ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری

عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ بنائی گئی ہے ۔ ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں انسانیت کے لیے ایک کھلا پیغام دیا گیا ہے ، انسان چاہے جن حالات کا بھی سامنا کررہا ہو وہ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی روشنی میں اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا وہ کامیاب اور بامرادہوگا ، نہ اس کو کسی چیز کے چھوٹنے پر غم اور افسوس ہوگا اور نہ کسی چیز کے ملنے پر وہ اترائے گا اور اللہ کو بھول کر زندگی گذارے گا۔ ہمارا ملک ہندوستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ روز بروز مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے اور ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جس سے اکثریت کے تصور میں یہ قوم ملک مخالف کے طور پر ابھر کر آجائے اور اس کے ناپاک سیاسی فوائد حاصل کیے جائیں ۔ خصوصاً پچھلے ساڑھے چار سالہ دور میں جس طرح کے حالات پیدا کیے گئے وہ ظاہر ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں زہر بھرنے کی کوشش کی اور ان کو اکسا کر طرح طرح کے وہ کام کیے جارہے ہیں جس سے انسانیت بھی شرمسار ہوجائے ۔ ان حالات میں سدھار آنے کے بجائے روز بروز بگاڑ پیدا ہورہا ہے اور چند اس کے پیچھے چند ایسے عناصر کار فرما ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں اور اس کو تقویت دینے کے لیے اپنی آخری کوششیں صرف کررہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس طرح کے حالات کیوں پیدا ہوئے ؟ کیا ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کیا کہ جو قوم ہمارے دکھ درد میں شریک ہوتی تھی اور انسانیت کے نام پر ایک دوسرے کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی جس نے اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ملک دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انگریزوں کو یہ ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا ،انہی لوگوں کی اولاد آج مسلم مخالف کیوں ہوگئی اور دشمنی کی حد یہ ہوگئی کہ کھلم کھلا اس کا اظہار ہورہا ہے اور انہیں ملک چھوڑنے کے لیے کہا جارہا ہے ۔ غور کریں تو ہمیں اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا ، سیرت کا ہمہ گیر پیغام انسانیت کے سامنے پیش نہیں کیا ، ہم نے انہیں اسلامی اخلاق سے روشناس کرانے کی کوشش نہیں کی اور خود اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کتراتے رہے جس کا سب سے بڑا نقصان ہمیں یہ ہوا کہ جو لوگ اپنے تصور کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی فہرست میں ان کا نام لکھا جاتا ہے ، مسلمانوں کے محلہ میں قیام کرتے ہیں لیکن ان کے اعمال مسلمانوں جیسے نہیں ہیں ۔ اسلامی افکار کا حامل بننے کے بجائے وہ خود شکوک وشبہات میں پڑگئے اور بعض دفعہ ان کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس اکثریتی قوم کے تہذیب وتمدن سے کس طرح مانوس ہوگئے ہیں اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔ لہذا ان حالات میں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ماہِ ربیع الاول کا یہی پیغام ہے کہ ہم بحیثیتِ مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داریاں ادا کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارے کسی بھی فعل سے اسلام اور مسلمانوں کے نام داغدار کرنے کا کوئی موقع فسطائی طاقتوں اور دشمن عناصر کے ہاتھ نہ لگے۔ 

20 ؍نومبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے