ملک کس بحران سے گذر رہا ہے

اس کے ساتھ ساتھ یوگا کا پرچار بھی کیا جارہا ہے اور یوگا اس ملک کے عوام کس طرح کر سکیں گے، جب ان کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوگی، اس سلسلے میں سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور یوپی کے وزیر اعظم خاں نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ملک کے عوام اس بھکمری میں یوگا کس طرح کر سکیں گے۔ بہرحال بی جے پی نے جو ۳۷۰ سیٹیوں کا نشانہ بنایا ہے کہ آئندہ الیکشن میں اتنی سیٹیں حاصل کرنی ہے وہ اپنی اسی جستجو میں ہیں اس طرح اگر دیکھا جائے تو ہر جماعت اپنا مقصد حل کرنے میں ہے۔
ایسے تمام عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے یہ سیاسی لیڈر پوری دنیا میں انتہائی چالاک، مکار، زیادہ دھوکے بازاور خودغرض، مطلب پرست ہیں۔ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ایسے فرقہ پرست لیڈر نہیں ہوں گے جیسے ہندوستان کے لیڈر ہیں، انہیں نہ ملک سے مطلب اور نہ قوم سے کوئی تعلق۔ ایسی صورت میں ان سیاسی بھوکے لیڈروں کو ملک کے عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعہ ہٹا دینا چاہیے، نہ جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک میں عوامی رائے سب سے بڑی طاقت تسلیم کی گئی ہے۔ لہٰذا اب بی جے پی اور اس کے دوسرے سیاسی ہمنواؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فرقہ پرستی دور کرنے کے لیے، ملک و قوم کو ترکی کی منازل تک پہنچانے کے لیے اس بات پر سوچنا ہوگا کہ ایسی فرقہ پرستی طاقتوں کو ملک کا اقتدار نہیں سونپنا چاہیے تھا، غلطی تو سب سے ہوتی ہے، یہ بھی ملک کے عوام کی ایک غلطی ہے کہ ایک ایسی سیایس قوت کی مالک جو اصول ضابطے اور قواعد کو مانتی ہو، جو سیکولرزم کی علمبردار ہو، اس سیاسی جماعت کو یعنی کانگریس کو نظرانداز کرکے بی جے پی کو ووٹ دے بیٹھے۔ آج اس مذکورہ جماعت کو اقتدار سنبھالنے ہوئے ایک سال سے زائد ہوگیا لیکن ملک کے عوام کو کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اور اس پر طرہ یہ ہے کہ بھکمری میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم مودی اس وقت بھی ملک کی ترقی کی بات کررہے ہیں کہ آج ملک ایک سال میں کتنی ترقی کر چکا ہے، لیکن ان ایسے بیانات صرف سیاسی ہیں جو عوام کو خاموش کرنے کی کوشش کے لیے ہیں لیکن عوام خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ وہ جھنڈے لے کر احتجاجی مظاہرے کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔(یو این این)

«
»

روزہ عبادت ہی نہیں،مہلک بیماریوں کاشافی علاج بھی

کاسہ لیس رہنما۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے