ملک کے لیے اہم کون: گائے یا انسان؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ہر مرتبہ یہ سوال اور بڑا ہو کر ملک کے سامنے آ رہا ہے کہ اہم کون ہے، انسان یا گائے؟ حکومت بھوک، بیماری اور خوف سے انسانوں کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے، لیکن گائے کی حفاظت کیلئے نت نئے قانون بنانے پر زور ہے۔ و سندھرا راج سندھیا نے گایوں کی دیکھ بھال کیلئے ایک وزارت ہی الگ بنا دی تھی۔ اس کے باوجود گؤ شالاؤں میں چارا پانی کی کمی کی وجہ سے گایوں کے مرنے کی خبریں گاہے بگاہے آتی رہیں ۔ اب اتر پردیش حکومت نے پوری ریاست میں گؤشالہ بنانے کیلئے گؤ ذیلی ٹیکس(سیس) لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت 0.5 فیصد سیس شراب کے علاوہ ان سبھی اشیاء پر لگے گا جو پیداوار کے دائرے میں آتی ہیں ۔ اتنا ہی ذیلی ٹیکس سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ وصولے جانے والے ٹول ٹیکس پر اور مختلف سرکاری اداروں کے منافع پر بھی لگے گا۔ منڈی پریشدیں، جو ابھی گایوں کی حفاظت کیلئے ایک فیصد دے رہی تھیں، اب دو فیصد دیں گی۔
یہ فیصلہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں لیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت اس کے ذریعہ ہر ضلع کے دیہی و شہری علاقوں میں کم از کم ایک ہزار آوارہ مویشیوں (گؤ ونش) کے لئے قیام گاہ بنائے گی۔ تعمیرات کیلئے منریگا کے علاوہ ایم ایل اے اور ایم پی فنڈ سے بھی رقم مہیا کرائی جائے گی۔ دراصل یہ فیصلہ صوبہ کے مختلف علاقوں سے آ رہی ان شکایتوں کے بعد لیا گیا، جن میں آوارہ جانوروں کے ذریعہ فصلوں کو نقصان پہنچانے اور سڑکوں پر حادثے بڑھنے کی بات کہی گئی تھی۔ آوارہ گھومتے مویشیوں سے پریشان ہو کر مغربی اترپردیش میں لوگ انہیں اسکولوں اور تھانوں میں بند کرنے لگے۔ ملک میں آوارہ جانوروں کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اینیمل بورڈ آف انڈیا کے مطابق ملک بھر میں چار ہزار سے زیادہ گؤ شالاؤں میں کوئی ساڑھے تین کروڑگائی کی نسل کے جانور موجود ہیں ۔ سڑکوں، گلی کوچوں، کوڑا گھروں کے ارد گرد موجودآوارہ گائیں، بیل اور سانڈوں کی تعداد اس سے چار گنی ہے۔ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر آر ایم خرب کا کہنا ہے کہ’ایک گائے پر روز کا خرچ کم از کم سو روپے ہے، مگر مرکزی حکومت سے جو گرانٹ کی رقم مل رہی ہے، اس سے گؤ شالاؤں میں محفوظ ایک گائے کے حصہ میں سال میں صرف دو روپے آتے ہیں‘۔

اتر پردیش حکومت کے فیصلہ سے ہم صرف یہ خوش گمانی ہی پال سکتے ہیں کہ گایوں کو بہتر زندگی نصیب ہوگی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کیلئے بھی اسی طرح کا ذیلی ٹیکس لگایا گیا تھا۔ تو کیا تعلیم کی حالت بہتر ہوئی؟ دوسرے اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بہار کے چارا گھوٹالے کی طرز کا اس میں کوئی گھوٹالہ نہیں ہوگا ؟ جمہوریت میں عوام کے ذریعہ عوام کیلئے حکومت چنی جاتی ہے،جو عوام کی حکومت کہلاتی ہے۔ اس لئے عوام کے فیصلہ کی عزت کرنی چاہئے۔ انہوں نے گایوں کو بند کرکے سرکاری اسکولوں کے استعمال کا صحیح راستہ تلاش کر لیا ہے۔ کیونکہ تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی کے سبب بچے اب انگریزی اسکولوں میں پڑھنے لگے ہیں، سو سرکاری اسکول خالی پڑے تھے۔ اس لئے عوام نے وہاں گائیں بھیجنی شروع کردیں ۔ ویسے بھی بچے پڑھ کر کیا کریں گے؟ بڑے ہو کر یونیورسٹیوں میں جائیں گے، وہاں سوال کرنا سیکھیں گے اور حکومت کیلئے مشکلیں پیدا کریں گے۔ اوپر سے نوکریاں مانگیں گے جیسے اب مانگ رہے ہیں، ہماری ہر سال دی جانے والی دو کروڑ نوکریاں کہاں ہیں، جو آپ نے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس لئے اچھا ہے کہ اسکولوں میں گائیں رہیں ۔ شاید اس سے ان لوگوں کی جان بچ جائے جنہیں گؤ اسمگلر کے نام پر پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ اس سے سبودھ سنگھ جیسے لوگ بھی محفوظ رہیں گے جنہیں فرض کی خاطر جان گوانی پڑی ہے۔ ہو سکتا ہے اسکول جا کر گایوں کو یہ علم ہو جائے کہ آخر وہ ہیں تو جانور ہی۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انہیں ماں ہونے کے جھوٹے بھرم سے نجات مل جائے گی۔ ہو سکتا ہے وہ انہیں معاف کر دیں جو ماں ماننے کے باوجود انہیں گھر کا چارا نہیں کھلاتے۔

ویسے گائیں ملک کی بڑی خدمت کر رہی ہیں۔ وہ کچرے کو کھا کر صفائی میں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ کیونکہ کچرا سڑکوں پر پھیل جاتا ہے۔ اس کو ٹھکانے لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ گائیں اس کو صاف کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ بھاجپا کے سائنس دانوں کے مطابق گائیں آکسیجن ہی لیتی ہیں اور آکسیجن ہی چھوڑتی ہیں ۔ اگر وہ سڑکوں پر ہیں تو گاڑیوں سے نکلنے والے کاربن سے ماحول کو بہتر بنانے میں مدد کر رہی ہیں۔ وہ منڈیوں میں آڑتیوں کی دکانوں پر پڑی کسانوں کی فصلوں کو نبٹاتی ہیں ۔ ویسے بھی آڑھتی انہیں خریدنے میں آنا کانی کرتے یا اونے پونے داموں میں خریدتے ہیں ۔ اس لئے انہیں کھا کر مفت میں مذہب کا فائدہ دیتی ہیں ۔ ویسے بھی مذہب بڑی چیز ہے۔ فصل بیچ کر قرض کمانے سے اچھا ہے کہ مذہب کمایا جائے۔ گائیں کسانوں کی فصلیں چٹ کر انہیں سردی میں فصلوں کی رکھوالی کی تکلیف سے نجات دلاتی ہیں ۔ اب اگر ان کا یہ عمل کسانوں کو راس نہیں آرہا تو وہ کیا کریں ۔ گائیں تو راشٹر کی سیوا میں مسلسل لگی ہیں۔

بے سہارا گائے، بیل اور سانڈوں کی تعداد بڑھنے کی کئی وجہ بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ گائے پالنا منافع کا کاروبار نہیں ہے۔ پہلے گائے کے بچھڑوں کو بیل بنا کر کھیتی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ مشینوں کے بڑھتے استعمال سے بیلوں کی ضرورت ختم ہو گئی تو انہیں گوشت کے کاروباریوں کو بیچا جانے لگا۔ بی جے پی کی حکومت کے اقتدارمیں آنے کے بعد گؤ شدت پسندوں کے بڑھے حوصلوں کی وجہ سے گؤ ونش کی خرید و فروخت بند ہو گئی۔ اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں گائیں اور بچھڑے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آوارہ مویشیوں کی اتنی بڑی تعداد کو کھانا اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے کتنی رقم درکار ہوگی؟ فطری نظام سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ہی بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ جاپان کی مثال سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جہاں بڑی تعداد میں چوہے مار دینے کی وجہ سے سانپ سڑکوں پر آ گئے تھے۔ ایک مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ گؤ کی نسل کے جانوروں کی تعداد کو محدود کرنے کیلئے پالیسی بنائی جانی چاہئے۔ جس طرح آوارہ کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے کیا گیا۔

گائے جیسے جانور کو مسلم دشمنی کیلئے استعمال کرکے اہل وطن کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان گوشت خور ہیں۔ جبکہ نیشنل سیمپل سروے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں صرف تیس فیصد لوگ ہی سبزی کھانے والے ہیں۔ ان میں بھی نو فیصد ایسے ہیں جو گوشت تو نہیں کھاتے لیکن انڈے سے انہیں پرہیز نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان تو صرف 14فیصد ہیں اور ان میں بھی کئی ایسے ہیں جو گوشت نہیں کھاتے تو پھر باقی کون ہیں ؟ گوا جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں گؤکے گوشت پر پابندی نہیں ہے۔ آسام میں نظام بدلا تو وہاں گؤکے گوشت پر پابندی کی مانگ اٹھنے لگی لیکن بھاجپا کے وزیر اعلیٰ سربانند سونووال اس سوال پر چپی سادھے ہوئے ہیں ۔ کیرالہ، مغربی بنگال، اروناچل پردیش، سکم، میزورم، میکھالیہ، تریپورہ، ناگالینڈ میں بیف پر پابندی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنا ملک بیف ایکسپورٹ کے میدان میں دنیا بھر میں اول ہے۔ 2014 میں مودی سرکار آنے کے بعد 4.8 ارب ڈالر کا بیف ایکسپورٹ ہوا تھا۔ 2015 میں بھی 2.4 ملین ٹن کا بیف ایکسپورٹ کر کے بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر رہا۔ دوسرے نمبر پر آئے برازیل نے دو ملین ٹن، اور تیسرے نمبر آئے آسٹریلیا نے ڈیرٹھ ملین ٹن بیف ایکسپورٹ کیا تھا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا معاملہ سیاست سے جڑا ہے۔ سیاسی حضرات کو نہ گائے سے پیار ہے نہ عوام سے ہمدردی۔ انہیں صف ووٹ چاہئے تاکہ اقتدار میں بنے رہیں۔ اترپردیش میں 0.5 فیصد کا ذیلی ٹیکس لگنے کا سیدھا اثر عوام پر پڑے گا۔ چیزیں مہنگی ہوں گی لیکن وزیر اعلیٰ کی بلا سے۔ انہیں اپنے خلاف منھ کھولنے والوں کا منھ بند کرنا تھا۔ لیکن عوام اب ان باتوں کو سمجھنے لگے ہیں ۔ راجستھان میں وزیر گائے کو ہرا کر عوام نے اپنی منشاء ظاہر کر دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ گائے اور انسان دونوں زندہ رہیں۔ انسان زندہ رہے گا تبھی گائے کو جیون دان ملے گا۔ اسے کوئی ایک انسان نہیں بچا سکتا۔ اس کیلئے سماج میں سمجھ پیدا کرنی ہوگی۔ گائے انسان کی خدمت کیلئے ہے نہ کہ انسان گائے کی، یہ طے کرنا ہی ہوگا کہ فوقیت کسے حاصل ہو، گائے کو یا انسان کو۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:09؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

«
»

افریقہ کے الفت کدے میں

مدارس میں میڈیا کی تعلیم: وقت کی اہم ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے