ملک کے امن وامان کوآگ لگانا چاہتی ہیں فرقہ پرست طاقتیں

ٹرین کے اندر تبلیغی جماعت کے اراکین پر حملہ غلط تھا مگر جس پرتشدد انداز میں اس کا ردعمل سامنے آیا وہ بھی قابل تحسین نہیں تھا۔ اس سے علاقے میں آگ لگ سکتی تھی اور اس کی لپٹیں پورے مغربی یوپی کو جلاسکتی تھیں جس کی تپش یقینی طور پر ریاست بھر میں محسوس کی جاتی۔ خوش قسمتی سے حالات کنٹرول میں آگئے اور ایک بڑا نقصان ہونے سے بچ گیا۔ حالانکہ مغربی اترپردیش میں دوسرے معمولی واقعات کو بھی تل کا تاڑ اور رائی کا پہاڑ بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔دیوبند میں ایک شخص کی داڑھی منڈے جانے کے واقعے نے بھی اشتعال پھیلانے کا کام کیا۔حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ اس نے خود اپنی داڑھی منڈوائی تھی اوراسے ایک فرقہ
وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ادھر متھرا کے سونکھ میں دومختلف فرقوں کے لڑکے اور لڑکی کے عشق نے ماحول کو بگاڑنے کا کام کیا۔ مظفر نگر میں بھی اسی قسم کا معاملہ سامنے آیا جب الگ الگ فرقوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکی نے محبت کو ناکام ہوتے دیکھ خودکشی کرلی۔حالانکہ ان سبھی واقعات میں حکومت ،انتظامیہ اور پولس کا رول بہتر رہا جنھوں نے حالات کو بگڑنے سے پہلے ہی قابو میں کرلیا۔اصل میں مغربی اترپردیش کو آئندہ ودھان سبھا الیکشن سے پہلے آگ لگانے کی کوشش ہورہی ہے کیونکہ مظفرنگر دنگوں کی فصل فرقہ پرست طاقتیں کاٹ چکی ہیں اور اب اس سے بھی بڑا دنگا ان کے مفاد میں نظر آتا ہے۔
امن پسند جماعت اور پرتشدد واقعات
شاملی ضلع کے کاندھلہ میں تبلیغی جماعت کے لوگوں نے دہلی۔کاندھلا ٹرین میں سوار کچھ نوجوانوں کی طرف سے اپنے پانچ ارکان کے ساتھ مبینہ مارپیٹ کی مخالفت میں جومظاہرہ کیا گیا وہ پرتشدد ہو گیا۔بھیڑ نے پولیس تھانے کا گھیراؤ کیا، پتھر پھینکے اور گاڑیوں میں آگ لگا دی۔ اس واقعہ میں 16 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔متاثرین میں سے ایک فاروق علی نے ریلوے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ پانچ شرارتی عناصر نے مسافروں کے ساتھ مارپیٹ کی، ان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کا سامان لوٹ لیا۔تشدد کے بعد شہر میں سیکورٹی سخت کر دی گئی اور اضافی پولیس فورس کو تعینات کر دیا گیا ۔اس سلسلے میں پولیس نے بتایا کہ پرتشدد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے گئے اور لاٹھی چارج کیا گیا جس میں ایک شخص زخمی ہو گیا۔کاندھلہ میں ٹکراؤ کی اطلاع پر کیرانہ میں کچھ لوگ گھروں سے نکل آئے اور مارکیٹ بند کرا دیا۔ کاندھلا اڈے پر بھیڑ نے جام لگا دیا۔ پانی پت روڈ سے کیرانہ کی طرف آنے والی روڈ ویز بس میں پتھراؤ کیا گیا۔واقعہ کے وقت کیرانہ کی فورس کاندھلہ بھیجی گئی۔ شاملی ضلع میں پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپ کے بعد ریلوے پولیس نے کہا کہ اس نے ایک ٹرین میں ایک مذہبی گروپ کے ارکان پر مبینہ حملے کے معاملے میں پانچ لوگوں کو نامزد کیا ہے اور انہیں پکڑنے کی کوشش جاری ہیں۔غور طلب ہے کہ مغربی اتر پردیش میں شاملی اور مظفرنگر سمیت ارد گرد کے اضلاع کو ستمبر 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان میں 60 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے،درجنوں خواتین کے ساتھ ریپ ہوا تھا اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔متاثرین میں بیشتر مسلمان تھے اور موضوع پر سیاست بھی خوب ہوئی تھی۔
علماء کی طرف سے مذمت
ٹرین میں تبلیغی جماعت کے ساتھ غیرسماجی عناصر کی طرف سے بدسلوکی اور مارپیٹ کے واقعہ کو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے بدقسمتی قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ ٹرین میں ہوئی مارپیٹ تشویش کا موضوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز اور ریاستی حکومت کو چاہئے کہ بڑے وبال کا سبب بننے والے ان چھوٹے چھوٹے واقعات کو روکنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے۔ انہوں نے ٹرین اور بسوں میں سفر کرنے والوں کی حفاظت مضبوط کئے جانے اور ایسے واقعات کی تکرار نہ ہونے دینے کا حکومت سے مطالبہ کیا۔ غورطلب ہے کہ دیوبند کے علاقے میں ٹرینوں اور بسوں میں تبلیغی جماعت کے لوگوں اور مدرسہ کے طالب علموں کے ساتھ سلسلہ وار ڈھنگ سے غیرسماجی عناصر کی طرف سے مارپیٹ کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری اور ممبرپارلیمنٹ مولانا محمودمدنی نے تبلیغی جماعت پرحملہ اور اس کی غلط شبیہ بناکر پیش کرنے کی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے ملک کے لیے تباہ کن بتایا۔مولانا مدنی نے کہاکہ تبلیغی جماعت کو خطرناک قراردے کر اس پرحملہ کا جو ماحول بنایا جارہاہے وہ بدبختی کی بات ہے،اسے برداشت نہیں کیا جائے گا،ایسے لوگوں پرحملہ کا غلط رد عمل پیداہوگا۔انھوں نے مزیدکہا کہ امن پسند لوگوں پرحملہ اورپرتشدد ردعمل دونوں غلط ہے اور ہم ان دونوں میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔پولس انتظامیہ اور ملک کی ایجنسیوں کے افراد میں کسی خاص فرقے اوراس سے منسلک کسی جماعت یا تنظیم کے سلسلے میں جو ذہن بنایا جارہاہے،وہ ملک کے لیے خطرناک ہے،اس سے اس کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کے ختم ہونے کا خدشہ ہے۔مذہبی اور بے ضرردینی کاموں میں لگے لوگوں پر جس سماج کے لوگ حملہ کرتے ہیں اس کے بیمار اور اخلاقی زوال زدہ ہونے کو ظاہر کرتاہے۔مولانامدنی نے مرکزی اور صوبائی سرکار کو اس طرف متوجہ کیا کہ تبلیغی جماعت کے سلسلے میں جو ذہن بنایا جارہاہے،اس کے خلاف قدم اٹھائیں۔انھوں نے سبھی لوگوں سے صبرو تحمل سے کام لینے کی بھی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولاناحکیم الدین قاسمی نے شاملی ،کاندھلہ وغیرہ کے دورے اور پولس افسران سے ملاقات کے بعد بتایا کہ حالات کو خراب کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے ۔
ہنگامے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش
ہنگامے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیوسینا کی مقامی یونٹ نے یہاں مظاہرہ شروع کردیا اور مطالبہ کیا کہ سماج وادی پارٹی ممبر اسمبلی ناہید حسن کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے جن کی قیادت میں یہ ہنگامہ ہوا ہے۔ شیوسینا کا کہنا تھا کہ اسمبلی کارکن ہوتے ہوئے انہوں نے ایسا کام کیا جو قابل مذمت ہے۔ انہیں ممبر اسمبلی بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کی رکنیت تحلیل کی جائے۔ ساتھ ہی ان پر غداری کا مقدمہ دائر کیا جائے۔ انہوں نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت ایسی ذہنیت والے ممبران اسمبلی پر لگام لگائے نہیں تو انجام بھگتنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ممبر اسمبلی کو پورے عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ ایک اچھا پیغام معاشرے میں دینا چاہئے لیکن شاملی کے ممبر اسمبلی نے ایسا نہیں کیا۔ ان پر کارروائی ہونی چاہئے۔
سماجوادی ممبر اسمبلی سوالوں کے گھیرے میں
کاندھلہ میں ہنگامہ اور پرتشدد واقعات کو لے کر سماج وادی پارٹی کے ممبر اسمبلی ناہید حسن سوالوں کے گھیرے میں ہیں کیونکہ انھیں قیادت میں مظاہرہ شروع ہوا تھا اور ہزاروں لوگ ریل ٹریک پر جم گئے تھے،نیز دو ٹرینوں پر جم کر پتھراؤ بھی کیا تھا۔جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور ہوائی فائرنگ کی ۔ ہجوم نے کاندھلہ تھانے میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور کئی گاڑیوں میں آگ لگا دی۔کئی ٹرینیں لیٹ ہوگئیں اور مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔کئی جانب سے ناہید حسن کی گرفتاری کی مانگ اٹھ رہی ہے مگر اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ یہان یہ بات قابل توجہ ہے کہ جس قسم کا پرتشدد مظاہرہ یہاں ہوا،اس سے قبل تبلیغی جماعت کے لوگوں کی طرف سے ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور ایک دینی جماعت کے لوگوں کی طرف سے اس قسم کی حرکت مناسب بھی نہیں ہے۔ خون خرابہ سیاستدانوں کو ہی زیب دیتا ہے۔ پورے معاملے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہنگامہ اصل میں سیاسی تھا اور سیاست دانوں کی دخل اندازی نے اسے
پرتشدد بنا دیا تھا۔ حالانکہ ضرورت اس بات کہ ہے کہ جو لوگ اس کے لئے ذمہ دار تھے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 
دیوبند میں فضا بگاڑنے کی کوشش
دیوبند (سہارنپور)میں فضا خراب کرنے کے مقصد سے شرارتی عناصر نے ایک نوجوان کے ساتھ مارپیٹ کی اور اس کی داڑھی کے بال کاٹ ڈالے۔ واقعہ سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔موقع پر پہنچے حکام نے لوگوں کو سمجھابجھا کر معاملہ ٹھنڈا کیا۔ پولیس نے دونوں کمیونٹی کے لوگوں سے افواہوں پر توجہ نہ دیتے ہوئے امن بنانے کی اپیل کی ہے۔واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ سنوورنامی ایک شخص جو تھریسنگ مشین پر ملازمت کرتا ہے۔ دیر رات جنگل سے گزرتے ہوئے اپنے گھر کھانا لینے کے لئے آ رہا تھا۔ سنوور کے مطابق راستے میں پیچھے سے آئے چار موٹر سائیکل سوار نامعلوم نوجوانوں نے اس کے ساتھ گالی گلوج شروع کر دی۔ الزام ہے کہ انہی نوجوانوں نے اس کی داڑھی کے بال کاٹ دئے اور فرار ہو گئے۔ سنوور بیہوش ہو گیا تھا۔ ہوش آنے پر جب اس نے اپنی داڑھی کٹی دیکھی تو معاملہ کی جانکاری لوگوں کودی۔اس واقعہ کی خبرعلاقے میں آگ کی طرح پھیلی۔ اس وجہ سے ارد گرد کے گاؤں سے بھی لوگ جمع ہو گئے۔ آنا فانا میں علاقے کے ایس ایس پی ، ایس پی، ایس ڈی ایم رد گرد کے کئی تھانوں کی پولیس فورس لے کر پہنچ گئے۔متاثرہ شخص سے پورے معاملے کی معلومات حاصل کی۔انھوں نے مقامی لوگوں کو ملزموں کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کراتے ہوئے پرسکون کیا۔. اس کے بعد پولیس نے علاقے میں تابڑ توڑ چھاپاماری کرتے ہوئے تقریبا ایک درجن لوگوں کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا ہے۔ انچارج انسپکٹر برجموہن یادو نے بتایا کہ واقعہ کے مجرم نوجوانوں کو کسی بھی صورت میں بخشا نہیں جائے گا۔ متاثرہ شخص کی تحریر کی بنیاد پر نامعلوم نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیاہے۔ وہیں علاقے میں سیکورٹی کے نقطہ نظر سے پولیس فورس کو تعینات کر دیا گیا ہے۔حالانکہ مقامی لوگوں نے کہا کہ ہندو۔مسلم بھائی چارے کو بگڑنے نہیں دیا جائے گا۔اس پورے واقعے میں تفتیش کے بعد یہ سچائی سامنے آئی کہ جس شخص نے زبردستی داڑھی منڈے جانے کی بات کہی تھی اس نے خود اپنی مرضی سے داڑھی صاف کی تھی، مگر فرقہ وارانہ فضا بگڑتے بگڑتے بچی۔ 
ادھر متھرا کے سونکھ علاقے میں بھی اشتعال انگیزی کی گئی جس کا سبب یہ بتایا گیا کہ ایک ہندو طالبہ اپنے کسی مسلمان عاشق کے ساتھ فرار ہوگئی تھی اور شکایت کے باوجود پولس اسے برآمد کرنے میں ناکام رہی تھی۔
دلت۔مسلم ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش
اختلافات اور جھگڑوں کے چھوٹے چھوٹے واقعات ہمارے سماج کا معمول ہیں مگر جس طرح سے مغربی یوپی میں انھیں بڑھا چڑھا کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہوتی ہے وہ خطرناک ہے۔اس سے پورے سماج کا نقصان ہے اور مسلمانوں کا زیادہ نقصان ہے۔ یہاں خاص طور پر دلتوں اور مسلمانوں کے بیچ ٹکراؤ پیدا کرنے کی سیاسی چال چلی جارہی ہے جس سے مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح مظفر نگر دنگوں نے جاٹ اور مسلم ووٹروں کو بانٹ دیا اور اس کا سیدھا فائدہ فرقہ پرستوں کو ہوا ہے اسی طرح اب دلت اور مسلمانوں کے بیچ ٹکراؤ پیدا کرنے کی سازش رچی جارہی ہے تاکہ ۲۲فیصددلت اور ۳۵فیصد مسلمان ووٹ کو اس خطے میں بے وقعت کیا جاسکے۔ فسادات میں عام طور پر نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی انھیں مشتعل کیا جاتا ہے اور ردعمل پر اکسایا جاتا ہے۔ آج
ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اشتعال میں نہ آئیں اور سوجھ بوجھ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے