اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت

حفیظ نعمانی

یہ اچھا ہوا یا برا یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ ہمیں کسی نے وزیر بنایا اور نہ ہم نے بننا چاہا۔ اس لئے ہم یہ نہیں جانتے کہ جسے وزیر بنایا جاتاہے اور جو محکمہ اسے دیا جاتا ہے اس کے ذمہ صرف اس محکمہ کے ذریعہ ملک اور قوم کی خدمت ہوتی ہے یا اس سے اس کے علاوہ پارٹی کے کام یا اپنے لیڈر کی شان میں جھوٹا سچا قصیدہ بھی پڑھنا ہوتا ہے؟ ہم برسوں سے مختار عباس نقوی کو وزیر بنا دیکھ رہے ہیں سیاسی زبان میں وہ بی جے پی کا مسلم چہرہ ہیں۔ اور اس لئے جب ایک دوسرے مسلم چہرہ پر نوخیز لڑکیوں نے تیز اندازی کی اور انہیں حکومت چھوڑتے ہی بنی اس وقت نقوی کی عزت دل میں بڑھی کہ برسوں میں ایک تیر بھی ان کی طرف نہیں آیا۔
اپنی پارٹی کی تعریف کرنا اور حکومت کا قصیدہ پڑھنا تو اُن کے فرائض میں ہے، تو کیسے نہ کرتے لیکن بی جے پی کی اقلیتی مورچہ کی مجلس عاملہ جس میں یقیناًاکثریت مسلمانوں کی ہوگی اس کی میٹنگ میں اتنے نام کے ہی سہی مسلمانوں کے ہوتے ہوئے وزیراعظم کے بارے میں اونٹ برابر جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے انہیں خیال کیوں نہیں آیا کہ رائی کا پہاڑ اور پھانس کا بانس بنتا ہے لیکن جہاں رائی کی ’ر‘ بھی نہ ہو اور بانس کی ’ب‘ بھی نہ ہو اس کے باوجود پوری تقریر کرنا کیا یہ بھی ان کے فرائض میں داخل ہے؟
انہوں نے آئی اے ایس کے مقابلوں میں مسلمانوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ اقلیتی سماج کے اُمیدوار آئی اے ایس سروس میں کم ہورہے تھے اس سال 131 اُمیدوار منتخب ہوئے جن میں 51 مسلم سماج سے ہیں۔ نقوی صاحب جب اقلیتی سماج کہتے ہیں تو اس سے مراد تمام اقلیتیں نہیں بلکہ صرف مسلم مراد ہوتے ہیں اور پھر وہ مسلم سماج بھی کہتے ہیں۔ اگر یہ اخبار کی غلطی ہے تو ان سے کچھ نہیں کہتا اور اگر انہوں نے اقلیتی سماج اور مسلم سماج کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو وہ آئندہ نہ کہیں، ہندوؤں کو ہمیشہ اٹل جی نے کہا ہے کہ ہم نے ہندو سماج کو بچا لیا۔ مسلم مذہب ہے سماج نہیں ہے ہندو اس لئے سماج ہے کہ وہ مذہب نہیں ہے یہ تو نقوی صاحب جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے صرف ختم نبوت کو نہیں مانا تو ان کو اسلام سے نکال دیا اب وہ مسلم نہیں ہیں اور اگر مسلم سماج ہوتا تو وہ مسلمان رہتے۔ یہ تو بات میں بات نکل آئی عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئی اے ایس کے انتخاب سے اور وزیراعظم سے کیا مطلب؟ وہ تو ایک امتحان ہے لڑکے تیاری کرتے ہیں دردمند مسلمان ان کی کوچنگ کراتے اور انہیں محنت کا پھل ملتا ہے۔ دوسرے مذہب کے بچوں کے مقابلہ میں جب تک مسلمان بچوں نے یہ سوچا کہ ہم کو کون آئی اے ایس افسر بنا دے گا؟ نہ انہوں نے محنت کی نہ وہ پاس ہوئے بعد میں انہوں نے دیکھا کہ مسلمان لڑکے لئے گئے تو دوسروں کی بھی ہمت ہوئی۔
نقوی صاحب نے کہا کہ مودی نے بغیر منھ بھرائی کے مسلمانوں کو مضبوط کیا۔ یہ ان جیسے سنجیدہ وزیر کو نہیں کہنا چاہئے تھا اس لئے کہ ان چار برسوں کے بڑے جھوٹوں میں یہ بھی گنا جائے گا۔ مودی کا مشن مسلمانوں کو کمزور کرنا تھا اور جن کی تعداد 17 فیصدی ہو اور سرکاری ملازمت کے دروازے جن پر بند ہوں وہ اپنے بل پر اگر زندہ رہ جائیں تب بھی بہت ہے ورنہ وہ بغیر سہارے کے نہیں رہ سکتے اور مودی جی نے مسلمانوں سے زیادہ ان کے سہاروں پر اتنے اوچھے حملے کئے کہ انہیں اپنے وجود کے لالے پڑگئے۔ اس کا ثبوت دیکھنا ہو تو صرف اترپردیش اور گجرات کے الیکشن کو دیکھ لیا جائے کہ احمد پٹیل جیسا پرانا سیاسی جسے مودی اور امت شاہ برسوں سے جانتے ہیں کہ وہ نہ تنگ نظر ہے نہ پاکستانی ہے اور نہ دہشت گرد۔ انہیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے محمود غزنوی بنادیا اور وہ جن کو گجرات کے الیکشن میں سب سے آگے ہونا چاہئے تھا وہ منھ چھپاتے پھر رہے تھے۔ اور وہ اترپردیش کا نیک نام وزیراعلیٰ جن کے خلاف ہر سطح کے افسروں کے علاوہ فوج نے بھی انکوائری کرلی اور وہ پاک صاف نکلا اسے مسلمانوں سے تعلق بناکر ہندوؤں میں اتنا ذلیل کیا کہ اسے کہنا پڑا کہ آخر میں بھی تو ہندو ہوں۔
آزادی کے بعد کانگریس نے اردو کے ساتھ جو کیا وہ صرف اس لئے کیا کہ اسلام کا ذخیرہ اردو میں منتقل ہوگیا تھا۔ وہ ہندو جن کی مادری زبان اردو تھی یا جو اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر تھے وہ تو اردو کی جدوجہد مین شریک رہے لیکن عام ہندوؤں نے زبانوں کو تقسیم کرلیا اور اردو کو مسلمانوں کی زبان بتاکر اسے غیرملکی زبانوں کے خانہ میں رکھ دیا۔ اور یہ آخری بات ہے کہ مودی کابینہ کی ایک وزیر اسمرتی ایرانی کے ہاتھ میں اردو میں لکھی ایک درخواست آئی تو انہوں نے یہ کہہ کر پھینک دی کہ اردو تو میں چھو بھی نہیں سکتی۔
اقلیتی امورکے وزیر نے اور بھی قصیدہ پڑھا اور مسلم طلباء کے وظیفوں کا طعنہ بھی دیا۔ اصل مسئلہ مسلمانوں کو مضبوط کرنے اور کمزور کرنے کا مسئلہ ہے اور وزیر بننے کے بعد نہ آنکھ کی روشنی کم ہوتی ہے نہ کان کی سماعت اور یہ ہم کیسے مان لیں کہ جو نقوی قدم سے قدم ملاکر آئے دن چلتے نظر آتے ہیں وہ نہ ان باتوں کو سنیں یا دیکھیں جن کو ہم سیکڑوں کلومیٹر دور رہ کر سن اور دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ بتانا پڑے گا کہ جس جس کام سے مسلمان جڑے ہوئے تھے ان سب کی جڑیں صرف اس لئے کاٹ دی گئیں کہ مسلمان خوشحال نہ رہ سکیں۔ جانوروں کی خرید فروخت پھر ان کی کھالیں ان کا گوشت اور ان کی ہڈیاں ان سے کروڑوں مسلمان جڑا ہوا تھا آج یہ حال ہے کہ پورے اترپردیش میں ایک بھی سلاٹر ہاؤس نہیں بنایا گیا اور جو برسہا برس سے چل رہے تھے ان کو امت شاہ نے خود یہ کہہ کر گرا دیا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ غیرقانونی سلاٹر ہاؤس گرادیں گے۔
جب کبھی کسی منصف مزاج ہندو نے 2014 ء سے 2019 ء تک کی تاریخ لکھی تو وہ لکھے گا کہ نریندر نام کے مودی نے ملک کا تو ستیاناس کردیا اور بیڑا غرق کردیا لیکن ہندو کو یہ یقین دلا دیا کہ حکومت نہ کانگریس کی ہے نہ بی جے پی کی وہ صرف ہندو کی ہے اور مسلمانوں کے دماغ میں جو یہ خیال تھا کہ اس ملک کا ہمارے اوپر حق ہے اور اس کی خدمت ہمارا فرض ہے سو مسلمانوں کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں اور جو پارٹیاں ان کو ساتھ لگائیں وہ دوغلے ہندو ہیں یہ ان ہندوؤں کی حکومت ہے جس میں ان کو حکومت کی بھی آزادی ہے اور غنڈہ گردی کی بھی اتنی آزادی ہے کہ اگر کانوڑیوں کی طرح غنڈہ گردی کریں گے تو ان کے اوپر پھولوں کی بارش ہوگی اور وہ کسی کو قتل کردیں گے تو پولیس یا عدالت کچھ نہیں بولیں گی۔ نقوی صاحب نے کہا ہے کہ جو کام مسلمانوں کے لئے 48 برس میں نہیں ہوئے وہ مودی نے 48 گھنٹے میں کردیئے۔ اور ہم نقوی صاحب کو بتا رہے ہیں ہم اور ہمارے بچے یا نواسے 70 سال میں اتنے کمزور نہیں ہوئے جتنا مودی سرکار نے چار سال میں کردیا مودی کے دست راست امت شاہ کہتے ہیں کہ جاب کا مطلب نوکری نہیں کام ہے اور جاب ہم نے سب کو دے دیا۔ اس کا جواب تو وہ سب دیں گے جو بھوکے مررہے ہیں۔ ہمارا مشورہ صرف یہ ہے کہ اگر جاب روزگار نوکری اور کام کے فرق کو سب جانتے ہوتے تو سب کسی پارٹی کے صدر ہوچکے ہوتے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 
29؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

دہشت کا سناتن چہرہ

کچی سبزیاں اور ان کے کرشماتی اثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے