بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد عبد اللہ جاوید
کورونا وائرس کی مصیبت نے دورحاضر کی ترقی یافتہ دنیا کی ایک عجیب سی حالت کردی ہے۔یہ دنیا باوجود اپنی وسعتوں کے محدودہوگئی ہے۔ قدیم وجدید وسائل سے لیس ہوکر بھی اس جان لیوا مرض سے حفاظت اورعلاج کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ لیکن اس میں کامیابی تو دور‘ اس مرض کے حقیقی اسباب کا پتا لگا نے میں بھی اسے کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔لہذا اس وباء سے بچنے کی تدبیر اسکے علاوہ کچھ اورسجھائی نہیں دی کہ دنیا ہی کو گھر میں محدود کردے۔ یہ دنیا وہ دنیا ہے جو برق رفتار ترقی کی وجہ سے سمٹ کر گاؤں کی شکل اختیار کرلی تھی‘ اب اس وباء نے اس ترقی کو مزید سمیٹ کر گھر کی چہاردیواری تک محدود کردیا۔جس دنیا کواپنی ترقی پر اس قدر ناز تھا وہ ایک انجانے اور ان دیکھے وائرس کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔
دنیا کے اس نئے روپ نے کئی حقیقتوں پرسے پردہ اٹھایا ہے۔کہیں دنیا کی بے ثباتی تو کہیں انسانی ترقی کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ کہیں انسان کے اپنے اندازوں کا کھوکھلا ہونا واضح ہوتا ہے تو کہیں خدا سے بے نیازی کی سطحیت عیاں ہوجاتی ہے۔کہیں وسائل کے ہوتے ہوئے استفادہ ممکن نہیں معلوم ہوتا ہے تو کہیں خدا کی ناراضگی کا پتا چلتا ہے۔کہیں موت کی حقیقت واضح ہوتی ہے تو کہیں موت سے ڈرکا خوف نمایاں ہے۔کہیں نفسیاتی بیماریوں کا خطرہ ہے تو کہیں کمزورسماجی تعلقات کی پیشن گوئی۔ذیل میں کچھ ایسے ہی پہلوؤں کی وضاحت کے ساتھ قرآنی تعلیمات پیش کی جارہی ہیں تاکہ نہ صرف حالات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھنے کی توفیق ملے بلکہ انہیں بہتر بنانے اورانسانوں کو صحیح راہ دکھانے کیلئے درکار ایمانی حرارت اور قوت بھی نصیب ہو۔
(۱) انسانی ترقی کی حقیقت ہی کو دیکھ لیجئے۔کہاں انسان کی ترقی کی وہ اونچائیاں جو گہرے آسمانوں کے راز افشاں کرتی ہے اور خلاء میں موجودکہکشاؤں سے متعلق نت نئے انکشافات کرتی ہے اور کہاں اس کی یہ عاجزی کہ ایک حقیر سے وائرس کی تسخیراس سے ممکن نہیں؟بلاشبہ انسانی ترقی نے سمندروں کی گہرائیوں‘ جنگلوں اور ریگستانوں کی وسعتوں کو زیر کیا ہے‘ لیکن مہینوں گزرنے کے بعد بھی ایک وبائی مرض کی صحیح بنیاد اور اس کے اثرات کا متعین اندازہ نہیں کرسکی۔بتایا جاتا ہے کہ ایک کورونا وائرس کا وزن 0.85اٹوگرام (attogram)ہوتا ہے‘ یعنی اس وزن کے 70بلین وائرس مل کر کسی ایک شخص کو بیمار کرسکتے ہیں‘جن کا وزن بمشکل0.0000005گرام بنتا ہے۔اب دنیا میں جو20لاکھ کے قریب لوگ کورونا وائرس سے بیمار ہیں انہیں صرف ان وائرسوں نے متاثر کیا جن کا مجموعی وزن صرف ایک گرام بنتاہے۔یعنی صرف ایک گرام مقدار کے برابر وائرس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ دنیا کو گھٹنوں کے بل کھڑا کردیا ہے۔لاکھوں لوگ اس وباء سے متاثر ہوئے اور ہزاروں نے اپنی جانیں گواں بیٹھیں‘ اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
یعنی اس وائرس کے آگے دنیا کی عاجزی نے یہ حقیقت عیاں کردی ہے کہ موجودہ ترقی کسی بھی لحاظ سے مکمل نہیں بلکہ ناقص ہے۔جہاں انسان نے خلاء میں کروڑوں میل دور بلیک ہولس(black holes) کے درمیان ہزاروں سال پہلے ہوئے ٹکراؤ کا پتا کشش ثقل کی لہروں (gravitational waves)کے ذریعہ لگایاوہیں اس کے اپنے وجود میں سرائیت کرجانے والے چھوٹے سے وائرس سے بے خبر ہے۔انسانی ترقی‘ خدا سے بے نیازی کے ساتھ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔ انسان کی محض اپنی صلاحیتوں‘ قابلیتوں اور وسائل کے سہارے درپیش مسائل کاحل ممکن نہیں۔جب انسان خدا سے تعلق جوڑ لے‘ تو اس کی تحقیق وتفتیش کی شروعات ہی اس اعلان سے ہوگی"….کہدیجئے کہ ہم پر کوئی مصیبت نہیں آتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے مقدر میں لکھ رکھی ہے۔ وہی ہمارا حامی و مددگار ہے…"قُل لَّن ےُّصِیبَنَ آ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ج ہُوَ مَولٰن َا… (سورہ التوبہ: ۱۵)۔
ترقی کی اصل یہ ہے کہ بساط بھر کوشش کے بعد معاملات اس خدا کے سپرد کردئیے جائیں جو انسانوں کا خالق و مالک ہے‘یہی زندگی اور بندگی کا راز ہے"….سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے‘ پس اسکی بندگی کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو….."….اِلَیہِ ےُرجَعُ الاَمرُ کُلُّہٗ فَاعبُدہُ وَ تَوَکَّل عَلَیہِ(سورہ ھود:۳۲۱)۔اور جب معاملات اس خالق کے سپرد ہوں توظاہر بات ہے اس کا راستہ حق و انصاف اور اعتدال پر مبنی ہوگا۔ایسی ترقی نصیب ہوگی جس سے انسان خود فائدہ حاصل کرے گا اور اس کا ماحول ہر طرح کے ظلم اور حق تلفی سے پاک ہوگا۔کیونکہ وہ پروردگار خود کہتا ہے"….تمہارے رب کا کلام سچائی اور اعتدال کے اعتبار سے کامل ہے….." تَمَّت کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدقًاوَّعَدلاً….(سورہ الانعام:۵۱۱)۔
انسانی ترقی کا یہی اصل راز ہے کہ وہ خدا کے احکامات کے تابع ہو۔انسان چاہے ترقی کی کتنی ہی اونچی منزلیں طے کرلے لیکن طاقت اور عزت کااصل حقداراور سارے فیصلوں کا مالک اللہ ہی ہوگا."…ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں…." اَنَّ القُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیعًا…. (سورہ البقرہ:۵۶۱)۔ایسی انسانی سوچ ہی ترقی وکامیابی کی حقیقی معراج ہے۔اور اسی صحت مند سوچ کے ذریعہ انسان اپنا اوردوسروں کا بھلاکرسکتا ہے۔
(۲) دنیا کی بے ثباتی کو دیکھ لیجئے۔آج دنیا اپنی تمام تروسعتوں کے باوجود محدودہوگئی ہے۔اب معاملہ بالکل ایسا ہے کہ سب کچھ ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہے۔اچھی سے اچھی سواریاں اور کشادہ سڑکیں موجود ہیں‘ لیکن ان سے استفادہ ممکن نہیں۔وسائل موجود ہیں لیکن ان کا استعمال ممکن نہیں۔فیاکٹریاں اور کارخانے موجود ہیں لیکن ان سے کچھ تیار کرنا پہلے جیسا ممکن نہیں۔رشتہ داریاں اور دوستیاں ہیں لیکن انہیں نبھانے کیلئے ملنا جلنا ممکن نہیں۔پیسہ ہے لیکن اس سے جیسا چاہے جب چاہے چیزوں کی خریدوفروخت ممکن نہیں۔سیر وتفریح کے لئے بے شمار مقامات ہیں لیکن ان تک پہنچنا‘ آسمان سے تارے توڑ لانے جیسا مشکل ہے۔کیا قرآن مجید کا یہ فرمان انسانی دلوں کی آواز نہیں ہے؟
….وَمَا الحَےٰوۃُ الدُّنےَآ اِلاَّ مَتَاعُ الغُرُورِ…دنیا کی زندگی توکچھ بھی نہیں محض ایک ظاہر فریب چیز ہے (سورہ آل عمران:۵۸۱)۔
دنیا کی یہ بے ثباتی‘ پل پل گھٹتے لمحوں کا پتا دیتی ہے‘انسان کی قوت اور اس کی شان و شکوت کس قدر ناپائیدار‘ اور بتدریج روبہ زوال ہے‘ واضح کرتی ہے۔کیا خوب کہا قرآن مجیدنے"….جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہونے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے…" مَاعِندَکُم ےَنفَدُ وَمَا عِندَ اللّٰہِ بَاقٍ….(سورہ النحل:۶۹)۔انسان کے مطمع نظر صرف دنیا ہی دنیا ہے‘وہ نفع و نقصان کو دنیا کی محدودیت ہی میں دیکھتا اور سمجھتا ہے‘نتیجہ سامنے ہے‘سوائے مایوسی اور خوف کی نفسیات میں جینے کے اس کے ہاتھ کچھ اورنہیں لگتا۔قرآن مجید اس دنیوی ذہنیت کو اسطرح صحیح رخ دیتا ہے"… تم لوگ دنیاکے فائدے چاہتے ہو‘ حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے…." تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنےَا ق وَاللّٰہُ ےُرِیدُ الاٰخِرَۃَ(سورہ الانفال: ۷۶)۔
اگر دنیا کی اس بے ثباتی کے پیش نظر کسی چیز کا حصول ترجیحی بنیادوں پر اول ہونا چاہئے تو وہ ہے ا س رب کریم کی رحمت "…تیرے رب کی رحمت ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ سمیٹ رہے ہیں…."رَحمَتُ رَبِّکَ خَیرٌ مِّمَّا ےَجمَعُونَ…. (سورہ الزخرف:۲۳)۔ انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی حیثیت ہوا کی سی ہے‘ رحمت نہ ہوتو اس کی ساری زندگی‘بلکہ آخرت بھی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہوگی……. "اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے ساتھ نہ ہو تویقینا تم بہت بڑے خسارے میں مبتلا ہوجاتے"…..فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَکُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (سورہ البقرہ:۴۶)۔
(۳) یہ دن بھی گزرجائیں گے‘اکثر یہ الفاظ مصیبتوں اور آزمائشوں کے دن ٹالنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔کونسی بیماری یا وباء کتنے دن باقی رہے گی؟ آج مصیبت ہے کل نہیں رہے گی‘ یہ دن بھی گزرجائیں گے……یہ انسانی سوچ کی وہ حد ہے جس کی اصل اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کی عدم واقفیت سے تعلق رکھتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ کا علیم‘خبیراورقدیر ہونا معلوم نہ ہو تب ہی ایسی آزاد سوچ جنم لیتی ہے۔ اور اگراللہ تعالیٰ کی قادر مطلق ذات کا علم ہوتویہ گہرا یقین ہوگا کہ دن تو بڑی دور کی بات ہے ایک پل بھی اس کی حکم کے بغیر ٹل نہیں سکتا۔دنوں کے الٹ پھیر اور زمانے کے نشیب وفرازمیں کوئی بڑا وقت درکار نہیں ہوتا بلکہ ان سب کے لئے رب کا ایک حکم ہی کافی ہے"…ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکائے وہ عمل میں آجاتا ہے…."مَآاَمرُنَ آ اِلاَّ وَاحِدَۃٌ کَلَمحٍ م بِالبَصَرِ…. (سورہ القمر: ۰۵)۔انسانوں کا خالق‘ اپنے ارادے میں اس قدر تیز ہے جس کا اندازہ لگاناممکن نہیں‘ بس قرآن کے اس فرمان پر غور کرلیجئے…. "نگاہیں اسکو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے….."لَا تُدرِکُہُ الاَبصَارُ ز وَ ھُوَ ےُدرِکُ الاَبصَارَ…. (سورہ الانعام: ۳۰۱)۔
جس مصیبت یا بیماری کی وجہ سے دن سخت معلوم ہورہے ہیں‘ اس بیماری کادورہونا‘ دن کے گزرجانے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے صحیح علاج اورصحت مند طرز عمل اختیار کرنے سے ممکن ہے۔محض دنوں کے گزرجانے سے مصیبت کے کم ہونے کا گمان کرنا دانشمندی نہیں۔بلکہ دانشمندی رب کی طرف رجوع کرنے اور پورے یقین واعتماد کے ساتھ یہ مان لینے میں ہے "…اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اسکے سوا کوئی اور نہیں جو اسے ٹال سکے اگر وہ تمہارے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اسکے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں…."اِن ےَّمسَسکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ ٓ اِلاَّ ہُوَواِن ےُّرِدکَ بِخَیرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضلِہٖ(سورہ یونس:۷۰۱)۔پھر کسی مرض سے چھٹکارا ملے یانہ ملے‘ رب کے اس فرمان پر سچے دل سے جم جانابھی عقلمندی ہے"….زندگی اور موت ہم دیتے ہیں اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں….."اِنَّا لَنَحنُ نُحیٖ وَ نُمِیتُ وَ نَحنُ الوٰرِثُونَ(سورہ الحجر:۳۲)۔(۴) وباء نہیں مکریہ بھی ایک طرح کا خیال ہے جو عام کیا جارہا ہے۔جب بھی کوئی ایسی وباء پھیلتی ہے تو سازشی نظریہ (conspiracy theory)پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ماہرین (conspiracy theorists)پائے جاتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ کونسی سازش کیسے روبہ عمل لائی جاتی ہے اور اسکے دنیا پرکیسے دیرپا اثرات پڑتے ہیں؟بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جتنی ہلاکتیں ہورہی ہیں ان سے کہیں زیادہ دیگر امراض جیسے نزلہ‘ زکام اور فلو وغیرہ میں مبتلا ہوکر لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں تو ایسے میں کورونا کو عالمی وباء (pandemic)قرار دینا درست نہیں۔ایسا محض مخصوص فائدے کیلئے کیا جارہا ہے جس میں بڑی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔بعض نے تو کورونا اور کوڈ-۹۱کے نام کو بھی سازش قرار دیا ہے اور کہا کہ ان ناموں کے تلمود میں مخصوص معنی و مفاہیم پائے جاتے ہیں جن سے یہودیوں کی بالادستی ثابت ہوتی ہے۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو دی گئی صلاحیتوں سے وہ بلاشبہ شر پھیلاسکتا ہے لیکن اس کے شر پھیلانے کی ایک حد ہوتی ہے۔وہ بڑی سے بڑی چالیں چل سکتا ہے لیکن ان میں کا میاب ہونا‘ایک حد تک ہی ممکن رہتا ہے‘جیسا وہ چاہے ممکن نہیں ہوتا‘قرآن کہتا ہے:
وَقَدْ مَکَرُواْ مَکْرَہُمْ وَعِندَ اللّہِ مَکْرُہُمْ وَإِن کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَالُ (سورہ ابراہیم:۶۴)۔
انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں‘مگر ان کی ہرچال کا توڑ اللہ کے پاس تھا‘اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں۔
خداداد صلاحیتیوں سے ہوسکتا ہے کہ انسان بڑی دوررس اور غیر معمولی سازش رچ لے‘ لیکن اس کا کامیاب ہونا‘اللہ کے اختیارات میں ہے۔ وہ شازش اور مکر ویسے روبہ عمل آہی نہیں سکتا جیسا شرپسند عناصر چاہتے ہیں۔خدا کا ایک قانون ہے‘ یہ دنیا انسانوں کے گزربسر کیلئے بنائی گئی ہے اس لئے یہاں ایسی کوئی چالیں اور سازشیں کارگر نہیں ہوسکتی جن سے انسانوں کا گزربسر ہی خطرے میں پڑجائے۔قرآن مجید نے صاف صاف واضح کردیا کہ اس زمین کو ہر طرح کے فتنے اور فساد سے پاک کردیا گیا ہے لہذا اس میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہئے۔وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا….. (سورہ الاعراف:۶۵)۔
لہذاکورونا وائرس کی وباء کو اسی حقیقت کے پیش نظر دیکھنا چاہئے۔وہ لوگ جو خدا اور مذہب پر یقین ہی نہیں رکھتے ان کا کسی سازشی خیال کی طرف ذہن جاسکتا ہے لیکن اہل ایمان تو اس بات کا گہرا یقین رکھتے ہیں کہ… "کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے……" مَآ اَصَابَ مِن مُّصِیبَۃٍ اِلاَّبِاِذنِ اللّٰہِ…. (سورہ التغابن: ۱۱)۔اوریہ بھی کہ کسی شخص یا گروہ کی حرکت تو دور کی بات ہے‘اللہ کی اجازت کے بغیر بالکل معمولی سا کام بھی نہیں ہوسکتا"….زمین پر گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اللہ تعالیٰ کو علم نہ ہو…………وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا….. (سورہ الانعام:۹۵)۔
موجودہ آزمائشی حالات کو جائزہ اور احتساب کے پہلو سے بھی دیکھنا چاہئے۔کہیں یہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی وجہ سے تو نہیں‘ کہیں اس عالمگیر مصیبت میں ہماری ناقص عبادات اور بداعمالیاں کا دخل تو نہیں؟ایسا تو نہیں کہ دنیا ہی میں ہمارے گناہوں کی سزا ایک طرح کی محرومی سے دوچار کرکے ہمیں دی جارہی ہے؟اورسب کچھ ہوتے ہوئے‘سب کے سب بے بس اور لاچار ہوگئے ہیں؟کیا اس جائزہ اوراحتساب کو قرآن مجید کا یہ بیان سچ توثابت نہیں کررہا؟…. "آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے‘ اگر تم شکر گذار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو……"مَا ےَفعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُم اِن شَکَرتُم وَ ٰ امَنتُم….(سورہ النساء:۷۴۱)۔
(۵) دنیا کی کشش‘انسانی آبادی اور اسکے نقل و حرکت کی وجہ سے ہے‘اوراس کی رونق ان تمام ضرورتوں کے بروقت پورے ہونے سے ہے جن کے بغیر دن کا گزراممکن نہیں۔موجودہ حالات میں ہمیں اس کا بخوبی اندازہ ہورہا ہے۔ گھر کے باہر سنسان سڑکیں‘ غیر آباد پارک‘جگہ جگہ اڑچنیں‘ تنگ راستے وہی ناپسندیدہ منظر پیش کرتے ہیں جس سے اوب کر گھر سے باہر نکلنے کو جی چاہتا ہے۔دنیا کی کشش اور اس کی رونق کا تعلق‘ گھر کے خوبصورت اندرون اورباہر کے دل لبہانے والے مناظر سے ہے‘ باآسانی ملنے والی انسانی ضروریات کی چیزوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات میں سے یہ ہے کہ اس نے دنیا کو ہمارے لئے بڑی پرکشش اور پُررونق بنادیا‘اور اس میں جگہ جگہ اپنی نعمتیں رکھ دیں۔دیکھئے قرآن مجید کس خوبصورت انداز سے یہ باتیں پیش کرتا ہے "…وہی ہے جس نے تمہارے لئے اس زمین کو گہوارہ بنایا اور اسمیں تمہاری خاطر راستے بنادیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو…."الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاَرضَ مَھدًاوَّجَعَلَ لَکُم فِیھَاسُبُلًا لَّعَلَّکُم تَھتَدُونَ…..(سورہ الزخرف: ۰۱)۔" اسکی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کوتلاش کرنا ہے……"وَمِن ٰ اےَاتِہٖ مَنَامُکُم بِالَّیلِ وَالنَّھَارِ وَابتِغَآؤُکُم مِّن فَضلِہٖ۔(سورہ الروم:۳۲)۔"وہی ہے جس نے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیداکردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو……"اَلَّذِی جَعَلَ لَکُم مِّنَ الشَّجَرِ الاَخضَرِنَارًا فَاِذَآ اَنتُم مِّنہُ تُوقِدُونَ۔(سورہ یس:۰۸)۔"اللہ ہی نے تمہارے لئے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ"۔اللّٰہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاَنعَامَ لِتَرکَبُوا مِنھَا وَمِنھَاتَاکُلُونَ۔(سورہ المومن:۹۷)۔
(۶) نعمتوں کا مزہ سازگارماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں توبڑی سے بڑی نعمت بھی مزہ نہیں دیتی‘جیسے کسی بیمار شخص کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتاکہ وہ لذیذکھانوں کا مزہ لے سکے۔ اس لئے قرآن مجید میں جنت کی نعمتوں کے ساتھ اطراف کے ماحول کا بھی ذکر کیا گیاہے کہ وہاں…. بڑے بڑے محلات ہوں گے‘ نفیس فرش بچھا ہوگا‘ گاؤ تکیوں کی قطار لگی ہوگی‘ ایسے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وغیرہ۔ یہی انسانی فطرت ہے کہ وہ نعمتوں کا اسی وقت لطف اٹھاسکتی ہے جب کہ اطراف واکناف کا ماحول سازگار ہو۔موجودہ حالات میں ہر نعمت کے استعمال سے کسی نہ کسی کمی کا احساس ہورہا ہے۔چاہے گھر میں عبادات کا اہتمام ہو یا کوئی کام‘چاہے آرام ہو یا طعام‘ایک عجیب سی تشنگی کااحساس دامن گیر رہتا ہے۔ رب کا فرمان ہے کہ ہمیشہ سازگار ماحول کی اہمیت کویاد رکھنا چاہئے اور ان تمام پہلوؤں سے جائزہ لینا چاہئے جن سے یہ معلوم ہو کہ موجودہ حالات کے بگڑنے میں ہمارا کوئی رول تو نہیں یا انہیں بہتر بنانے کے سلسلے میں ہم پیچھے تو نہیں "…. اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو‘اورزمین میں فساد برپانہ کرو"…… اُذکُرُوآ ٰ الَآءَ اللّٰہِ وَلَا تَعثَوافِی الاَرضِ مُفسِدِینَ…..(سورہ الاعراف:۴۷)۔
(جاری)۔
جواب دیں