ملک کی دو آنکھیں ہیں بنکر اور کسان

 

تحریر:جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
 

  اترپردیش حکومت کے ذریعے بنکروں کے بجلی بل پاس بک رد کئے جانے کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے  ٹانڈہ، بنارس، بجنور، سنت کبیرنگر  امروہہ،مئو ،گورکھپور وغیرہ اضلاع و علاقوں میں آج بھی میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے

ملک کی دو صنعتیں ہندوستان کی پہچان ہیں اور ان دونوں صنعتوں سے  وابستہ لوگ کسان اور بنکر کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ملک کی خوشحالی کیلئے دونوں صنعتوں کا زندہ رہنا ضروری ہے لیکن اتر پردیش کی حکومت نے بنکروں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا ہے جبکہ پہلے ہی لاک ڈاؤن کی مار سب سے زیادہ بنکروں پر پڑی ہے بنکر طبقہ بھکمری کا سامنا کررہا ہے علاوہ ازیں اس کا بجلی بل پاس بک رد کردیا گیا اور نئے اصول ضابطہ کے تحت ماہانہ بجلی کا بل جمع کرنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے جبکہ نئے اصول ضابطے کے مطابق بنکر طبقہ بجلی بل جمع ہی نہیں کر پائے گا کیونکہ غریب مزدور بنکروں کی اتنی آمدنی ہی نہیں ہے  حکومت وقت کے فیصلے کو شرمناک کہا جائے یا افسوسناک کہ بنکروں کو جہاں سہولت فراہم کرنے کی بات آتی ہے تو زبانی فرمان جاری کیا جاتا ہے اور جب سہولت سے محروم کرنا ہوتا ہے تو تحریری فرمان جاری کیا جاتا ہے اب بتائیے عملدرآمد کس پر ہوگا  ریاستی حکومت بنکروں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی نہیں دی اور پاس بک سہولت کو بحال نہیں کیا تو سوشل ڈسٹنسنگ کا لحاظ رکھتے ہوئے پھر تحریک چلائی جائے گی اس لیے حکومت ظالمانہ رویہ ترک کرے اور بنکروں کے فلاح و بہبود کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے 2006 سے ملنے والی پاس بک سہولت اور فلیٹ ریٹ پر بجلی بل کی ادائیگی کے نظام کو بحال کرے ورنہ غریب بنکر سڑک پر آکر احتجاج اور مظاہرہ کرے گا غریب مزدور بنکر گھروں میں مرنے کے بجائے سڑکوں پر مرے گا  اترپردیش کی یوگی حکومت بنکروں کا استحصال کرنے سے باز آئے ورنہ موجودہ حالات میں بنکروں سے بقایا وصولی و بجلی چیکنگ کے نام پر کوئی مہم چلائی گئی اور بنکروں کو پریشان کیا گیا تو بجلی محکمہ کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے بنکروں کا کہنا ہے کہ بقائے کی وصولی سے قبل بنکروں کے لئے پہلے کی طرح پاس بک سہولت بحال کیا جائے اور بنکر سماج کے لیے بھی ضروری ہے کہ
بنکر تحریک کے قائدین جو بھی فیصلہ لیں اور جو بھی اعلان کریں اس پر سارے بنکر لبیک کہیں یہی وقت کے ضرورت ہے پاس بک بحال کرانے کی تحریک میں چھوٹے بڑے سبھی بنکروں کو ساتھ اناہو گا  لیکن یہ بھی بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ کچھ خوشحال اور بڑے بنکر اپنے آپ کو بہت برتر سمجھتے ہیں اور بنکروں کے مفاد کی تحریک سے دور رہتے ہیں انکی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی تحریک کے دوران شانہ بشانہ کھڑے ہوں کیونکہ
اتحاد اور تحریک یہ دونوں بہت بڑی چیز ہے ہمیں جو پاس بک کی سہولت ملی تھی وہ بنکروں کے اتحاد اور تحریک کی ہی وجہ سے ملی تھی،، کل پاس بک بنانے کے لیے تحریک چلی تھی اور آج پاس بک بچانے کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت ہے اور اس تحریک کی کامیابی کے لیے چھوٹے بڑے سبھی بنکروں کے تعاون اور ان کی شمولیت  ضروری ہے تاکہ پہلے کی طرح فلیٹ ریٹ پر بجلی دینے کے لیے اترپردیش حکومت کو مجبور کیا جاسکے –

لاک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی زد میں جہاں پورا ملک ہے وہیں بنکر طبقہ پر زبردست مار پڑی ہے حکومت کو چاہیے تھا کہ بنکروں کو خصوصی مراعات دیتی تاکہ بنکر طبقے کا مستقبل روشن ہوتا لیکن افسوس کہ بنکروں کو فلیٹ ریٹ کی شکل میں بجلی ملتی تھی یعنی یہ ایک خصوصی مراعات تھی موجودہ اترپردیش کی یوگی حکومت نے اسے بھی ختم کردیا بالکل اسی طرح جیسے کسی بھوکے پیاسے شخص کو دو نوالہ زیادہ دینے کے بجائے جو اسے مل رہا تھا وہ لقمہ بھی اترپردیش حکومت نے چھین لیا اور اب تو پوری طرح بنکروں کا مستقبل اندھیرے میں ڈوبتا نظر ارہا ہے بنکروں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی اور پاس بک سہولت بحال کرنے کرانے کی غرض سے 26 اگست 2020 کو بنارس میں بنکر نمائندوں کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں اترپردیش کے مختلف اضلاع و علاقوں سے بنکر نمائندوں نے شرکت کی تھی اس میٹنگ میں یہ فیصلہ لیاگیا تھا کہ یکم ستمبر 2020 سے پاورلوم بند ہوگا، مری بند ہوگی، پاورلوم کا ہڑتال ہوگا اور بنکروں کی فلاح و بہبود کیلئے بالخصوص فلیٹ ریٹ پر بجلی اور پاس بک کی بحالی کیلئے آواز بلند کی جائے گی اور وہاں سے واپسی پر اترپردیش کے بہت سے علاقوں میں پاور لوم بندی کا اعلان کردیا گیا تھا اور یکم ستمبر سے بند ہوبھی گیا تھا لیکن کچھ ایسے بنکر نمائندے ہیں جو بنارس کی میٹنگ میں لئے گئے فیصلوں کی حمایت کی اور جب مقررہ تاریخ آگئی تو اب دوبارہ میٹنگ کر نے لگے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ واپسی پر اپنے اپنے ضلع و تحصیل ہیڈ کوارٹر پر نوٹس دیتے اور یکم ستمبر سے اپنے یہاں بھی مکمل بندی رکھتے  آج جو صورتحال ہے اس میں سبھی بنکر نمائندوں کو متحد ہونا چاہیے اور تحریک کا ٹھوس لائحۂ عمل تیار کرنا چاہیے اور اسی پر عملدرآمد ہونا چاہئے اب تک بہت الگ الگ دفلی بج چکی اور سیاست کی روٹی سینکی جاچکی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دسمبر 2020 سے اب تک بنکر تحریک کھڑی نہیں ہوسکی بہت سے بنکر نمائندے ایسے ہیں جو سماجی رنگ سے زیادہ سیاسی اور پارٹی کے رنگ میں رنگے رہتے ہیں یعنی سماج کی بولی بولنے کے بجائے سیاسی اور بالخصوص پارٹی کی بولی بولتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں جگہ ناکام ہیں اور کامیابی تب حاصل ہوگی جب پارٹی میں بھی سماج کی بولی بولی جائے گی جیسے دیگر سماج کے لوگ بولتے ہیں تاکہ حکومت دیگر سماج کی طرح بنکر سماج کی خوشحالی کیلئے قدم اٹھانے پر مجبور ہو  کسان اور بنکر یہی دوطبقہ ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور یہ دونوں طبقہ بلا تفریق مذہب و ملت سب کا پیٹ بھرتا ہے اور سب کا تن ڈھکتا ہے اور اس دونوں طبقے کا خوشحال ہونا بیحد ضروری ہے اس لئے حکومت بنکروں کی آواز کو سنے اور 5 کلو واٹ تک کے کنکشن پر بنکروں کے بجلی کا ماہانہ ریٹ فکس کرکے پاس بک سہولت بحال کرے –

واضح رہے کہ اترپردیش حکومت نے بنکروں کے پاس بک کو ردکردیا جس کے نتیجے میں اترپردیش کا بنکر تحریک کے میدان میں اتر گیا تھا اور صاف طور پر کہہ رہا تھا کہ گھروں میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے بجائے ہم تحریک چلاتے ہوئے مریں گے بنکر سبھا کی آواز پر ریاست بھر کے بنکروں نے لبیک کہتے ہوئے اپنے کاروبار کو بند کردیا تھا یعنی پاورلوم کا چکہ جام ہوگیا تھا پورے اترپردیش کے بنکر اکثریتی علاقوں میں سناٹا چھایا ہوا تھا پاور لوم کی آواز خاموش ہوگئی تھی اور سبھی بنکروں نے بنکر سبھا کے ذریعے چلائی گئی بنکر تحریک کی حمایت کرتے ہوئے اور حاجی افتخار احمد انصاری کی قیادت پر مکمل اعتماد کیا تھا اور صاف طور پر یہ اعلان کردیا تھا کہ یہ لڑائی اس وقت تک لڑی جائے گی جب تک اترپردیش حکومت بنکروں کے مطالبے کو تسلیم نہیں کرلیتی اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بنکروں کے مسائل تو بہت سے ہیں لیکن موجودہ وقت میں سب سے بڑا مسئلہ بجلی بل کا ہے حکومت نے جو نیا نظام نافذ کیا ہے اس کے تحت غریب بٌنکر کبھی بھی بجلی بلونکی ادائیگی نہیں کرپائےگا کیونکہ غریب بنکروں کی ماہانہ اتنی آمدنی ہی نہیں ہے کہ وہ موجودہ نظام کے تحت بجلی بل ادا کرسکے اس لئے حکومت سے بنکروں کا مطالبہ ہے کہ پہلے کی طرح بجلی پاس بک سہولت بحال کیا جائے ہاں جو ماہانہ شرح مقرر تھی اس میں پہلے کی بنسبت بھلے ہی کچھ اضافہ کرلیا جائے  اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت جو نعرہ لگاتی ہے کہ سب کاساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس تو اس نعرے میں کتنی سچائی ہے اور غریبوں سے یوگی حکومت کو کتنی ہمدردی ہے فی الحال پورے اترپردیش کے بنکروں کا یہی مطالبہ ہے کہ بجلی بل کی ادائیگی پہلے کی طرح فلیٹ ریٹ والی سہولت بحال کیا جائے تاکہ بنکروں کو فوری طور پر راحت مل سکے

3 ستمبر 2020 کو بنکر تحریک ملتوی تو کردی گئی کیونکہ اتر پردیش حکومت نے جولائی 2020 تک پرانے اصولوں اور حکمنامہ کے مطابق بجلی بل کی ادائیگی کا جہاں یقین دلایا وہیں پندرہ دنوں میں بنکر نمائندوں سے رائے مشورہ کرنے کے بعد رعائتی در کا نفاذ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ابھی تک بجلی کا بل پرانے اعتبار سے جمع نہیں کیا جارہا ہے بجلی محکمہ کے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی اس طرح کا ہدایت نامہ نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے بنکروں کے اندر ایک بار پھر تشویش دیکھنے کو مل رہی ہے  حکومت بنکروں سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرے گی تو بنکر پھر تحریک چلانے کے لیے مجبور ہوگا اگر اترپردیش کی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ دسمبر 2019 میں 2006 کے حکمنامہ کے مطابق جو سہولیات کو ختم کر کے مارچ تک پرانے اصولوں سے بجلی بل کی ادائیگی کا زبانی حکم دے کر بنکر تحریک چلانے کا موقع نہیں دیا گیا اور جب بنکروں نے اپنے کاروبار بند کرکے ہڑتال شروع کیا تو اسی اصول ضابطے کو جولائی 2020 تک بڑھا کر بنکروں کی تحریک کو ختم کرادیا گیا تو حکومت کی یہ بہت بڑی بھول ہے اس لئیے حکومت بنکروں سے کئے گئے وعدے کو فوری طور پر عملی جامہ پہنا نے کے لئے قدم اٹھائے کیونکہ اب اگر دوبارہ بنکر تحریک چلی تو فیصلہ کن تحریک ہوگی اور ایسے لوگوں کو دور رکھا جائے گا جو تحریک کو فعال بنانے کے بجائے ختم کرانے کیلئے زیادہ سرگرم رہتے ہیں اور اپنے آپ کو بنکر نمائندہ بھی کہتے ہیں حال ہی میں جو تحریک چلائی گئی اس میں کچھ سفید پوش بنکروں نے انتہائی گھٹیا کردار ادا کیا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی خوشگوار قدم اٹھانے کی خبر موصول نہیں ہوئی ہے اور بنکر طبقہ بہت حد تک مایوس نظر ارہا ہے –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

دنیا ایک متبحر اور رجال ساز عالم سے محروم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے