیاں چلادی ہیں جس میں خبر کے مطابق تین مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ نتیش کمار جی اب بھی اسی فسطائی ذہنیت سے کام کررہے ہیں جیسا کہ وہ این ڈی اے کے دورمیں کرتے تھے۔یوپی کے پرائمری و جونئر ہائی سکولوں میں دس محرم کی چھٹی کینسل کردی گئی تاکہ دہلی میںشکشا نیتی پر ہورہے پروگرام سے بچے مستفید ہوسکیں۔یعنی مسلمانوں کی خوشی و غم کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔
ملک بھر میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی اور مظالم میں میں اضافہ ہوا ہے۔دہلی میں ایک تہرہ سال کی لڑکی سے آٹھ لوگوں نے زنا بالجبر کیا توکاسگنج میں باپ سے رنجش کے چلتے چار لوگوں نے اس کی بیٹی کا ریپ کردیا جس کے چلتے اس لڑکی نے خود سوزی کرلی،مدھیہ پردیش میں ایک مسلم لیڈی ڈاکٹر کو سر عام ہندو شدت پسندوں نے زدو کوب کیا اور کہا کہ وہ اس راستے سے نہ گزریں ورنہ پورا خاندان ماردیا جائے گا۔اس سے زیادہ چونکانے والے خبر یہ ہے کہ گزشتہ تین سال (2019تا2022)میں 13لاکھ سے زیادہ خواتین لاپتہ ہوگئی ہیں،یہ رپورٹ 30جولائی کو وزارت داخلہ نے جاری کی ہے۔یعنی بیٹی بچائو کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہورہا ہے۔
ملک میں امن و قانون کی مزیدصورت حال دیکھیے:ایم پی میں آدی واسی پر ایک شخص نے پیشاب کردیا،یہ تہذیب کی پستی کی انتہا ہے،مہاراشٹر کے بلڈھانہ ضلع میں بس پلٹنے سے 26لوگ زندہ جل گئے،بس میں 33لوگ سوار تھے،باقی زخمی ہیں،جھانسی میں بجلی کے دو شوروم میں آگ لگنے سے،ایک خاتون افسر کی موقع پر موت، 18 افراد لاپتاہیں۔مہاراشٹر کے دھلے ضلع میں ایک ٹرک نے تین کاروں کو ٹکر ماردی جس سے دس افراد کی موت ہوگئی۔میرٹھ کا آصف گورکشک دل کا ممبر ہونے باوجود سرعام قتل کردیا گیا،یعنی آپکا ساتھ دے کر بھی محفوظ نہیں،روہیلا دہلی میں دو نوجوانوں نے ایک نوجوان کا سر عام چاقو سے قتل کردیا۔رڑکی میںایک کار سوار کو کاونڑیوں نے پولس کے سامنے پیٹاگیا اور پولس تماشا دیکھتی رہی اس لیے کہ پٹنے والے نے ٹوپی لگارکھی تھی۔یوپی کے ضلع امیٹھی میں بی جے پی کے بوتھ یزیڈینٹ کی کچھ نوجوانوں نے پیٹ پیٹ کر جان لے لی،یعنی ماب لنچنگ اب خود آپ کو نشانہ بنا رہی ہے۔چمولی میں کرنٹ پھیلنے سے داروغہ سمیت سولہ لوگوں کی جان چلی گئی۔دہلی سبھاش پیلیس پولس اسٹیشن میں پولس کسٹڈی میں سعادت شیخ (20سال) کی موت  ہوگئی،رات کے نو بجے میڈیکل چیک اپ ہوا تھا جس وہ صحت مند تھا۔حزب اختلاف پر ای ڈی کا خوف طاری رکھنے کے لیے اس کی مدت میں توسیع کردی گئی ہے۔ہمارے گڈ گورننس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مالدارہندوستانیوں نے ترک وطن کرکے دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کرلی ہے۔
اس کے علاوہ بھی ملک کے طول و عرض میں ہزاروں لوگوں کی جان،بارش،سیلاب،لینڈ سلائڈ  اور روڈ ایکسیڈینٹ سے چلی گئی ہے۔انسان کی جان بہت قیمتی ہے،جس کا قتل ہوتا ہے یا کسی حادثہ میں کوئی جان گنوا بیٹھتا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوتی،فسادات،روڈ ایکسیڈینٹ،سیلاب یا پولس کسٹڈی میں جو لوگ مارے گئے،ان کے گھر خاندان میں ماتم چھا گیا،ان کا پریوار سڑک پر آگیا،ایک انسان دو چار دن میں جوان نہیں ہوجاتا بلکہ برسوں کی محنت اور درجنوں افراد کے جتن سے وہ جوان ہوتا ہے،پھر وہ ہمارے نظام کی خامی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتا ہے جس کا خمیازہ اس کے اہل خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ضرورت ہے کہ ہمارے ذمہ داران حکومت ہر شہری کی جان کے تحفظ کو یقینی بنائیں، حادثات میں ہونے والی اموات کو پراکرتی کا قہر کہہ کر نہیں ٹالا جاسکتا۔یہ ساری خرابی اس لیے ہے کہ ہم صرف دھرم کے نام پر سیاست کررہے ہیں،ہمیں ملک اور اہل ملک کی کوئی پروا نہیں ہے۔

«
»

سرکار دو عالم ﷺ کی شخصیت سراپا رحمت ہے

’مسلم سیاست‘ کو کچلنے کی غیر معلنہ پالیسی پر مسلسل عمل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے