مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی

 

( از: سید نصراللہ حسینی سہیل ندوی ناظم دارالعلوم زکریا جالنہ، نائب صدر جمعیت علماء مرہٹواڑہ)

    "ملت اسلامیہ نہایت کسم پرسی کے حالات سے گذر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن عناصر گویا عالمی سطح پر اسلام کی حقیقی روشن تصویر کو داغدار بنانے کے لئے کمر بستہ ہیں جس کے لئے ایڑی چوٹی کا زور متحدہ اور منظم طریقہ سے لگا رہے ہیں۔ ان میں چاہے بنیاد پرست یہودی، عیسائی ہوں، یا زعفرانی تنظیمیں ہوں ان میں آپس میں خاص ربط و ضبط ہے، خیالات اور سازشوں کا تبادلہ اور Action Plan تیار کیا جاتا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر اوراس کے لئے باضابطہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے لیکن کئی مرتبہ یہ سازشیں انہیں پر الٹ جاتی ہیں چونکہ جس دین اسلام کو یہ مٹانا یا ختم کرنا چاہتے ہیں اس دین حق کی حفاظت کی ذمہ داری خود رب العالمین نے لی ہے۔

"پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا"

      کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے عالمی سطح پر دشمنان اسلام مذہب اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے تھے وہاں اسلام تیزی سے پھیلتا گیا جس کی زندہ مثال ماضی قریب میں فرانس میں شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں بنائے گئے کارٹونس کی سرکاری عمارتوں پر نمائش کے بعد فرانس میں سیرت طیبہ کی اتنی کتابیں مانگی اور خریدی گئی لوگ ٹوئٹ کے ذریعہ پیغمبرؐ اسلام کی سیرت کی جانکاری کے لئے بے قرار اور دلچسپی ظاہر کرنے لگے۔  صدر فرانس نےبوکھلاہٹ کا شکار ہوکر کئی اسلامی اسکالرس پر پابندی لگائی مساجد اور مسلم تنظیمیں اس کو کھٹکنے لگی انہیں بند کردیا گیا، لیکن یہ ظاہری طور پر کامیاب ہوتا نظر آتا ہے لیکن 60 لاکھ کی مسلم آبادی رکھنے والے ملک فرانس میں اسلام تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ جیسے کہ پیغمبر علیہ السلام کی یہ پیشن گوئی کہ قیامت سے پہلے ہر کچے پکے مکان میں، خشکی اور تری میں اسلام کا غلبہ ہوکر رہے گا۔

"باطل سے ڈرنے والے آئے آسماں نہیں ہم"

"سوبار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا"

ادھر ہمارے اپنے ملک ہندوستان میں جس ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا خون اس کی مٹی میں شامل ہے۔  وہیں انگریزوں کی جوتی چاٹنے والی تنظیمیں آج آزاد بھارت میں مسلم اقلیت کے خلاف منظم سازشیں رچ رہے ہیں۔ ایک تو ایک ایجنڈہ ظاہری ہتھکنڈہ ان کا سی اے اے، این آر سی، این آر پی کے ذریعہ خوفزدہ کرنا، یا گاوکشی کے قانون کے ذریعہ مسلم قوم پر رعب جمانا، یامعاشی و اقتصادی طور پر کمزور کرکے یا فسادات کے ذریعہ ان کو مفلوک الحال کرنا یا لو جہاد جیسے قوانین کالایا جانا،  اس کے علاوہ اندرونی خفیہ ایجنڈہ، طلاق کے قوانین کے ذریعہ شریعت محمد میں بالراست دخل اندازی،اوراب حجاب کے بہانے پورے ملک میں مسلمانوں کو اپنی پاکیزہ تہذیب و معاشرت سے عاری کرنے کی ناپاک کوشیشیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ملک میں یکساں سیول کوڈ،مزیدیہ کہ بھارت کو دو برسوں میں ہندو راشٹر بنانے کا عزم ہے۔ اس کے لئے ہر ممکن طاقت کا استعمال کرنا وغیرہ 

 لیکن یہ ہمارا یقین ہے کہ جب امت مسلمہ اپنی موجودہ ذلت و نکبت کی وجوہات کا حقیقی احتساب اور جائزہ لے گی اور  اپنے فرض منصبی محسوس کرتے ہوئے دعوت دین حق کی محنت سے وابستہ ہوکر کھڑی ہوجائے گی ملت کا ہرفرد دعوت دین کی محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے گا اور عملی طور پر اسلامی شعائر، اسلامی تعلیمات و معاشرت کو اپنائے گی، اسلامی تشخص اور اس کی آئیڈنٹی سے دستبردار ہونے سے کسی حال میں تیار نہ ہوگی، تو رب العالمین کی رضا و خوشنودی اور راست اس کی مدد و نصرت ہمارے ساتھ ہوگی، (ان تنصر اللہ، ینصرکم)  لیکن افسوس کے بقول علامہ اقبال ؒ

"محبت کا جنوں بانی نہیں ہے

مسلمانوں میں خون باقی نہیں ہے"

"صفیں کج دل پریشاں، سجدے بے زوق

کے جدبہ اندرون باقی نہیں ہے"

یہاں یہ بات کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، تاریخ اسلام اور پیغمبر اسلام کی سیرت اور آپ کے واقعات سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال کا فلسفہ یہ ہے کہ قوموں کا عروج اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلامی قوت سے لیس ہوکر دشمن سے مقابلہ کرتی رہتی ہے اور وہ جب عیش و عشرت اور غفلت کا شکار ہو جاتی ہے تو سمجھ لو کہ قوم کا زوال شروع ہوگیا۔آج ہم سب دیکھ رہے ہیں ہماری زندگی بدل گئی ہے، ہمارا ہر فرد عیش وعشرت کی زندگی کو مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ ہر کلمہ گو چھوٹا، بڑا یوروپی نظریات کا دلدادہ ہوگیا ہے۔ یوروپی نظریات، تہذیب اور تجارت اور صنعت کا طلب گار نظر آتا ہے۔ 

مسلمان ذلیل، و پست کیوں کر ہوا، ہمیں ماننا پڑے گا ہمارے مسلمان ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ ہم نے دین سے دوری دین سے بے زاری، رہن سہن میں لادینیت کو اپنایا سب سے زیادہ دعوت دین حق کی اشاعت کی ذمہ داری جوہمارے کندھوں پر ہے اس سے سرمو انحراف کیا، اعتنائی، لاپرواہی برتی، تبھی تو اللہ ربّ العزت کی مدد ہم سے دور ہوگئی، جس کے نتیجہ میں ہم ذلت وخواری ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن گئی ہے اگر آج بھی ملت اسلامیہ اپنی فرض منصبی کو نبھائیگی، ہماری فکر وسوچ کا انداز ہم بدلیں گے، نظریاتی فکری، علمی عملی انقلابی کا سامان تلاش کرتے ہوئے اپنائیں گے۔ ہمارے وطن سے ناپاک سازشیں رچنے والی طاقتوں کا منہ کالا ہوگا۔ اور ہمیں غلبہ و فتح حاصل ہوگی، یہی اسلامی دعوت لازمی ثمرہ و نتیجہ ہے،یہی دعوت دین وحق کی محنت اہل باطل کو ایک اللہ کی گواہی پیغمبرؐ اسلام کی رسالت پر مائل کریگی، انشاءاللہ پورے ملک میں پائیدار امن قائم ہوگا۔ رضائے الہی ہمیں نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارا کھویا وقار بحال فرمائے۔ دعوت دین حق کی محنت کے لئے ہمارا انتخاب فرمایئے۔ آمین ۔

"توائے مسافر شب خود چراغ بن اپنا" "کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی"

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے