ملک کوبچاناہوگا،سب کوآگےآناہوگا

از: مفتی صدیق احمد جوگواڑ نوساری

ہمارا ملک تاریخ کے ایک سیاہ ترین دور سے گزر رہا ہے،آئے دن ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں،ملک تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے،معیشت تو بالکل تباہ ہوچکی ہے،موجودہ سرکار نے سیاسی مفاد کے خاطر رعایا کے ذہن ودماغ میں نفرت وعداوت کا ایسا زہر گھول دیا کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں، رعایا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے،کیونکہ ہجومی تشدد کا ایک لمبا سلسلہ چلا، سنگھی غنڈوں نے نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی،نہ جانے کتنے معصوم بچیوں کی عصمت دری کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کو "لوجھا"گائے"اور داعش کے نام پر ناجائز مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کیا گیا،کتنے ہی صحافی اور حق گو کو پابند سلاسل کردیا گیا،ایسی صورتحال میں بھلا رعایا اپنے آپ کو کیسے محفوظ سمجھ سکتی ہے؟

اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملک کی صرف معیشت ہی برباد نہیں کی گئ بلکہ اخوت ومحبت اور بھائ چارہ کے ساتھ رہنے والے لوگوں کو مذہب کے نام پر، پاکستان کے نام پر اس طرح لڑایا گیاگویاکہ وہ انکے دشمن ہوں،اور اسکے لیے میڈیا کا سہارا لیا گیا،جسمیں ہمیشہ ہندومسلم نفرت اور پاکستان کے مدعی کو اٹھا کر رات دن اسی پر مباحثہ ہونے لگا،جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ نفرت اور دشمنی کوٹ کوٹ کر بھر گئ،اور اصل مدعی ختم ہوگیا،اور بی جی پی کی سیاست پہلے سے ہی رہی ہے کہ اصل مدعی کو ہی ختم کردیا جائے، یا دوسرامدعی کھڑا کرکے رعایا کے دھیان کو اُدھر بھٹکا دیا جائے،جہاں کہیں رعایا یا سیاسی لیڈران بڑھتی مہنگائ،گرتی معیشت،عدم تحفظ،ہجومی تشدد،بڑھتی عصمت ریزی،مذہبی آزادی،اور آزادی اظہار رائے،ایجوکیشن، اسپتال،حکومتی کارندوں کی لاپرواہی، بی جی پی، آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں کی غنڈہ گردی،یا آئین کے خلاف بننے والے قانون کے خلاف آواز اٹھا تے تو فوراً انہیں کسی جرم میں پھنسا کر گرفتار کر لیاجاتا،یا دوسرے مدعی میں انھیں الجھا دیا جاتاہے،اور اصل مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے،ان پر کوئ کارروائ نہیں ہوتی،جبکہ دوسری طرف مذہبی تعصب کی بناپر بلاوجہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اقتدار کی طاقت کا غلط استعمال کیا جارہا ہے،اور جب کبھی موجودہ سرکار اپنی ناکامی کوچھپانے میں کامیاب نہیں ہوپاتی ہےکوئ جواب نہیں بن پاتا ہے توفورًا نیامدعی کھڑا کردیتی ہےاور لوگوں کے ذہن ودماغ کو اُدھر الجھا دیتی ہے،مندر اور مسجد کے نام پر ایک لمبے زمانے تک سیاست چلتی رہی،بالآخر جس بابری مسجد کو 6دسمبر 1992میں شر پسندوں نے شہید کردیا تھا اب تک اسکا کیس چلتا رہا،اور اب 9نومبر  2019 کو مسجد کی متنازعہ زمین بلاکسی حتمی ثبوت کے مندرکے لیے دینے کا فیصلہ کردیا گیا،جبکہ خود کورٹ کامانناہے کہ پہلے یہاں مسجد تھی،اور تمام دستاویز بھی مسجد کے حق میں موجود ہیں،اور ابھی کچھ ہی مہینے قبل 5 اگست 2019 کو کشمیر سے دفعہ 370 کو غیر قانونی طور پر ہٹادیا گیا،اہم لیڈروں میں سے بعض کو قید کردیا گیا،بعض کو نظر بند کردیا گیا،اور معصوم رعایاپربےپناہ مظالم ڈھائے گئے،جوکہ اپنے حقوق کی وصولیابی اورقانونی طریقے سے کارروائ کی مانگ کر رہی تھی، ان نہتوں کو شدید اذیتیں دی گئ،انکے مال ودولت کو برباد کردیا گیا،نہ جانے کتنے لوگوں کوجان سے ماردیا گیا،اور کتنی عورتوں کی عصمت دری کی گئ، موبائل اور انٹرنیٹ بند کردیا گیا،کتنے لوگوں کو قید وبند کی صعوبتیں دی گئ، اور یہ سلسلہ تقریبا چھ مہینے سے چل رہا ہے،جنت نماکشمیر کوجلا کر راکھ کردیا،اورحکومت اسی مدعی کو لیکر ہندومسلم کرکے سیاست کرنے لگی،مذہبی آزادی پر حملہ کرتے ہوئے تین طلاق پر پابندی لگادی اور اسے جرم قراردیا گیا،اب جبکہ سارے مدعی ختم ہوچکے ہیں ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ہر ایک کو غربت کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے،بے روزگاری کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگوں نےموت کو گلے لگالیا،جی ڈی پی کی شرح 8.5سے گھٹ کر 4.5 تک پہنچ گئ،بے روزگاری کی وجہ سے ہر دوگھنٹے میں تین شخص کی موت ہورہی ہے،عصمت دری کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، ہجومی تشدد میں کوئ کمی نہیں آرہی ہے،غنڈوں کے خلاف نہ کوئ کارروائ ہورہی اور نہ ہی سنوائ،ایسے حالات میں صرف ہندو مسلم کی سیاست چل رہی ہے،اور اقتدار پر قابض حکومت اپنے تمام غیر آئینی منصوبوں کو یکے بعد دیگرے پورا کرنے کے درپے ہے،جسکی تیاریاں مکمل ہوچکی،سپریم کورٹ سے لیکر پولیس آفسر تک، حتی کہ تمام سرکاری دفاتر میں کارندے حکومت کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں،حکومت کی ماننااور  سکے مطابق چلنا اب گویا انکی مجبوری سی بن گئ ہے، اور بعض لوگ وردی میں چھپائے دشمنی کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایسے موقعے کا غلط استعمال کرکے،بے چاری معصوم رعایاپر مظالم ڈھاتے ہیں،اب ظاہر سی بات ہےجب سرکار نے دشمنی کابیج بو  دیا،اور میڈیا رات دن انکے لیے نفرت کو بڑھاوا دینے کا کام کر ہی رہا ہے،آرایس ایس اور بی جی پی اور انکی تمام ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے طور پر محنت میں لگی ہوئ ہیں،تو ایسے حالات میں ملک کی ہلاکت و بربادی کے لیےپاکستان،افغانسان،امریکا،چائنہ سے غنڈے لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے،کیونکہ یہ لوگ ملک کی رعایا پر مظالم ڈھانے اورہندو مسلم کا بیج بو کر انکے درمیان نفرت کی دیوارکھڑے کرنے کے لیے کافی ہیں.

لیکن تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا،اور تاریخ نے شاید ایسا دور کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک ہی ملک میں ہزاروں رنگ کے سانپ پلتے ہوں اور قریب سے قریب ترین شخص بھی بھروسہ کے لائق نہ ہو،کسی کے متعلق حتمی طور پر یہ کہنا درست نہ ہو کہ فلاں جماعت یا فلاں تنظیم حق پر ہے.

اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ انسانی زندگی کےاکثر حصے کو ملک کا سست رو چلنے والاسسٹم برباد کر رہاہے،ٹرینیں ہوں یاگاڑیاں،بینک کی لائن ہو یا ووٹنگ کی لائن ہر طرف ضرورت سے زیادہ وقت ہورہا ہے،اور سرکاری کاموں میں ضرورت سے زائد رقم صرف ہورہی ہے،چونکہ رشوت اتناعام ہوگیا ہے بغیر رشوت کے کسی کام کاہونا اب مشکل ہوچکا ہے.

دوسری طرف جب بھی الیکشن کا موقع آتا ہےڈھیر سارے وعدے کیے جاتے ہیں،اور عوام کے غصب کیے ہوئے واجبی حقوق کو واپس لوٹانے کا عہد لیا جاتا ہے،لیکن کامیابی کے بعد آئین کا حلف لے کر نہ آئین کیبپاسداری کی جاتی ہے اور نہ ہی وعدے پورے کیے جاتے ہیں، بلکہ اقتدار پر قابض ہوتے ہی غنڈا گردی شروع ہوجاتی ہے،رعایا سے کھلواڑ شروع ہوجاتا ہے،ملک کے ایسے سنگین حالات نے رعایا کی نفسیاتی بیماریوں میں کئ گنااضافہ کردیا ہے،تعلیمی صلاحیتوں کو کمزور کردیا ہے،اور ایسی نفسیاتی کیفیات ہوچکی ہے کہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے،اور اس کوبڑھاوادینی والامیڈیا اور سرکار گندی سیاسی پالیسی ہے،ان دنوں تو معاملہ اور بھی آگے بڑھ چکا ہے،ڈکٹیٹر شپ شروع ہوگئ.

موجودہ حکومت چاہتی ہے ملک کے اندر ہندوتوا کا راج ہو،اور برہمن اقتدار پر قابض ہوجائیں،باقی لوگ دونمبر کے شہری ہوں اور انکے احسان تلے دب جائیں،وہ جسیے چاہیں انکا استعمال کریں،اور ہندوستان جیسے تاریخی جمھوری ملک کو ہندوراشٹ بنا دیا جائے،اور اسی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جسکے لیے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے CAA سیٹیزن شپ ایکٹ 11دسمبر 2019 کو راجیہ سبھاسے پاس کر لیا گیا،جسکے رو سے پاکستان،افغانستان،اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ہندو،سکھ،جین مت،بدھ مت،مسیحی اور پارسی غیر قانونی مہاجرین کو شہریت دے دی جائے گی،  اس میں مسلمانون کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، جسکے ہیچھے یکساں سول کوڈ،اور اس جیسے آر ایس ایس کے کئ محرکات ہیں،حالانہ یہ قانون آئین کے خلاف بھی ہے، اور مذہبی آزادی کے بھی خلاف ہے.

آئین کی دفعہ 13 میں لکھا ہے کہ:  ریاست کوئ ایسا قانون نہں بنا سکتی جو کسی شہری کو اسکے بنیادی حق سے محروم کردے.

آئین کی دفعہ 14 میں یہ کہا گیا ہے کہ: ریاست ہر شخص سے برابری کی بنیاد پر سلوک کرے گی.

آئین کی دفعہ15 میں ہے کہ: مذہب،رنگ،نسل،ذات،جنس،کی بنیاد پر کسی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گی،کیونکہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے.حکومت نے ان تینوں قانون کی خلاف ورزی کر کے CAA قانون لایا ہے،جسکا مقصد ملک کو ہندو راشٹ بنا ناہے.

حالانہ 1857 کی جنگ آزادی میں ملک کےخاطر سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانون نے دی ہے،اور اقتدار پر قابض حکومت نےآزادی کی لڑائ میں حصہ لینا تو درکنار ،وہ تو انگریزوں کے ہم خیال تھے، تعجب ہے کہ جس ملک کو ہم نے اپنے خون سے سینچا اور مختلف مذاہب کے ماننے والے بھائیوں نے ہمارا ساتھ دے کر انگریزوں کے چنگل سے ملک کو آزاد کرایا،اس کو حکومت ہم سے ہی چھین کر ہمیں ہی یہاں سے بھگاکر یادونمبر کا شہری بنا کر خود راج کرنا چاہتی ہے،نہیں ایساہر گز نہیں ہوسکتا،کیونکہ ہمارا ملک گنگاجمنی تہذیب والا ملک ہے، جہاں ہر مذہب کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں،یہ ملک جمہوری ملک ہے جوکہ آئین سے چلتا ہے،ایسے قانون کی نہ ہی آئین اجازت دیتا ہےاور نہ ہے انصاف پسند سیکولر لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں،نیز یہ انسانیت کے بھی خلاف ہے.

1906 میں ایک مرتبہ بریٹش حکومت نے سیٹیزن شپ کے قانون کا اعلان کیا تھا،چنانچہ گاندہی جی نے کہاکہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے،اور اپنے کاغذات جلادیے،مجبورا حکومت کو قانون واپس لینا پڑا.

اوراب دوبارہ 11 دسمبر  2019کو CAA راجیہ سبھا سے منظور ہونے کے بعد قانون بن گیا،جسکے بعد 15 دسمبر سے مسلسل جامعہ ملیہ کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ شروع کیا، اوراس کے خلاف آواز اٹھائ،ابھی مظاہرہ چل ہی رہا تھا کہ دہلی پولیس طلبہ کے کیمپس میں گھنس گئ اور خواتین کے کیمپس میں بھی گھنس آئ حالانکہ وہاں ہر کسی کو جانامنع ہے،اور جاکر ان نہتے طلبہ کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا،ان پر مظالم ڈھائے،توڑ پھوڑ کیا، آنسو گیس چھوڑا،اورمسجد میں گھنس کرامام صاحب کو بری طرح مارا،گارڈ کو بھی نہیں چھوڑا،حتی کی باتھ روم میں گھنس کر طلبہ کو مارا،جسکی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوگئ،ابھی یہاں دہلی پولیس کی غنڈا گردی چل ہی رہی تھی کہ کچھ ہی دیر میں خبر آئ کہ علی گڑھ میں بھی پولیس گھنس آئ اور طلبہ پر تشدد کر رہی ہے،وہاں بھی بہت سے طلبہ زخمی ہوئے،رات بھر علی گڑھ میں پولیس کی بے رحمانہ پٹائ سے ایک دہشت کا ماحول قائم ہوگیا،صبح ہوتے ہی بہت سے طلبہ اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے.

طلبہ پر پولیس کی بربریت کو لیکر ملک کی بہت سی یونیور سیٹیوں میں احتجاجی مظاہرہ شروع ہوگیا،اور ادھر مسلسل شاہین باغ میں ہونے لگا،سی اےاے کے خلاف اور طلبہ پر ہوئے تشدد کے خلاف،اس کو دیکھ کر ملک کی بہت سی تنظیموں نے شریک ہوکر اپنے اپنے طور پر مظاہرے کا سلسلہ شروع کیا، اور اب یہاں شاہین باغ میں سیاسی لیڈران بھی شرکت کرنے لگے،بڑے بڑے پروفیسر،وکلاء بھی شریک ہوئے،اور حضرت مولناسجادصاحب نعمانی بھی شریک ہوئے،طلبہ کوحوصلہ دیا،اس درمیان یوپی کے متعدد علاقوں میں بھی مظاہرہ ہوا،لیکن مظاہرے کے دوران پولیس کا رویّہ نہایت ظالمانہ رہا،اس دوران اتنا تشدد ہوااور پولیس نے اتنی غنڈا گردی کی کہ وہاں کے لوگوں کے مکان ودکان اورگاڑیوں کو نقصان پہنچایا،حتی کہ گولیاں بھی چلائیں،جسکے نتیجے میں تقریبا23 لوگ شہید ہوئے،اورپولیس غنڈا گردی کرتی رہی،مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ اور وحشیانہ سلوک کرتی رہی، اوریوگی حکومت بھی انہیں حوصلہ دیتی رہی ،یہاں تک کہ انھیں کھلی چھوٹ دے دی،جسکا وردی میں چھپے غنڈوں نے غلط استعمال کر کے معصوم نہتے لوگوں کوگرفتار کرلیا،اور بہت سوں کے خلاف ایف آئ آر درج کردی،کتنوں کی دکانیں سیل کردی،اور بہت سے لوگوں پر بھاری جرمانہ عائدکیا،اوراتنااندھا دھندھانوٹس جاری کیا کہ تین سال قبل وفات پاچکے شخص کے خلاف بھی نوٹس جاری کردیا،ادھر بعض پولیس آفسرز مسلمانوں سے کہنے لگے کہ پاکستان چلے جاؤ،حالانکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ:اگر ہم پاکستانی مسلمانوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم دہشت گرد مانے جاتے ہیں، لیکن اگر حکومت پاکستانی ہندوؤں کے بارے میں بات کرتی ہے تو ہمیں ان کو کیا کہنا چاہئے؟ اوراگرحکومت پاکستانی ہندوؤں کو شہریت دیدے توحکومت کس کا ساتھ دینے والی ہوگی؟

غرض ان ہی تمام صورتحال کو سامنے رکھ کر رعایا نے احتجاج شروع کیا،اوراحتجاج کا شعلہ بھڑکتا گیا،اور گاؤں گاؤں شہر شہر یہ مظاہرہ چلتا رہا،اب حکومت نے مسائل کا حل تلاش کرنے اور مظاہرین کی بات سننے کے بجائے اس آواز کو دبانے کی ناکام کوششیں کی، جہاں کہیں مظاہرہ ہوتا فورًا دفعہ 144 نافذ کردیاجاتا،اور ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا جاتا،بعض لوگوں پر لاٹھی چارج کیا جاتا، تاکہ انکی آواز دب جائے،اب بھی حکومت مظاہرہ کوروکنےمیں ناکام رہی تو اب اس نے اپوزیشن پارٹی پر نشانہ سادھا اور کہا کہ کانگریس پارٹی لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے،CAA شہریت دینے کا قانون ہے، شہریت لینے کا قانون نہیں ہے،جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے،در حقیقت مسلمانوں اور دلتوں اور نچلی ذات کے لوگوں سے شہریت چھیننے کا قانون ہے،اسکو NRC  کی لسٹ سے نکلنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کے لیے لایا گیا ہے،اورجب حکومت اس میں بھی کامیاب نہیں ہوئ تو اس معاملے کو ہندو مسلم کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ ریلی میں بیان بھی دیا کہ "ہنسا کرنے والے کپڑے سے پہچانے جاتے ہیں"مسلمانوں کی طرف اشارہ تھا، لیکن یہ دائیلاگ بھی انکو بچا نہ سکا لہٰذا اب لوگوں کوCAA سمجھانے کا فیصلہ کیا،پریس کانفرنس کرکے لوگوں کو سمجھایا،اس میں بھی انہیں ناکامی کاسامنا کرنا پڑا،پھر NRC  کے سپورٹ میں ریلی نکلوائ، حالانکہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہواکہ ملک میں کسی قانون کے سپورٹ میں ریلی نکالی گئ ہو،احتجاجی مظاہرے بڑے زوروشور سے چل رہے ہیں، ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے،عورتیں بچے اور جوانوں سے لیکر بوڑھے بوڑھیاں سخت سردی میں سڑک پر اترے ہوئے ہیں، اس کالے قانون کو واپس لینے اور آئین کے ساتھ کھلواڑ نہ کرنے کا.مطالبہ کر رہے ہیں، پولیس مظالم ڈھانےمیں لگی ہے،اور اس احتجاج کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کبھی اپیل کرکے تو کبھی کریک ڈاؤن کر کے اور کبھی غنڈا گردی کر نے پر اتر آتی ہے اب سارے حربے اپنانے کے باوجود جب معاملہ قابو سےباہر ہے تو کبھی پر امن جاری احتجاج کو ہنسا کر کےان پر الزام دھر کر مظالم کاسلسلہ جاری ہوجاتا ہے،اب یکے بعد دیگرے یونیورسیٹیوں کوتشدد کانشانہ بنایاگیا،چنانچہ 6 جنوری 2020 کو ABVP کے بہت سے غنڈے ہاتھ میں ڈنڈا اور راڈ لیے JNUکے کیمپس میں گھنس آتے ہیں،طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں،اور انکا پورا پلان واٹساپ گروپ پر بنتا ہے،باہر دہلی پولیس کھڑی تماشا دیکھتی ہے،اور دو گھنٹے تک وہ طلبہ کے ساتھ تشدد کرتے رہتے ہیں،لیکن پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی انکی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ انھیں روکے،اور وہ غنڈے بڑے شان سے ہنگامہ کرکے پولیس کے سامنے سے چلے جاتے ہیں ،لیکن پولیس تماشائ بن کر کھڑے دیکھتی رہتی ہے،بہت سے طلبہ زخمی ہوجاتے ہیں، ایمبولینس کو پنچر کردیا جاتا ہے،سب معلوم ہونے کے باوجود نہ انکے خلاف کارروائ کی جاتی ہے اور نہ ہی ان غنڈوں کوگرفتار کیاجاتا ہے،بلکہ طلبہ کے خلاف ایف آئ آر درج کردی جاتی ہے، اسکے بعد کلکتہ یونیورسیٹی، گجرات کے ایک اسکول میں، اور بہت سی جگہ اس طرح کے غنڈے طلبہ پر حملہ کرتے ہیں ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں، لیکن حکومت کوئ ایکشن نہیں لیتی، ادھر بی جی پی کے نیتا بھڑکاؤ بیانات دیتے ہیں، اور یونیورسیٹیوں کو دہشت گردی کا اڈہ کہتےہیں، لیکن نہ کارروائ ہوتی ہے نہ ہی سنوائ،اب مودی جی ہنسا کرنے والوں کو کپڑے سے پہچان کر بتائیں؟اصل ہنسا کرنے والے دہشت پھیلانے والے کون ہیں؟

ایسے حالات میں جبکہ ملک سراپا احتجاج بناہواہے،امت شاہ یہ بیان دیتے ہیں کہ "ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے"

اور اس سے پہلے امیت شاہ کئ بار یہ کہ چکے ہیں کہ NRC ہوگی اور مودی جی بھی کہ چکے ہیں،لیکن اب مودی جی یہ بیان دیتے ہیں کہNRC کی تو کبھی بات بھی نہیں ہوئ ہے،اور کہتے ہیں کہ NPR ہر ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے،اور" NPR یہ پہلاقدم ہے NRCکا "جیساکہ خود امیت شاہ نے 2018/19 کی رپورٹ میں صفحہ نمبر 262 پر یہ بات درج ہے.

نیشنل پاپولیشن رجسٹر NPR اسکے تحت بھارت کے ہر شہری کو اپنانام اس رجسٹر میں درج کرانالازم ہوگا،اور یہ عمل1اپریل 2020 لیکر 30دسمبر تک ہوگا،جسمیں شہریوں کا ڈاٹا بیس تیار کرنے کے لیے ملک بھر میں گھر گھر جاکر مردم شماری کی جائے گی،نام، پتہ، تعلیم،پیشہ جیسی معلومات درج ہوں گی،اور یہ لوگوں کی فراہم کردہ معلومات ہوگی،اسے شہریت کا ثبوت نہیں مانا جائے گا،اوراسکے لیے کسی بھی دستاویز کی ضرورت نہیں ہوگی.

اور NRC کامطلب ہے:بھارت میں رہنے والے تمام شہریوں کا ایک رجسٹر ہوگا،جسمیں شہریوں کو کاغذات کی مددسے اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی،اس عمل میں تاریخی اور وراثتی دستاویز بطور ثبوت دینے ہوں گے.جسکی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

 جولوگ 30 جون 1987سے پہلے بھارت میں پیدا ہوئے وہ بھارتی شہری ہیں،انھیں اپنی پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا.

جولوگ 1جولائ 1987 سے 3دسمبر 2004 کے درمیان بھارت آئے ہیں، انکے ماں باپ میں سے کسی ایک کابھارتی ہوناضروری ہے.

4دسمبر 2004 کے بعد سے آج تک جو لوگ پیدا ہوئے انکے ماں باپ دونوں کابھارتی ہونا ضروری ہے.

اب CAA-NRC-NPR ان تینوں کو ایک ساتھ ملاکر دیکھیں گےبتو پتہ چلے گاکہ: NPR  کے ذریعے ساری معلومات اکٹھا کر لی جائے گی، اسکے بعد NRC کی لسٹ نکال دی جائے گی،اور اگر کوئ غیر مسلم اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے توانھیں CAAقانون کے تحت شہریت دے دی جائے گی،اور مسلمان اگر اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے تو اسے ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا جائے گا،اسکے جائدادضبط کرلیے جائیں گے،لیکن جن غیر مسلموں کو CAA کے تحت شہریت دی جائے گی وہ دونمبر کے شہرے ہوں گے،انھیں ووٹ کاحق حاصل نہیں ہوگا،اور بھی بہت سارے حقوق ان سے سلب کر لیے جائیں گے.

اب ان تفصیلات کو سامنے رکھ ملک کی عوام کا جائزہ لیں گے تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ:اس قانون سے ملک کے 70 فیصد لوگ غیر ملکی شمار ہوں گے.

1وہ لوگ جو جاہل ہیں، جنھیں نام کے الفاظ اور صحیح تلفظ کا پتہ نہیں، اب وہ جاتے ہیں سرکاری دفاتر میں وہاں کے کارندے جس طرح سنتے ہیں نام لکھ دیتے ہیں،خواہ غلط ہو یا صحیح.

2 وہ ناخواندہ غریب لوگ جو بالکل کچھ بھی نہیں جانتے کہ کاغذ کیا ہوتا ہے، نہ ہی انکے پاس جائداد ہوتی ہے،صرف دو وقت کاکھانا کھاتےہیں، کام کرتےہیں.

3جن کے پاس تمام کاغذات تھے لیکن کسی حادثے میں جل گئے یا گم ہوگئے.

4 وہ لوگ جن کے پاس سارے کاغذات ہیں لیکن آپ ان کے کاغذات کو نہیں مانتے، کیونکہ انکے کاغذات آپکے اصول وضوابط کے مطابق نہیں ہے.

موجودہ حکومت نے اعلان کیا کہ کوئ کاغذ نہیں چلے گا،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارےکاغذات نہیں چلیں گے تو جو حکومت ان کاغذات کی وجہ سے اقتدار پر قابض ہے وہ بھی ہٹے وہ حکومت بھی نہیں چلے گی.

اب ان تمام لوگوں کا کیا ہوگا؟ 70لوگ تو اسی میں نکل جائیں گے،پھر ہوگا یہ کہ ہندوتوانظریہ کونافذ کرنا جوکہ برہمن کا مقصد ہے، اور پورے ملک پرقبضہ کرنا،پورے ملک کوغلام بنا کر رکھنا،انکے لیےآسان ہوجائے گا،جوکہ سراسر آئین کےاور انسانیت کے خلاف ہے.

اسی وجہ سے ملک بھر میں اس قانون کو لیکر احتجاج کا سلسلہ روز اول سے شروع ہوا جو تاہنوز جاری ہےاور ان شاء اللہ اس قانون کو واپس لینے تک جاری رہے گا.

سلام ہے جامعہ، علی گڑھ،جے این یو  کے طلبہ پر اور دیگر یونیورسیٹیوں کے طلبہ پر جنھوں نے ہمت وجرأت دکھا کر اس کالے قانون کے خلاف احتاجی مظاہرہ کیا،اور اب تک مسلسل لگے ہوئے ہیں، آج 40 دن گزر چکے ہیں لیکن شاہین باغ کی شاہینیں اب بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ ہر طرح کے مظالم کامقابلہ کر کے مظاہرے میں ڈٹی ہوئ ہے،سلام ہے شاہین باغ کی خواتین پر انھوں نے تحریک کا آغاز کیا جس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ پورا ملک شاہین باغ بن چکا ہے،پورے ملک کو ہندوتوا طاقتوں سے بچانے کے لیے طلبہ اورتنظیمیں اور سیاسی لیڈران سے لیکر ہر طرح کے اورہر مذہب کے لوگ متحد ہوگئے ہیں، اسی لیےاقتدارپر قابض حکومت مظاہرے سے پریشان ہے،کبھی قانون کا استعمال کر کے اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے،کبھی غنڈہ گردی کا ننگا ناچ کرکے، اور کبھی ان نہتوں پر ظلم کر کے، اور کبھی ان پر پیسہ لے کر مظاہرہ کرنے کاالزام لگا کر،غرض ہر طرح سے ان کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے،لیکن بی جی ان کو سمجھانے اور انکی آواز کو دبانے میں ناکام ہے،سنگھیوں نے منظم طریقے پر سماج میں نفرت پھیلایاتھا،اور لوگوں کےذہن ودماغ میں زہر گھولا تھا،لیکن اب اس کا تریاق ملنے لگا،اتحاد کی طاقت اسےکمزور کر رہی ہے،سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر ملک گیر مظاہرے کے باوجود امیت شاہ اور مودی اسے واپس لینے کے لیے کیوں تیار نہیں ہے؟پہلی بات تو یہ ہے "انا کے لیے" تیار نہیں ہے،اور دوسری بات یہ ہے کہ"موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ قانون کو واپس لینے کا کوئ سوال ہی نہیں"اور حکومت ابھی آر ایس ایس ہی چلا رہی ہے،وہ نہیں چاہتی کہنیہ قانون واپس ہو،کیونکہ انکے اگلے منصوبے اسی پر مبنی ہے،انکےایجنڈے میں جو کام ہیں وہ دھیرے دھیرے پورے ہورہے ہیں،اب دو بچے کا قانون بھی لانے والے ہیں.

ابھی احتجاج کو بند کرنے کےلیے 18 جنوری کو دہلی پولس کویہ اختیار دیدیا گیا کہ کسی بھی شخص کو کہیں سے تشدد بھڑکانے کے جرم میں اٹھاکر جیل میں ڈال دیا جائے گا،3  سے6ماہ تک انھیں بلاوجہ  جیل میں رکھ سکتی ہے،نہ ہی سنوائ ہوگی اور نہ ہی کارروائ، جسے  NSA کہا جاتا ہے،حالانکہ اس قانون کا استعمال ملک میں ایمر جنسی لگی ہو تب کیاجاتا ہے،جبکہ ابھی صورتحال پر امن ہے، لوگ اپنے غصب کیے ہوئے واجبی حقوق کے  خلاف آوازاٹھا رہے ہیں،جسکا آئین نے انھیں حق دیا ہے. کیونکہ آئین کی دفعہ 19 کے تحت ہر شہری کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے،اور پرامن طریقے سے احتجاج کا بھی حق آئین نے دیا ہے،ابھی یہ کالے قانون کےخلاف احتجاج کا سلسہ جاری ہے اور ہندوستان کا 128 شہر اور قصبہ بن چکا ہے شاہین باغ، شہریت قانون ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دن رات لگاتار خواتین کا احتجاج جاری ہے، اس درمیان اچانک 21جنوری کو یہ خبر سامنے آئ کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں " سناتن ویدک دھرم " کے لوگوں کے ذریعے ایک پیٹیشن دائر کی گئی، جس میں اقلیتوں کے لیے جاری سرکاری اسکیموں کو غلط قرار دیا گیاہے، اقلیتی حقوق کے قومی کمیشن کو بھی غیر آئینی ٹہرایا جارہاہے،یعنی ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے. سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ کہاگیا کہ: اقلیتوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مخصوص اسکیمیں آئین کے خلاف ورزی ہے.

اورحکومت مسلمانوں کو قانون سے پرے مان رہی ہے اور آئین ہند کی دفعہ، 14

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے