"مجھے برقع پہننے پر فخر ہے – خدیجہ رحمان”””

 

 

 

تحریر: ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتحپوری 

 

         اسلامی تصوف کے ' قادری سلسلہ' سے لگاﺅ کے باعث 23 سال کی عمر میں 1989 عیسوی میں اسلام قبول کرنے والے عالمی شہرت یافتہ گلوکار اور موسیقار ' اے آر رحمان ' کے لیے آسکر ایوارڈ جیتنے کے دس سال مکمل ہونے پر حال ہی میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔

 اس تقریب کے دوران جب ان کی بیٹی ' خدیجہ رحمان' کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا تو دنیا نے دیکھا کہ  23 سال کی جوان خدیجہ نے ساڑی کے اوپر نقاب پہن رکھا ہے اور آنکھوں کے سوا ان کا سارا بدن نقاب میں ڈھکا ہوا ہے۔

 خدیجہ رحمان پہلی بار عوام کے سامنے آئی تھیں۔ لوگوں کے ذہن میں یہی تھا کہ اتنے بڑے موسیقار کی بیٹی ماڈرن ہوگی لیکن جب لوگوں نے سر سے پیر تک برقعے میں لپٹی ہوئی خدیجہ دیکھی تو انھیں یقین ہی نہیں آیا کہ وہ  شہرۂ آفاق موسیقار اے آر رحمان کی بیٹی ہیں۔ 

کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اے آر رحمان اور ان کی بیٹی کو تنقید کا خوب نشانہ بنایا، اور گلوکار کو قدامت پسند تک قرار دے دیا۔

واضح رہے کہ تقریباً ایک سال قبل بھی اسلام دشمن ذہنیت رکھنے والوں نے اے آر رحمان کو اسی طرح کی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنی فیملی کو قدامت پسندی میں رکھتے ہیں۔ اور ان کا اشارہ ان کی بیٹی خدیجہ کے پردہ میں رہنے کی طرف تھا۔ بنگلا دیش کی متنازع اور گستاخانہ مواد لکھنے والی اور فی الوقت ہندوستان ہی میں رہنے والی ملعونہ تسلیمہ نسرین  نے بھی اے آر رحمان اور ان کی بیٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

 اس نے گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر خدیجہ رحمان کی برقعے میں ایک تصویر پوسٹ کی اور انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:

 میں اے آر رحمان کی موسیقی سے بہت پیار کرتی ہوں مگر جب ان کی بیٹی کو دیکھتی ہوں تو میرا دم گھٹتا ہے۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ ایک ثقافتی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک پڑھی لکھی لڑکی کا ذہن بھی برین واش (تبدیل) کیا جاسکتا ہے۔تسلیمہ نسرین کی اِس تنقید  پر خدیجہ رحمٰن خاموش نہ رہیں اور اُنہوں نے انسٹاگرام پر اپنی حجاب میں تصویر شیئر کرتے ہوئے تسلیمہ نسرین کو اور دیگر ناقدین کو کرارا جواب دیا ہے۔ انھوں نے جو کہا وہ مسلم خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ لکھتی ہیں :

  " کچھ لوگ میرے بارے میں تبصرہ کر رہے ہیں اور اس حجاب کو میرے والد کی جانب سے میرے اوپر زبردستی قرار دے رہے ہیں۔ میں انہیں صرف اتنا جواب دینا چاہوں گی کہ میرے والدین کا میرے حجاب پہننے یا اس کا انتخاب کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پردہ اختیار کرنا میری ذاتی خواہش ہے جسے میں نے عزت کے ساتھ قبول بھی کیا ہے، کیونکہ میں ایک باشعور بالغ لڑکی ہوں اور اپنی زندگی میں اچھے فیصلوں کے انتخاب کے بارے میں جانتی ہوں۔

 

            ایک انسان کو مکمل حق ہے کہ وہ اپنے لباس کا انتخاب کرے یا وہ کام کرے جو اس کا دل چاہے اور میں یہی کر رہی ہی ہوں۔ میں نہ کمزور ہوں اور نہ ہی اپنے اس طرز زندگی کے انتخاب پر مایوس ہوں، بلکہ میں بہت خوش ہوں اور مجھے برقع پہننے پر فخر ہے۔

   مجھے افسوس ہے کہ آپ ( تسلیمہ نسرین ) کو اپنے ہی لباس کی وجہ سے گھٹن محسوس کر رہی ہیں ۔ آپ کو میرے  لباس کی وجہ سے گھٹن ہورہی ہے۔ آپ کو کچھ تازہ ہوا لینے کی ضرورت ہے۔ مجھے برقع پہننے سے کوئی گھٹن محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ مجھے فخر محسوس ہوتا ہے اور میں اپنے  فیصلے میں مکمل بااختیار ہوں۔ آپ کو ایک بار ' گوگل' پر حقیقی نسوانیت (فیمینزم) کا مطلب معلوم کرنا چاہیے  کیونکہ نسوانیت کا مطلب کسی عورت پر تنقید کرکے اس کے معاملے میں اس کے والد کو گھسیٹنا ہرگز نہیں ہوتا۔  بھارت میں اس وقت بہت کچھ ہورہا ہے لیکن  حیرت ہے کہ کچھ لوگوں کو بس اس بات کی فکر ہے  کہ ایک عورت اپنے لیے کیسا لباس منتخب کرتی ہے۔

   اس وقت ملک بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے معاملہ میں کس قدر پریشان ہیں اور جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں بھی بعض لوگوں کو فضول موضوعات چھیڑنے کی عادت ہے۔ 

  میں زبردستی اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کررہی ہوں۔ پردہ اسلامی طرز زندگی کا بہت مناسب اور مصلحت آمیز جز ہے جو غیرمسلم افراد کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ جب بار بار یہ موضوع چھیڑا جاتا ہے اور میں ایسی باتیں سنتی ہوں تو میرے تن بدن  میں آگ سی لگ جاتی ہے اور میں اس حوالے سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔

  گذشتہ ایک سال کے دوران مجھے جو مختلف قسم کے تجربات حاصل ہوۓ ہیں اس سے قبل کبھی نہیں ہوۓ۔   میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے مجھے اس طرح قبول کیا۔ میرا کام بولے گا ان شاء اللہ۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتی۔"

  مذکورہ باتیں کہنے کے علاوہ خدیجہ  برقعے میں ایک عورت کی تصویر شییر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

  " ڈبل اسٹینڈرز کیوں؟ اور تشویش محض کسی ایک عقیدے کی خواتین کے لیے ہی کیوں؟ کیا ہم نے پگڑی والے مرد نہیں دیکھے؟ پھر کیوں جب بات ایک مخصوص مذہب کی آتی ہے تو عورتوں کو ان کی پسند کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟ کیوں؟ کیوں؟ اور کیوں؟ مجھے سمجھ نہیں آتا۔"    بیٹی خدیجہ کے برقع پہننے پر تنقید کا نشانہ بنے اے آر رحمٰن نے بھی ناقدین کو جواب دیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے گھر کی خواتین کی ایک تصویر پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا :

   'فریڈم ٹو چوز'  یعنی ان کے گھر میں ہر کسی کو اپنے انتخاب کی آزادی ہے اور کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔  واضح رہے کہ اس تصویر میں ہندوستان کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی اہلیہ نیتا امبانی کے ساتھ اے آر رحمان کی پوری فیملی ہے۔ بیگم سائرہ کے سر پر دوپٹہ ہے اور خدیجہ حجاب میں ہیں اور دوسری بیٹی رحیمہ بغیر حجاب کے ہے۔

   اس تصویر کے ذریعہ انھوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح بڑے بڑے تلک لگانے والا ہر مرد یا عورت سخت گیر ہندو نہیں ہوتا اسی طرح نقاب یا داڑھی رکھنے والا ہر مرد یا عورت 'قدامت پسند' نہیں ہوتا۔

  اے آر رحمٰن نے کہا کہ برقع اور حجاب پہننے کا انتخاب خدیجہ کا اپنا ہے اور میری بیٹی کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی مکمل آزادی ہے۔   اُنہوں نے تسلیمہ نسرین کی جانب سے خدیجہ کے حجاب اور برقعے پر تنقید کرنے کے حوالے سے کہا کہ میں اِس طرح کی تنقید کرنے والوں کو کوئی جواب نہیں دوں گا۔

     خدیجہ نے بھی اپنے والد کی حمایت میں کہا ہے کہ میرے والد نے کبھی بھی اپنے فیصلے زبردستی مجھ پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔واضح رہے کہ خدیجہ کو تنقید کا نشانہ بنانے والے یہ اسلام دشمن عناصر بہت تھوڑے ہیں، ورنہ ایک خلق کثیر ان کی مداح ہے اور بہت سی مسلم خواتین نے خدیجہ کو فالو کرنا شروع کر دیا ہے۔

 

  پیغام :۔   آج کل اگر لوگوں کو ذرا سی بھی شہرت حاصل ہو جاتی ہے یا پیسہ ہاتھ آ جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو زمانے کے حساب سے ڈھالنے لگتے ہیں اور اسلام میں داڈھی یا پردے کا جو حکم ہے اسے ذرا سا بھی فالو نہیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ اگر ترقی حاصل کرنی ہے اور ترقی یافتہ لوگوں کے ساتھ چلنا ہے تو ان کا طور طریقہ بھی اختیار کرنا ہوگا، اور داڑھی یا حجاب جیسی اسلامی شناخت والی چیزوں سے بچنا ہوگا ورنہ ترقی یافتہ لوگوں میں پذیرائی حاصل نہ ہو گی اور کامیابی نہ ملے گی۔ ایسے کوتاہ نظر اور احساس کمتری کے شکار لوگوں کے لیے اے آر رحمان کی بیٹی کا یہ کردار نمونہ عمل ہے۔ 

اللہ ہم سب کو صالح فکر عطا فرمائے، احساس کمتری کے مرض سے محفوظ رکھے، اور اسلامی تعلیمات اور مذہبی شعار کو فخریہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

 

      نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تُجھ کو

    ترا وجود ہے قلب و نظر کی رُسوائی

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

22فروری2020

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے