ملک میں مسلمانوں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ضروری ہے۔

 

ذوالقرنین احمد

ملک عزیز بھارت میں اس وقت جو حالات بنے‌ ہوئے ہیں وہ قابل مزمت اور افسوسناک ہے دوسری مرتبہ بی جے پی کے مرکزی اقتدار میں آنے کے بعد فرقہ پرستی اقلیتوں پر ظلم و ستم ، انکے حقوق کو ختم کرنے والے قوانین ، انسانیت سوز جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں جہاں بھی بی جے پی کی سرکار ہے وہاں جنگل راج شروع ہو چکا ہے۔ کھلے عام کسی بھی انسان کا قتل کردیا جاتا ہے۔ قانون کے رکھوالے اور وردیوں میں ملبوس افراد تماشا بین بنے ہوئے ہیں۔ قانون ،آئین ، عدالت ، جج، وکیل حکومت کے ہاتھوں  کا کھلونا بن چکے ہیں۔ انصاف کیلئے اگر کوئی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاتا بھی ہے تو اسکے مقدمہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جو کارپوریٹ گھرانوں کے افراد ہے  ان کے مقدمے کی تاریخ مل جاتی ہےسنوائی بھی  ہوتی ہے۔ لیکن جو غریب مظلوم بے بس لاچار عوام ہے ان کے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ بھاری فیس ادا کرکے مہنگے وکیل لگا کر انصاف کی امید کر سکے ناہی انکے پاس وسائل ہے ناہی انصاف کا مطالبہ کرنا اتنا آسان ہے۔ غریب عوام کی آہیں، چیخیں نام نہاد انصاف مہیا کرنے والے اداروں کی چوکھٹ اور دروازوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی ہیں۔
کہ یہاں پہلے ان افراد کی آواز کو سنا جاتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے یا پھر سنگھی تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ یا پھر ایسے افراد جو اقتدار حکومت کے چیلوں کے بل بوتے پر قانون اور حکومت کو اپنے جیب میں سمجھتے ہیں۔ ان کے مقدموں کی عدالتوں میں فوری طور پر سنوائی کی جاتی ہے۔ جبکہ اقلیتی برادری کے  تعلیم یافتہ نوجوان جن کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے جیلوں کی زینت بنایا جاتا ہے اور انکی زندگی اور جوانی خاندانی نظام کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ اور ایک لمبے عرصے کے بعد انہیں باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ یہی سلسلہ ایک پوری پکچر یا کرائم سیریز کی طرح ہمارے سامنے ہیں۔ ہر انصاف پسند شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ملک میں ایک عرصہ سے مسلمانوں کو تختۂ مشق بنایا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی مسلمانوں کی آنکھیں بند ہے۔ وہ سیکولرزم، اور انصاف کی امید پر اپنا سب کچھ لٹاتے جارہے ہیں۔ ہزاروں زخم مسلمانوں نے امن و امان اور ملک کی سلامتی کی خاطر اپنے سینوں پر سہے ہیں۔ اور آج بھی اسی اندھے قانون کی خاطر اپنی جانوں کو ملک پر قربان کر رہے ہیں ۔ اور اسکے باوجود فرقہ پرست عناصر مسلمانوں سے دیش بھکتی اور محب وطن ہونے کے ثبوت مانگتے ہیں۔

ملک کی عوام کو اس سے بڑا ملک سے‌ محبت گا ثبوت اور کیا چاہیے کہ مسلمانوں نے گجرات، مظفر نگر میں بےجا قتل کیے جانے کے باوجود ملک کے امن کو یقینی بنایا، بابری مسجد کے شہادت پر غم و الم کو برداشت کیا، بابری مسجد کی زمین کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے زریعے مندر تعمیر کرنے کا غیر منصفانہ اور غیر قانونی فیصلہ قبول کیا ۔ جس میں سپریم کورٹ نے بھی تمام شواھد اور ثبوتوں کے باوجود اکثریت اور آستھا کی بنیاد پر یکطرفہ فیصلہ صادر کیا۔ اور اقلیتی برادری کے ساتھ ناانصافی کی انصاف کا قتل کیا آئین کی اہمیت کو مجروح کردیا ۔ گزشتہ حکومت نے اس مدعے پر کئی دہائیوں تک سیاست کی ہے۔اتنی ناانصافیوں  اور قتل و غارتگری کے باوجود مسلمانوں نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور آج تک فرقہ پرستوں کے ظلم و ستم کو سہتے آرہے ہیں۔ ملک کی فرقہ پرست حکومت اور سنگھی تنظیمیں اس بات کا اور صبر کا غلط استعمال کر رہی ھے۔ مسلمانوں کے اندر ڈر و خوف کا ماحول پیدا کرکے ان پر جبرا قانون سازی کی جارہی ہیں۔ ملک میں انکے خلاف میڈیا کے ذریعے نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ دیگر اقلیتوں کے اندر نفرت پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کیا جارہا ہے۔ فرقہ پرستوں نے گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے اجین میں رام مندر کیلئے چندہ جمع کرنے کے نام پر ریلی پر پتھراؤ کے نام پر مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اسی طرح اندور کے ایک گاؤں میں فرقہ پرستوں نے مسجد پر چڑھ کر پولس کی موجودگی میں مسجد کے تقدس کو پامال کیا ہے۔گھروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ سب کیمروں میں قید ہوچکا ہے اور اس سے قبل بھی بابری مسجد کی شہادت کی کئی ویڈوں موجود ہونے کے باوجود مجرموں کو بری کردیا گیا ہے۔ اور انصاف کی امید پر مسلمانوں نے ۲۸ سالوں تک انتظار کیا لیکن غیر منصفانہ سلوک کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی سخت اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ فرقہ پرست حکومت اور میدیا خاموش ہے۔ اگر یہی سب مسلمانوں کی طرف سے کیا جاتا تو اب تک مسلمانوں پر ہزاروں الزامات لگا دیے گئے ہوتے میڈیا منصف بن کر فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اور مسلمانوں کو دیش دروہی، دہشت گرد ثابت کرکے دم لیتا۔ تاناشاہی حکومت کے ظلم و جبر کے باوجود مسلمانوں نے امن و امان کا مظاہرہ کیا ہے۔

ملی تنظیموں کی طرف سے ہمیشہ کی طرح سخت الفاظ میں مزمت کے پریس نوٹ جاری کردیئے جاتے ہیں اور پھر نئے زخم سہنے  کیلئے قوم بے بس و لاچار نظر آتی ہیں۔ ہر فساد میں قوی جانی و مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ جس کے بعد مسلمانوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دو وقت روٹی کیلئے پریشان نظر آتے ہیں۔ اپنے منہدم مکانات کی تعمیر کیلئے پریشان ہوجاتے ہیں انہیں اپنے بچوں کا مستقبل غیر محفوظ دیکھائی دیتا ہے یا پھر گاؤں بستی چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ کیسا ستم ہے کہ ہم زخم پر زخم کھائے جارہے ہیں لیکن ہوش میں آ نے کیلئے تیار نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے پرانے زخم بھرنے نہیں پاتے ہیں کہ پھر سے ایک نیا زخم تیار ہوجاتا ہے۔ جو مسلمانوں کو مستحکم ہونے کا موقع فراہم نہیں ہونے دیتا ہے۔ مسلمان آج اپنے زخمی وجود کے ساتھ زندگی اور موت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اور مستقبل کے حالات سے بے خبر ہے۔ نا امیدی کفر ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خواب غفلت میں رہے اور دشمن ہماری گردنوں میں غلامی کے طوق ڈال دیں۔ اور ہمیں جھپٹنے پلٹنے کا موقع بھی نہ ملے ناہی دفاع کی گنجائش رہے۔

اس لیے مسلمانوں کو اور قوم کے رہنماوں قائدین کو مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کروانے کیلئے ملک کی سنگھی حکومت اور فرقہ پرست تنظیموں کے خلاف محاذ آرائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسی طرح سے صرف پریس نوٹ جاری کرکے انصاف کی بھیک مانگتے رہے گے تو انصاف ملنا تو دور ملک میں اپنی جان مال، عزت و وقار، مذہبی آزادی، حق و انصاف، شہریت سب کچھ ختم کردی جائیں گی۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ پرستوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلئے انہیں انکی زبان میں جواب دیا جائے۔ ورنہ اگر ایسے ہی خاموشی اختیار کرلی گئی تو یہ آنے والی نسلوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی جو ہماری گمراہی اور بزدلی کا بوجھ ڈھونے کیلئے مجبور ہوگی۔ حکومت جس طرح اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہوگئی ہے اور ظلم و جبر کر رہی ہے اسی طرح اسکے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا ۔ ورنہ یہ فرقہ پرست صرف مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر ملک کو تباہ و بر باد کردینگے۔ ملک کی حفاظت کیلئے عوام میں امن و امان اور برابری کے حقوق و انصاف، آزادی  کی بحالی ضروری ہے۔ مسلم تنظیموں کو چاہیے کہ  پریس نوٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سے دو ٹوک الفاظ میں بات چیت کریں ۔ عوام کو حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر اتاریں ۔آج ملک میں فرقہ پرستوں کے علاوہ ہر شخص پریشان حال ہے۔ لیکن اندھ بھکتوں ہوش میں آنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کچھ کر گزریے اس سے پہلے کہ احتجاج کے حق کو ختم کردیا جائے۔
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے….
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ویلما روڈولف: ایک معذور لڑکی جس نے تاریخ رقم کی!

2020: پوچھ اپنی تیغ ابرو سے ہماری سرگزشت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے