ہمارادستورانتہائی پیاراومقدس ہے۔افسوس ناک پہلوہے کہ انتہائی گنے چْنے لوگوں کوہمارے دستورسے،پارلیمانی سیکولرجمہوریت سے حددرجہ دلی کدورت ونفرت ہے۔راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ وہ ہندوتواوادی جماعت ہے جسے سیکولرجمہوریت سے نفرت ہے۔اس کاقیام۱۹۲۵؍میں ہوا،یہ ہندومذہب کی دوسوسالہ احیائی کوششوں کانتیجہ ہے،
اس کاقیام ہی اقلیتوں اورمسلمانوں وپسماندہ طبقات کوزک،نقصان پہونچانے کیلئے ہوا۔آرایس ایس قوم پرستی کی دلدادہ ہے۔اس کے نزدیک قوم کامطلب ’’ہندو‘‘ہی ہے۔ہندوتواکی تبلیغ واشاعت کرنا،آرایس ایس کااہم مدعاہے۔اس کی خاطروہ کسی بھی حدتک جاسکتی ہے۔ہٹلران کاآئیڈیل،مثالی ہے۔وشوہندوپریشد،بجرنگ دل،ابھینوبھارت،سناتن دھرم ودیگرہندوتواوادی جماعتیں آرآرایس کی بغل بچہ ہیں۔ملک کی آزادی کے بعدآرایس ایس نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی خاطرسیاست کواہم سمجھا۔اس کی مرضی سے ۱۹۵۰؍میں جن سنگھ کے نام سے سیاسی پارٹی قائم ہوئی۔۱۹۵۲؍میں جن سنگھ نے پہلے پارلیمانی الیکشن میں قدم رکھا۔پھر۱۹۸۵؍میں بی جے پی پارٹی آرایس ایس کی مرضی سے بنی۔جن سنگھ کوتحلیل کردیاگیا۔انسانی اقدار،بین المذاہب دوستی،سیکولرزم سے آرایس ایس کوازلی دشمنی ہے۔اسلام،عیسائیت جیسے مذاہب کویہ باہری مذہب مانتے ہیں۔اسی لئے اس کے ماننے والوں مسلمانوں اورعیسائیوں کوغیرملکی قراردیتے ہیں۔آرایس ایس ذات پات پریقین رکھتی ہے۔ہندومذہب میں پراچین کال سے یہ چلاآرہاہے۔
جوافرادجماعتیں آرایس ایس کے ہندوتواکی مخالفت کرتے ہیں۔انسانیت دوستی کی بات کرتے ہیں،ہندومسلم اتحادکی بات کرتے ہیں انہیں راستے سے ہٹادینے میںآرایس ایس ماہرہیں۔بابائے قوم مہاتماگاندھی نے انسانیت،اچھوتوں کی بھلائی،ہندومسلم اتحادکی باتیں کیں،آرایس ایس کووہ کھٹک گئے۔مہاتماگاندھی پرکئی بارحملے ہوئے۔آرایس ایس کے پرچارک ناتھورام گوڈسے نے ان کاقتل کردیا۔بی جے پی کے متوقع وزیراعظم نریندرمودی کاآرایس ایس کے پرچارک میں ۲۰۰۲؍کے گجرات فسادات،ان ماتھے پر کلنک کاداغ ہیں۔آرایس ایس کوچونکہ اقلیتوں اورمسلمانوں سے ازلی دشمنی ہے،چونکہ ملک کادستورسیکولرجمہوریت پرمبنی ہے۔وہ اسے مٹاناچاہتی ہے۔جس میں وہ یکساں سول کوڈکی باتیں کرتی ہے۔بی جے پی کے واجپائی جب ملک کے وزیراعظم تھے دستورمیں ترمیم واضافہ کیلئے ایک کمیشن مقررکیاگیاتھا۔عیاری،جھوٹ،مکاری آرایس ایس میں شامل ہے۔قوم پرستی اورثقافت کی آڑمیں،زندگی کے ہرشعبہ میں بڑھتی جارہی ہے۔فوج سے ریٹائرڈافسران،ریٹائرڈ پولس والے،آرایس ایس میں شامل ہوتے آئے ہیں۔موجودہ پارلیمانی الیکشن میں وہ متعددپارلیمانی حلقوں سے بی جے پی کے امیدوارہیں۔سمجھوتہ ایکسپریس،اجمیربم دھماکہ،مکہ مسجددھماکہ،مالیگاؤں قبرستان وغیرہ بم دھماکوں میں آرایس ایس اوراسکی بغل بچہ ہندوتواوادی جماعتیں شامل رہیں۔انہیں منظرعام پرلانے میں مہاراشٹرکے اعلیٰ پولس افسرآنجہانی ہیمنت کرکرے کانام نمایاں تھا۔ورنہ جہاں بم دھماکے ہوئے،فوراًملک کی سیکوریٹی ایجنسیاں،میڈیافوراًہی بم دھماکوں میں مسلمانوں اورمسلم تنظیموں کوملوث کرناشروع کردیتے ہیں۔یعنی بہت جلدتفتیش کرلی۔
ممبران پارلیمنٹ کاکام ملک کانظام حکومت سنبھالناہے۔دستوراورآئین ہی کے پیش نظرکرناہے اپنے افراد،جماعتیں جنہیں ملک کادستوروآئین نہیں بھاتا،اسے سیکولرجمہوریت سے نفرت ہے۔جن کیلئے ہٹلراورمسولینی ہیروہیں۔جوہندوتواکے جارحانہ کردارپریقین رکھتے ہیں۔جودستورہندکوبدلناچاہتے ہیں۔جنہوں نے بابری مسجدکے تحفظ میں آئین اورعدلیہ کی پاسداری نہ کی،وعدہ نہ نبھاسکے۔گجرات کے فسادات کامجرم نمبرایک مودی جوملک کامتوقع وزیراعظم ہے۔جسے گجرات فسادات پرآج تک کوئی افسوس اورشرم نہیں آئی۔فسادات کے تعلق سے پوچھے گئے ان سوال پروہ مسلمانوں کوکْتے کے پلّے سے تعبیرکرتے ہیں۔کیاایسے لوگوں کوپارلیمنٹ میں جانے سے روکناہمارافرض نہیں ہے۔جولوگ کہتے ہیں کہ اردوغیرملکی زبان ہے،اس ملک میں رہناہوگا،وندے ماترم پڑھناہوگا۔اس ملک میں شریعت کاقانون نہیں چلے گا۔مودی کوووٹ نہ دینے والے پاکستانی ہیں۔الیکشن کے بعددیکھ لیاجائے گا۔مسلمانوں کوہندوبستیوں سے بے دخل کردووغیرہ وغیرہ۔مبارکبادکے لائق ہیں وہ لوگ جوسالہاسال سے آرایس ایس اوراس کی بغل بچہ ہندوتواوادی جماعتوں کے خلاف عملی سطح پرلڑائی لڑرہے ہیں۔منافقت سے دورہیں،جوآرایس ایس اوراسکے خطرناک ہندوتوااوراسکے خطرناک نتائج کوملک کیلئے انتہائی تباہ کن سمجھ رہے ہیں۔ان میں آرجے ڈی کے لالوپرسادیادوصف اوّل پرہیں۔اپنی سماجی سیاسی زندگی کے آغازہی سے آرایس ایس کے ہندوتواکے خلاف سماج میں گاؤں گاؤں ،شہروں شہروں میں،ہرجگہ سڑکوں پرہندوتواکے خلاف لڑائی لڑرہے ہیں۔ایک منظم طبقہ ان کے خلاف ہے۔سرمایہ داروں اوربڑے زمین داروں اورمیڈیاکی پشت پناہی،ہندوتواوادیوں کوحاصل ہے۔ان کیخلاف لالو۲؍اور۲؍چارکی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔انسانی اقدار،عدل وانصاف،مساوات کی خاطر،جارحانہ لڑائی لڑناآسان کام نہیں۔یہ لالوپرسادجان ہتھیلی پرلیکرکررہے ہیں۔ان کے خلاف بدنامی،جھوٹے الزامات کی سازشیں جاری ہیں۔مگرلالوہیں کہ ان کے قدم ڈگمگاتے نہیں۔
چلاجاتاہوں ہنستاکھیلتے موج تلاطم میں
اگرآسانیاں ہوں توزندگی دشوارہوجائے
نتیش کمارآج بی جے پی سے دورہیں۔کل تک وہ مودی کے ساتھ تھے۔گزراہواکل اورآج مستقبل کی نشاندہی کرتاہے۔لالوپرسادکل بھی آرایس ایس کے ساتھ نہیں تھے اورآج بھی نہیں ہیں۔انشاء اللہ کل بھی نہیں رہیں گے۔فرقہ پرستی کے خلاف نتیش کمارکی طرح وہ خاموش گڑیاکی مانندنہیں تھے۔بابری مسجد،رام مندرتنازعہ پرجب اڈوانی پورے ملک میں۱۹۹۰؍میں رتھ یاترالے کرچلے تھے جہاں جہاں پہونچتے تھے فسادات ہوجاتے تھے،خون بہہ جاتاتھا۔کئی صوبوں میں کانگریس کی اوریوپی میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی سبھی فرقہ پرستی کے خلاف بات کرتے ہیں مگراڈوانی کی خونی رتھ یاتراکوکسی نے نہیں روکا۔یہ آرجے ڈی کے لالوپرساد ہی تھے جنہوں نے مصمم ارادوں کے ساتھ،اڈوانی کی رتھ یاتراکوبہارمیں روک دیا۔انہوں نے تاریخی طورپریہ ثابت کردیاکہ وہ منافق نہیں ہیں۔انسانیت کے طرفدارہیں۔لالوکئی سال بہارکے وزیراعلیٰ رہے۔ان کی سماجی کارگزاری ،انسانیت دوستی،آرایس ایس اورمودی سے انتہائی اعلیٰ ارفع ہیں۔جس کی ملک کوضرورت ہے۔لالویادوکیلئے یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا۔
نگاہ بلند،سْخن دلنواز،جاں پْرسوز
یہی رخت سفرہے میرکارواں کے لئے
جواب دیں