اس وقت کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ تھے۔ وہ خود گاندھی جی کے معتقد تھے۔ انہوں نے بھی جیوتی بسو کو لکھا کہ آپ ونوباجی کے حکم کی تعمیل کریں۔ کشمیر مسلم ریاست ہے لیکن میں نے اپنی اقلیت (ہندوؤں) کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے گائے کشی پر پابندی لگادی ہے۔ کامریڈ جیوتی بسو نے جواب دیا کہ میرے بھائی میں بھی تو اقلیت کے جذبات اور ان کی ضرورت کا خیال کرکے پابندی سے انکار کررہا ہوں۔
بنگال میں آج سی پی ایم کی حکومت نہیں ہے لیکن گائے کا گوشت اسی طرح بک رہا ہے جیسے ہمیشہ بکتا رہا ہے۔ گائے کے متعلق جہاں بھی پابندی کا قانون ہے وہ اس لئے ہے کہ کچھ ہندو اُسے ماں کہتے ہیں کچھ کہتے ہیں کہ وہ دودھ دیتی ہے اور ایک طبقہ اسے محترم سمجھتا ہے۔ لیکن بنگال یا بہار کے ضلع جمشید پور یا شمال مشرقی ریاست میں جو ہندو کھاتے ہیں کیا وہ ہندو نہیں ہیں؟ یا تمام دھرم گرو یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ جو بھی ہندو گؤ ماتا کا ماس کھاتا ہے وہ ہندو نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کھانے والے کھاتے رہیں تو انہیں دھرم سے نکال دیا جائے اور اس کے بعد مردم شماری کے ذریعہ بتایا جائے کہ اب ہندوؤں کی تعداد ملک میں کتنی ہے؟ مہاراشٹر میں مختلف لوگوں سے معلوم ہوتا رہا ہے کہ مہاراشٹر میں جگہ جگہ گائے کا گوشت ملتا ہے۔ ہمارے سنبھل کے ایک سیخ کباب بنانے والے ایک شادی میں کباب بنانے گئے تھے انہوں نے پتے کے متعلق بتایا تھا کہ وہاں گوشت کی مارکیٹ میں گائے کا بہترین گوشت ٹنگا تھا۔ ہمیں کباب بنانے کے لئے جتنا بھی درکار تھا اور جیسا بھی چاہئے تھا وہ ملا۔ اور ہم نے ہندو مہمان مردوں اور عورتوں کو شوق سے گائے کے کباب کھاتا ہوا دیکھا۔ ہمارے پنجابی و تمام دوست بکرے کا اور مرغ کا گوشت بقرعید اور بچوں کی شادیوں میں ہمیشہ کھاتے ہیں اور تقاضہ کرکے کھاتے ہیں۔ لیکن ہم نے کسی ہندو خاتون کو گوشت کھاتا ہوا نہیں دیکھا لیکن دوسرے صوبوں میں دلت برادریوں میں اور آدی واسیوں میں ہر کوئی گوشت کھاتا ہے۔
ہم نے جب ہوش سنبھالا تو ملک پر انگریزوں کی حکومت تھی اس وقت بھی ہندوؤں کی اکثریت تھی اور انگریز مسلمانوں کے مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں سے زیادہ محبت کرتے تھے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہوں نے ہندوستان کی حکومت لڑکر ہندوؤں سے نہیں مسلمانوں سے لی تھی اسی لئے وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان انہیں دشمن سمجھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی ہندو اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ پھر ان کی حکومت کے زمانے میں انگریزوں سے کیوں گائے پر پابندی نہیں لگوائی؟ آزادی سے پہلے ہم بریلی میں رہتے تھے وہاں ایک بڑاسا گھیر تھا جو مولانا عبدالقیوم گھیر کہلاتا تھا بقرعید سے تین دن پہلے گایوں کے ریوڑ اسی طرح قصائی یا بیوپاری فروخت کرنے کے لئے لاتے تھے جیسے آج بکرے لاتے ہیں۔ آزادی کے بعد جب حکومت نے گائے پر پابندی لگائی تب ہمارے یا ہماری جیسی حیثیت والوں نے بکروں کی قربانی شروع کی ورنہ ہماری عمر 20 سال ہوگئی اس وقت تک صرف والد نے ایک بکرے کی جسے گھر میں اولاد کی طرح پالا تھا قربانی کی تھی اور وہ بھی سرورِ کائناتؐ کے نام پر اس سے پہلے جو سوسال تک ملک کے ہر شہر قصبہ اور گاؤں میں گائے کٹتی تھی تو ہندو اُسے کیوں برداشت کرتے رہے؟
ہندوستان میں خنزیر کا گوشت بھی بکتا ہے مسلمان اُسے حرام سمجھتے ہیں۔ نہ اُسے پالتے ہیں اور نہ کھاتے ہیں۔ لیکن کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ کہیں سؤر کے کٹنے سے مسلمان مارنے کاٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ رہی یہ بات کہ اس کا تعلق دھرم سے ہے تو کیا یہ آزادی کے بعد تعلق ہوا ہے؟ آزادی سے پہلے جو ملک میں ہر دن لاکھوں گائیں کٹتی تھیں اسے ہندو کیوں برداشت کرتے تھے؟ صرف گائے ہی دودھ نہیں دیتی بھینس بھی دودھ دیتی ہے اور اونٹ بھی۔ مہاراشٹر میں اب بیل پر بھی پابندی لگادی ہے اُترپردیش میں بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ گائے کی نسل کے جانور کے سر یا کھر ملے اور گرفتاری ہوئی۔ ایک زمانہ تھا کہ گائے کا نربچہ پیدا ہونے کے بعد دُکھ تو ہوتا تھا لیکن وہ بھی کھیتی اور سواری میں کام آتا تھا لیکن برسوں سے آسٹریلیا سے جرسی گائیں آنے لگیں۔ اسی ہندوستان میں یہاں کی آب و ہوا کے حساب سے دوغلہ کیا گیا اب نہ وہ پوری جرسی ہیں نہ پوری دیسی لیکن ان کا نربچہ بیل بن کر کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اس کی قربانی پر پابندی سے مہاراشٹر کے لاکھوں آدمی چیخ اُٹھے۔ اب یہ ہندوؤں کو بتانا پڑے گا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد سے اب تک جن ہندوؤں کی حکومت میں بیل کھلے عام اور گائے ذرا پردہ میں کٹتی رہی انہیں کیا سزا دی جائے گی؟ اور دھرم گرو یا گؤماتا کے پجاری ان پر کتنا جرمانہ کریں گے اور 1947 ء سے اب تک جو لاکھوں گائیں کٹی ہیں اور حکومت کی اجازت سے کٹی ہیں ان کی یاد میں کتنے مندر بنائے جائیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ نہ گائے ماتا ہے نہ اس کا دھرم سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس کی قربانی کے خلاف آواز اُٹھانے والا وہ طبقہ ہے جسے مسلمانوں کا وجود ہی برداشت نہیں ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت انگریزوں کے زمانہ میں بھی ہندوؤں کے مقابلہ میں کمزور تھی اور انگریزوں کے بعد تو حکمراں طبقہ نے اسے اور زیادہ کمزور کرنے کا مشن بنا لیا ہے۔ سردار پٹیل نے مسلمانوں پر سرکاری نوکری کے دروازے اسی وقت بند کردیئے تھے جب وہ وزیر داخلہ بنے تھے اس کے بعد زمینداری کا خاتمہ کرکے اور ریاستیں ختم کرکے ان کی کمر پوری طرح توڑ دی تھی۔ آج جو مسلمان کسی قابل ہیں وہ ان کے پروردگار کا کرم ہے اور ان کی محنت ہے۔ ہندو جانتا ہے کہ مسلمان گوشت کھاتا ہے وہ صدیوں سے گائے کھاتا آرہا ہے۔ ہندو حاکموں نے جب اسے کہیں کہیں دھرم سے جوڑ دیا تو اس نے بھینس کا اور بکرے کا گوشت کھانا شروع کردیا حاکموں نے دیکھا کہ وہ جو چاہتے تھے وہ نہیں ہوا تو انہوں نے مسلم ممالک کو بھینس کا گوشت بھیجنا شروع کردیا اور گوشت کے ایکسپورٹ لائسنس بڑے بڑے ہندو سیٹھوں کو دے دیئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گوشت جو صرف دس سال پہلے 35 روپئے کلو ملتا تھا اب دو سو روپئے میں مل رہا ہے۔ مسلمان بکرا اس لئے نہیں کھاتا تھا کہ وہ ہمیشہ ہندوؤں کے کھانے کی وجہ سے مہنگا رہا ہے جو اب ساڑھے چار سو روپئے کلو بک رہا ہے۔ وہ طبقہ جو ملک پر حاوی ہے اسے مسلمان کی سفید پوشی برداشت ہے نہ تعلیم میں ترقی اور نہ صحت۔ بنگال میں مسلمان پہلے سی پی ایم کو ووٹ دیتا تھا اور گائے کھاتا تھا اب گائے کھاتا ہے اور ممتا بنرجی کو ووٹ دیتا ہے۔
دوسرے صوبوں میں کشمکش ہے کہ پہلے مسلمان زعفرانی ہندو کو ووٹ دے بعد میں گائے کھائے یا پہلے گائے کا گوشت ملے اس کے بعد مسلمان ووٹ دے؟ زعفرانی ہندو کو مسلمان پر بھروسہ نہیں اور مسلمان کو بھگوا جھنڈے پر بھروسہ نہیں۔ رہی گائے کٹنے کی بات تو ہندو بیکار گائے اور جرسی بیل کو فروخت کرنا نہیں چھوڑے گا مسلمان خریدکر اُسے کھانا نہیں چھوڑے گا اور خاکی وردی والا ہندو دونوں سے پیسے لے کر بکوانا اور کٹوانا نہیں چھوڑے گا۔ مہاراشٹر اور باہر شور ہورہا ہے کہ لاکھوں انسان بے روزگار ہوگئے۔ تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ کوئی بے روزگار نہیں ہوا پہلے جو کام سب کے سامنے ہوتا تھا اب ایسے ہی پردہ کے پیچھے ہوگا جیسے رمضان میں مسلمان ہوٹل میں پردہ ڈال کر کھالیتا ہے۔ گائے اور لکشمی کا مقابلہ ہوتو ہر ہندو لکشمی کو بڑا کہے گا گائے اگر دودھ دینا بند کردے تو اُسے بہرحال مرنا ہے وہ کٹ کے مرے یا بھوک سے مرے۔ اسی لئے ہندو گائے کے لئے لکشمی کو نہیں چھوڑے گا لیکن دکھانے کے لئے شور ضرور مچائے گا۔
جواب دیں