ملک کے ماتھے کا کلنک

وہ لکھتی ہیں کہ اگرچہ تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایودھیا میں کسی مندر کے اوپر کوئی مسجد تعمیر کی گئی تھی لیکن دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے اپنی غیر معمولی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے، جس کا پوری دنیا میں کوئی بدل نہیں، ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے دوردراز کے گاؤں میں رہنے والے ہندوؤں کو اس کا یقین دلادیاتھا کہ ’غلامی کی نشانی بابری مسجد‘ کو گراکر اس کی جگہ ایک عالی شان مندر بنائے بغیر ہندوؤں کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے پورے ملک کے ہندوؤں کو یہ بھی باوَر کرادیا کہ گول ٹوپی اوڑھنے والے یہ ختنہ شدہ مسلمان برتھ کنٹرول پر عمل نہ کرنے اور چار چار بیویاں رکھنے کی وجہ سے بہت جلدی تعداد میں ہندوؤں سے زیادہ ہو جائیں گے اور انہیں جو دو وقت کی روٹی آج مشکل سے ملتی ہے کل وہ بھی نہیں ملے گی۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج مسلمانوں سے کہیں زیادہ خود ہندؤوں میں ہے او رسچر کمیٹی کی رپورٹ تو کہتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔
انیتا پرتاپ کے نزدیک سیاست دانوں نے مسلمانوں کو کبھی انسان نہیں سمجھا۔ انہیں صرف ’’ووٹ بینک‘‘ سمجھا گیا۔ ان کی واقعی اور حقیقی فلاح و ترقی کے اقدامات کے بجائے ہمیشہ ایسے کام کیے گئے جس کا فائدہ دائیں بازو کی تنظیموں نے اٹھایا اور ہندوؤں کو اس کا یقین دلادیا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور مسلمانوں کی منھ بھرائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف پورے ملک میں ’نفرت کی مہم‘ چھیڑدی اور گاؤں گاؤں میں یہ پیغام پھیلایا کہ اگر مسلمانوں کو سبق نہ سکھایاگیا تو ہندوؤں کو روٹی کے لالے پڑجائیں گے اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف پیداکی گئی اور بھڑکائی گئی اس نفرت کو نہایت خوبصورتی سے بابری مسجد کی مسماری کے لیے استعمال کرلیا گیا۔ ہندوؤں نے جس طرح قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیا وہ نہ صرف قابلِ اعتراض او ر غیر قانونی تھا بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے براشگون بھی۔
انیتا پرتاپ 3دسمبر 1992کو ایودھیا پہنچ گئی تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کارسیوکوں کی اکثریت ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے آرایس ایس کے سیوم سیوکوں پر مشتمل تھی۔ لیکن سب سے زیادہ’’گرم ماحول‘‘ مہاراشٹر،گجرات اور اتر پردیش کے کارسیوکوں میں تھا۔ جہاں ’ہندو کے لیے ہندوستان۔ مسلمان کو قبرستان، کے نعرے جگہ جگہ گونج رہے تھے۔ وہ کھلم کھلا سادھوی رتمبھراکا یہ جملہ دہرارہے تھے کہ’’مسلمانوں سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔‘‘
انیتاؔ نے لکھا ہے کہ کارسیوک صرف مسلمانوں ہی سے ناراض نہیں تھے وہ حکومت اور میڈیا سے بھی خفا تھے۔ انگلش میڈیا او رغیر ملکی صحافی خاص طورپر ان کے غصّے کا نشانہ تھے یہاں تک کہ وہ خود3دسمبر1992کو مہاراشٹر کارسیوکوں کے کیمپ سے بہ مشکل اپنی جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوسکیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے’’ہم تم سب کو سبق سکھائیں گے۔‘‘ او ر انہوں نے جو کہا تھا وہ 6دسمبر کو کر دکھایا۔ 
صبح سے زہریلی تقریریں جاری تھیں۔کارسیوکوں کو جو ش دلانے والوں میں وہ بھی تھے جوبعد میں مرکزی کابینہ میں شامل رہے۔(اور تعلیم کے برہمنی کرن اور ملک کو پولس اسٹیٹ بنانے میں مصروف رہے۔) مسجد کی مسماری کا کام شروع کرنے سے پہلے اس بات کویقینی بنایا گیا کہ کوئی صحافی ،خاص کر غیر ملکی صحافی سامنے نہ رہنے پائے۔ خود پولس کے مسلّح جوانوں نے صحافیوں کو کھدیڑنے میں اہم رول ادا کیا جس سے لگتا تھا کہ انہیں کارسیوکوں کے عزائم کا پہلے سے علم تھا۔ کیونکہ جیسے ہی انہوں نے صحافیوں کو جائے واردات سے ہٹایا مسجد پر حملہ کردیاگیا۔ کارسیوک چلّارہے تھے’صحافیوں کو مارڈالو‘ انیتاؔ نے دیکھا کہ وائس آف امریکہ کانامہ نگار اور اس کادوست پیٹر(Peter Heinlein) بھی ان صحافیوں میں شامل تھا جن کے سروں پر لکڑی اور لوہے کے ڈنڈوں کی بارش ہورہی تھی اس طرح بابری مسجد کے سامنے والے میدان سے صحافیوں کو کھدیڑنے کا کام مکمل ہوتے ہی ’’ہندو ہسٹیریا میں اُبال آگیا اور تشدّد کی اجتماعی بھوک بھڑک اُٹھی‘‘
اور شام ہوتے ہی پورے ملک میں ہندومسلم فسادات شروع ہوگئے۔ لیکن اسے معجزہ ہی کہنا چاہیے کہ (ممبئی اور سورت کے سوا اور کہیں)فسادات نے تقسیم ہندوالے خوفناک فسادات کا روپ دھارن نہیں کیا۔
لیکن ممبئی میں شوسینانے پولس کی مدد سے ’مسلمانوں کو سبق سکھادیا‘ جس کا حکم انہیں (آنجہانی )بال ٹھاکرے نے دیا تھا ۔ بعد میں جب انیتا پرتاپ نے ٹائم میگزین کے لیے ان سے انٹرویو لیا تو مہاراشٹر کے ہٹلر نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ ہندستانی مسلمانوں کو پاکستان ڈھکیل دینا چاہیے اور ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
انیتاؔ کے نزدیک 12مارچ 1992کے سلسلہ وار بم دھماکے، جنھوں نے بیک وقت بیروت بلفاسٹ،یروشلم اور کولمبو کی تاریخ کو خود میں سمو لیا تھا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اُس سلوک کا براہ راست نتیجہ تھے جو دسمبر1992اور جنوری1993میں ان کے ساتھ کیاگیا تھا۔ یہ ٹھاکرے اور شیوسینکوں کے خلاف ’’ممبئی انڈرورلڈ‘‘ کا انتقام تھا۔ 
انتیاؔ کے لفظوں میں:
’’پیغام صاف تھا: تم نے مسلمانوں کو مارا، ہم نے ہندوؤں کو مارا۔ آنکھ کے بدلے آنکھ اور بمبئی شہر اندھا ہوگیا۔ لیکن پیغام پہنچ گیا۔ اور پھر اس کے بعد سے بمبئی میں کوئی ویسا ہندو مسلم فساد نہیں ہوا……..بمبئی نے سبق سیکھ لیا ہے لیکن بقیہ ہندستان نے نہیں۔ ہمیں۔ مِن حَیثُ القوم اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے کہ ماضی کو درمیان میں گھسیٹ کرہم اپنے حال کو تباہ کررہے ہیں اور مستقبل کو بھلابیٹھے ہیں۔‘‘

«
»

خالی جیلیں

ہاتھ کنگن اور آرسی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے