تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
بھارت میں کوروناکا قہر جاری ہے۔روزانہ ہزاروں افراد متاثر ہورہے ہیں اور بہتوں کی جانیں جارہی ہیں۔ لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا اس سے پہلے کہ اپنااثر دکھاتا۔ حکومت کو اندیشہ تھا کہ ملک کے غریب عوام، خواہ کورونا سے بچ جائیں مگر لاک ڈاؤن کے سبب بھوک سے مرجائیں گے۔ حکومت سب کو کھانا نہیں دے سکتی۔ ایسے میں ملک کو بھگوان بھروسے چھوڑ دیا گیا ہے اور بھاجپا کے لیڈران اور منتری الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔بہار میں ورچوئل ریلیاں کی جارہی ہیں اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بہار کا فائدہ این ڈی اے راج میں ہی ہے۔واضح ہوکہ اسی سال اکتوبر میں بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔حالانکہ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں کورونا عروج پر ہوگااور نہ صرف متاثرین کی تعداد بڑھے گی بلکہ مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ جس وقت کہ ملک میں کورونااور بے روزگاری کے سبب موت کا تانڈو جاری ہے، ایسے ماحول میں نیتاؤں کو الیکشن کی پڑی ہے۔یہ حقیقت کس قدر تلخ ہے اور ان کی بے حسی کو بیان کرنے والی ہے۔حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیاعوام اس بے حسی اور کورونا کے سلسلے میں ناکامی کے لئے حکمراں طبقے کو سزادیں گے یا پھر الیکشن میں ایک بار پھر فرقہ پرستی کا راگ الاپا جائے گااور ووٹر سب کچھ بھول جائیں گے؟ یاد رہے کہ بہار کے بعد دوسری ریاستوں میں بھی اسمبلی الیکن ہیں۔ چندمہینے بعد اپریل، مئی میں مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، کیرل اور پانڈیچری میں اسمبلی الیکشن ہیں۔ آنے والے یہ انتخابات اس لئے بھی اہم ہیں کہ حال ہی میں دلی اسمبلی کے الیکشن میں نہ تو نریندر مودی کا نام چلا اور نہ فرقہ پرستی کا کام۔بھاجپا چاروں خانے چت ہوگئی۔سی اے اے کے بہانے پورے انتخابی ماحول کو بی جے پی نے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی مگر اس کا اثر ہندو ووٹروں نے بالکل نہیں لیابلکہ اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ بی جے پی مخالف ووٹ کا جو کچھ حصہ کانگریس کو جاسکتا تھا وہ متحد ہوکر عام آدمی پارٹی کے حق میں چلا گیا۔ اس سے پہلے بہار کی پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں انتخابات ہوئے ہیں،جہاں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کی لاکھ کوششوں کے باجود بھاجپا کو اپنی سرکار گنوانی پڑی ہے۔ بہرحال اب بہار کا امتحان ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ دلی، جھارکھنڈ،ہریانہ اور مہاراشٹر کا ناکام حربہ بی جے پی پھر آزمائے گی یا کوئی نیا داؤچلے گی؟اگر این ڈی اے کو بہار میں بھی ہارکا منہ دیکھنے کو ملا تو اس کے لئے آسام کی ڈگر مشکل ہوجائے گی،جہاں اس کی حکومت سی اے اے مخالفوں سے نبرد آزما ہے جب کہ مغربی بنگال میں وہ پورے دم خم سے لڑنے کی تیاری کر رہی ہے جہاں لوک سبھا الیکشن میں اسے خاصی کامیابی ملی تھی۔ ویسے لوک سبھا الیکشن تو وہ دلی، جھارکھنڈ، ہریانہ اور مہاراشٹر میں بھی جیتی تھی مگر اپنی ہی کامیابی کو چند مہینے بعد اسمبلی الیکشن میں نہیں دہراپائی۔خیر تمل ناڈو، کیرل اور پانڈیچیری میں تو اسے فائدہ ملنے کامعمولی امکان بھی نہیں ہے مگر بہار میں ایسا لگتا ہے کہ اگراپوزیشن نے اتحاد دکھایا تو بی جے پی کے سبب نتیش کمار کو بھی نقصان ہوسکتاہے۔ حالانکہ نتیش کمار نے اپنے دور اقتدار میں خاصا کام کیا ہے اور بہار کی تصویر بدل ڈالی ہے۔
نتیش نہیں تو کون؟
بہار میں اپوزیشن کو سب سے زیادہ خطرہ خود اپنے آپ سے ہے۔اس کا سیدھا فائدہ این ڈی اے کو مل سکتا ہے۔ بہار کی سیاست کے چانکیہ لالوپرساد یادو فی الحال جیل میں ہیں اور صوبے میں اسمبلی انتخابات سے قبل نئی سیاسی کھچڑی پک رہی ہے۔ایک نئی بحث شروع ہوئی ہے کہ نتیش کے خلاف وزیراعلیٰ کا چہرہ کسے بنایا جائے؟ لالوپریوار کے وارث تجسوی یادو اس کے فطری دعویدار ہیں مگر اب تک انھوں نے اپوزیشن لیڈر کا کردار دمدار طریقے سے نہیں نبھایا ہے لہٰذا بہتوں کو ان کے نام پر اعتراض ہے۔ایسے لوگوں نے کچھ مہینے قبل شردیادو کے نام کو آگے بڑھایا تھا جن کے پاس طویل سیاسی تجربہ ہے مگر انھوں نے بہار کی سیاست میں کبھی کوئی سرگرم رول نہیں نبھایا۔وہ ہمیشہ سے مرکز کی سیاست میں رہے ہیں اور ان کی نئی سیاسی جماعت جنتادل (لوک تانترک)کا بھی کوئی اثر نہیں ہے۔ایسے میں اگر ان کی پارٹی دوچار سیٹیں جیت بھی لے تووہ وزیراعلیٰ کی کرسی کے دعویدار کیسے ہوسکتے ہیں؟وہ رہنے والے بھی بہار نہیں،مدھیہ پردیش کے ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ جو پارٹیاں لوک سبھا الیکشن میں آرجے ڈی کے ساتھ تھیں، آج و ہ کہہ رہی ہیں کہ ان کے اتحاد کی جانب سے وزیراعلیٰ کا چہرہ تجسوی یادو نہیں ہونگے۔ایک آر ایل ایس پی نیتا نے تو یہاں تک کہا کہ ہمارا مقصدغیر این ڈی اے پارٹیوں کا اتحاد بنانا ہے۔اگر آر جے ڈی اپنے ضد پر قائم رہی کہ تیجسوی یادومہاگٹھبندھن کی طرف سے چیف منسٹر کے امیدوار ہوں گے تو، نیا سیاسی مورچہ بن سکتا ہے۔
پرشانت کشور کی سرگرمیاں
بہار میں جو سیاسی کھچڑی پک رہی ہے،اس کے لئے آگ سلگانے کا کام کر رہے ہیں انتخابی حکمت عملی سازپی کے یعنی پرشانت کشورجنھوں نے بہار کی سیاست میں آنے کا اشارہ دے دیاہے۔ اب خبر ہے کہ پرشانت کشور نے بہار میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیڈروں سے ملاقات کی ہے اور انتخابات سے قبل ایک نیا اتحاد بنانے پربات چیت شروع کی ہے۔ پرشانت کشور نے دہلی میں بہار کانگریس کے صدر مدن موہن جھا، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) کے صدر اپیندر کشواہا، ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کے صدر جیتن رام مانجھی اور وکاس شیل انسان پارٹی کے صدر مکیش ساہنی سے ملاقات کرچکے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ سب آر جے ڈی پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کے طور پر یہ کیا جارہاہے۔تمام پارٹیاں زیادہ سے زیادہ اسمبلی سیٹیں مانگ رہی ہیں۔
نتیش کے خلاف کمزور اپوزیشن
بہار میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی، جے ڈی یو،ایل جے پی اتحاد کی شکست کے بعد بی جے پی اور جے ڈی یو کی قیادت، انتہائی محتاط ہوگئی ہے۔ ادھرپرشانت کشور، بہار کی سیاست میں قدم رکھنے کی تیاری میں ہیں جنھوں نے گذشتہ بہاراسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی-جے ڈی یو اتحاد کے لئے انتخابی حکمت عملی تیار کرنے کا کام کیا تھا اور اس بار دلی میں انھوں نے بی جے پی کی شکست کی اسکرپٹ لکھی۔ اس لئے پرشانت بہار کی سیاست سے بخوبی واقف ہیں۔ادھرجن ادھیکار پارٹی (لوکتانترک) کے قومی صدر، راجیش رنجن عرف پپو یادو نے کہا ہے کہ ان کے پاس بہار کی ترقی کا روڈ میپ ہے۔اسی کے ساتھ انھوں نے پرشانت کشور کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت بھی دی۔ پپویادونہ صرف نتیش کمار کی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں بلکہ لالوراج کے بھی خلاف ہیں اور تجسوی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن سے قبل تک بہار میں نوجوان کمیونسٹ لیڈر کنیہاکمار یاترائیں نکال رہے تھے اور تمام اضلاع کے دورے کر رہے تھے۔ وہ سی اے اے کے خلاف حملہ آور تیور میں بھی تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں اور سیکولرمتبادل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر سی پی آئی کا بہار میں کوئی اثر نہیں ہے اور وہ آر جے ڈی کے ساتھ مل کر چند اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑتی ہے۔فی الحال سی پی آئی کنہیاسے آس لگائے بیٹھی ہے۔برسوں سے بہار نے کسی نیتا کے جلسے یا یاترا میں اس قدر بھیڑ نہیں دیکھاہے جس قدر کنہیاکمار جٹارہے تھے۔ ایسے میں وہ نتیش کمار اور بی جے پی کے لئے ہی سیاسی خطرہ نہیں بنے ہیں بلکہ لالوپریوار کے لئے بھی خطرہ ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
2019 میں، بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک نیا ریکارڈ بنایاتھا جب لگاتار دوسری بار مرکز کا اقتدار جیتنے والی پہلی نان کانگریس پارٹی بن گئی لیکن وہ اسمبلی انتخابات میں اپنا جادو برقرار نہ رکھ سکی۔لوک سبھا الیکشن کے بعد اسے کئی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں دھچکا لگاہے مگر آنے والے انتخابات میں اسے مزید جھٹکے لگ سکتے ہیں۔ بہار میں نتیش کمار کی امیج کام کرنے والے شخص کی ہے لیکن بی جے پی کے پاپ، ان کا بیڑا بھی غرق کرسکتے ہیں۔کورونا دور میں مرکز کی حکومت کا نکماپن عوام کے سامنے کھل کر آیا ہے۔ جو مزدور، دور دور سے پیدل چل کر گھر پہنچے ہیں،ان میں سب سے زیادہ بہار سے ہیں۔بہار میں روزگار کے ذرائع پہلے ہی کم تھے مگر لاک ڈاؤن اور کورونا کے سبب یہ عروج پر ہے۔ جھارکھنڈ میں عوام کو مہنگائی سے شکایت تھی اور یہی شکایت بہاروالوں کو بھی ہے بلکہ کورونا کے بعد مہنگائی بڑھ گئی ہے اور لوگ دانے دانے کو محتاج ہورہے ہیں۔حالانکہ بی جے پی نے اپنی ورچول ریلیوں میں اشارہ دیدیا ہے کہ بہار میں بھی وہ سی اے اے،دفعہ 370 اور رام مندر کے بہانے فرقہ پرستی کا کھیل کھلے گی مگر یہ سب موضوعات بھی تب کام آتے ہیں، جب پیٹ میں دانا،پانی ہو۔ بھوکے پیٹ توگوپال کے بھجن بھی نہیں ہوتے، سیاست کیا ہوگی؟حالانکہ کورونا اور بے روزگاری وبھوک مری، بہار کے بعد مغربی بنگال اور آسام کے اسمبلی الیکشن میں بھی ووٹروں کے لئے اہم موضوع ہوسکتے ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
20جون2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں