ملاقات پر پابندی بدترین ظلم ہے

حفیظ نعمانی

ان تمام محبت کرنے والوں کو سلام اور شکریہ کہ جنہوں نے عزیزوں سے زیادہ فون کئے اور معلوم کیا کہ طبیعت کیسی ہے؟ اور میرے اس جواب سے کہ طبیعت وہ بھی اچھی ہوتی ہے کہ آدمی وقت پر کھاتا رہے عبادت کرتا رہے اور اسے ضرورت بھر نیند آتی رہے۔ لیکن جیسی طبیعت مضمون لکھنے کے لئے اور وہ بھی میری طرح کم از کم آٹھ گھنٹے سوچنے کے بعد لکھنے کے لئے اچھی ہونا چاہئے وہ اب بھی نہیں ہے۔ لیکن آج یہ پڑھنے کے بعد کہ سری نگر کے خطرناک کشمیری قید ہوکر لکھنؤ، نینی، آگرہ اور وارانسی میں بھی بند ہیں اور ان کے عزیز بیوی بیٹیاں بیٹے 21 دن میں تلاش کرتے کرتے آئے ہیں اور صرف اپنے عزیزوں کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں بھی انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اور وہ جیل کے افسروں کی خوشامد کررہے ہیں ان کو ان کے بچوں کا واسطہ دے رہے ہیں انہیں دعائیں دے رہے ہیں لیکن اپنی ہر کوشش میں اس لئے ناکام ہیں کہ حکومت کا فرمان یہ ہے۔
”درخواست کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ لگاکر دینا ہوگا۔ درخواست فارموں کو ان کی ریاستوں میں بھیج کر تصدیق کرائی جائے گی کہ کیا ملاقات کرنے والوں نے اپنا نام پتہ اور شناخت صحیح لکھی ہے۔ پھر اس رپورٹ سے حکومت کو آگاہ کردیا جائے گا اس کے بعد جیل کے افسروں کو ہدایت بھیجی جائے گی اور پھر ملاقات کرائی جائے گی۔“
1978 ء میں سنبھل میں فساد ہوگیا تھا اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ فساد میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے پوری یا ادھوری طرح حصہ لیا ہوتا ہے وہ تو روپوش ہوجاتے ہیں۔ اور جو کچھ نہیں کرتے وہ یہ سوچ کر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم سے کیا مطلب اور ہمارے ملک کی پولیس ذراسا غور کئے بغیر ان کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے اور تھانے میں لے جاکر پہلے دل بھر کے ان کو مارتی اور توڑتی ہے اس کے بعد مختلف واقعات کا ذمہ دار قرار دے کر سنگین دفعات لگاکر ان کو بند کردیتی ہے اور جھنڈا لہرا دیتی ہے کہ اس نے مجرموں کو گرفتار کرلیا۔ یہی کہانی سنبھل میں دہرائی گئی اور جتنوں کو بھی گرفتار کیا گیا وہ سب بے گناہ تھے۔ اور ان میں کئی لڑکے میرے خالہ زاد، چچازاد اور دور کے رشتہ دار تھے۔ سنبھل میں کوئی سمجھدار مسلمان یا ہندو ایسا نہیں تھا جو یہ نہ جانتا ہو کہ میں سنبھل کا رہنے والا ہوں اور برسہابرس سے لکھنؤ میں رہتا ہوں۔ اس بناء پر ہر تھوڑی دیر کے بعد فون آرہا تھا کہ سنبھل آجاؤ سنبھل کا ماحول ایسا ہورہا ہے کہ جو بازار جاتا ہے اس کی طرف اگر کوئی ہندو انگلی اٹھاکر یہ کہہ دے کہ یہ بھی تھا تو اُسے بند کردیا جاتا ہے۔
آخرکار خاندان کے دباؤ کے بعد میں گیا تو کرفیو جاری تھا۔ یہ قسمت کی بات تھی کہ دوسرے دن کرفیو کھلا تو میں حالات کے جائزہ کیلئے نکلا اور گھر کے باہر نکلا ہی تھا کہ سامنے سے پولیس کی جیپ آتی نظر آئی میں رُکا رہا کہ یہ نکل جائے لیکن وہ میرے پاس آکر رُک گئی اور اس کی اگلی سیٹ سے ایک صاحب اُترے اور مجھ سے معلوم کیا کہ کیا آپ یہیں رہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ گھر میرا بھی ہے مگر میں لکھنؤ میں رہتا ہوں۔ انہوں نے معلوم کیا کہ ایسے حالات میں کیوں آگئے؟ میں نے بتایا کہ میں سابق وزیراعلیٰ تیواری جی اور کانگریس کے لیڈروں کے وفد کو لے کر آیا تھا۔ میرے کئی عزیز لڑکے گرفتار ہیں جن کا کوئی تعلق کسی معاملہ سے نہیں ہے ان کے مقدمہ کو دیکھنا ہے۔ اس لئے میں رُک گیا تب انہوں نے بتایا کہ وہ ڈی ایم اجے وکرم سنگھ ہیں اور ایسے آدمی کی تلاش میں ہیں جو حالات کو معمول پر لانے میں ان کی مدد کرسکے۔ میں نے کہا کہ میں تو اسی لئے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ شام کو کرفیو کھلے تو آپ دو چار ذمہ دار حضرات کو لے کر گیسٹ ہاؤس آجایئے۔
گیسٹ ہاؤس میں ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی اور ہم نے ان کی ہر بات مان لی اور انہوں نے ہماری ساری باتیں مان لیں۔ اس کے بعد وہ مراد آباد چلے گئے۔ جیل میں جو جاتاہے وہ حوالات والی بیرک میں جاتا ہے اور حوالات سے روز دس پندرہ رِہا بھی ہوتے ہیں۔ بعض لوگ جیل کے پھاٹک پر انتظار کرتے تھے اور جو رِہا ہوکر نکلتے تھے ان سے سنبھل والوں کا حال معلوم کرتے تھے اور بتانے والے سچ اور جھوٹ کے افسانے سنا دیتے تھے اور ان خبروں سے ہر گھر میں رونا دھونا شروع ہوجاتا تھا۔ سنبھل کے عزیز مجھے پکڑے بیٹھے تھے اور آئے دن کسی نہ کسی معاملہ میں مراد آباد جانا ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے ڈی ایم سے کہا کہ یہ مصلحت سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ نے ملاقات کیوں بند کررکھی ہے؟ ہر دن جیل سے رِہا ہونے والے جھوٹی سچی خبریں لے کر آتے ہیں اور ہر دن سب کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آج ہی آپ ملاقات کھول دیجئے۔ اور انہوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو اسی وقت فون کردیا اور دوسرے دن ساری دیپاسرائے جیل کے دروازہ پر تھی۔
حکومت بی جے پی کی ہے مینکا گاندھی وزیر نہ سہی سابق وزیر اور ممبر پارلیمنٹ تو ہیں ان سے معلوم کیجئے کہ جب پیلی بھیت میں ورون گاندھی کو مایاوتی نے بند کردیا تھا تو صرف دو دن میں انہوں نے مایاوتی کو وہ سب کہہ دیا تھا کہ اگر تم ماں ہوتیں تو اولاد کا درد سمجھ سکتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم جانتے ہیں کہ جیل کے افسروں کے اختیارات اس وقت شروع ہوتے ہیں جب حکومت انہیں اختیار دے دے اور حکومت یہ ہمت اس وقت کرے گی جب اس کے دل سے ان لیڈروں کا ڈر نکل جائے۔ یہ ڈر نہیں تو کیا ہے کہ الہ آباد کے عتیق اور مؤ کے مختار انصاری کی طرح ایسی جیلوں میں ڈالو جہاں جو بند ہوں وہ صورت سے تو آدمی ہیں لیکن سیرت سے جانور ہوں۔
ہم نہیں جانتے حکومت نے کیا سوچا ہے؟ وہ جو سری نگر سے باندھ کر جگہ جگہ بھیجے گئے ہیں وہ تو آگ بگولہ ہو ہی رہے ہوں گے ان کے علاوہ ان کا کیا حال ہوگا جو پاگلوں کی طرح انہیں تلاش کرتے کرتے لکھنؤ، آگرہ، نینی، الہ آباد اور وارانسی پہنچے اور ان کو معلوم ہوا کہ ہیں تو مگر ملاقات کے لئے اشک بلبل اور ہما کا پر لاؤ تو ملاقات ہوسکتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ان کا کیا قصور ہے اور اگر ہے تو ان کا تو کوئی قصور نہیں ہے جو انہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ کیا مشکل ہے کہ جیل کے افسروں سے کہہ دیا جائے کہ موبائل میں ان کے فوٹو لے کر جو ملنے آئے ہیں ان کو دکھائیں جو اندر بند ہیں وہ اگر ان کو دیکھ کر جذبات میں بے حال ہوجائیں تو سچے ہیں اور اگر سنجیدہ ہوجائیں تو مشکوک ہوں گے۔ اور یہی اندر والوں کے فوٹو لے کر باہر والوں کو دکھائیں ہر تجربہ کار آدمی سمجھ جائے گا کہ رشتے سچے ہیں۔ اگر حکومت وہ رویہ رکھے گی جو 22  دن سے رکھے ہوئے ہے تو پھر حکومت کی نیت پر شبہ کرنے والوں کے بارے میں کچھ بھی کہنا غلط ہوگا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

27اگست2019(فکروخبر)

 

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے