محسن کے قدموں میں آنسوں کے چند قطرے

ملک کے مختلف موضوعات پر کافی دیر تک بات ہوتی رہی ،مسلم مسائل اور اس کے حل کے لئے وہ کافی فکرمند نظر آئے ، البتہ مجلس میں بیٹھے کسی صاحب نے کہا کہ یہ آپ کی پہلی عید ہے جوآپ اپنی ماں کے بغیر کرپائیں گے ایسا لگا کہ انکی پلکیں بھیگ رہی ہیں انہون نے حوصلے کو یکجا جمع کرتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ عید ماں کے ساتھ نہیں ہوگی کسے معلوم تھا کہ عید مرحوم اپنی ماں کے ساتھ کریں گے کافی دیر کے ہمارے ذاتی حالات معلوم کرنے کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے رخصت کی اجازت دی ۔ 
میراتعلق” قومی تنظیم "سے جالے ضلع دربھنگہ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے تقریبا 12/سالوں سے ہے اور یہی تعلق کا عرصہ مجھے میرے محسن سے ہے ، وہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ،حالات دریافت کرتے ،پریشانیوں اور مشکلات کے بابت پوچھتے ،اور کبھی پوچھتے کہ آپ کے مولانا مولانا خالدسیف اللہ رحمانی کیسے ہیں ،وہ ان دنوں کہاں ہیں ،وہ میرے رشتہ دار بھی ہیں اگر پٹنہ آئیں تو آپ مجھے ضرور خبر کریں ،ایک موقعہ پر جب مولانا پٹنہ تشریف لائے تو میں نے مرحوم کو حضرت کے آمد کی خبر دی پرتکلف گھرپر دعوت کا اہتمام کیا ،یہ وہ محبتیں ہیں جو کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں ۔ 
یاد پرتا ہے ایک موقعہ پر جب میں حج سے واپس آیا تو ایک لمبے زمانے تک اخبار کے لئے خبر نہیں بھیجا مرحوم نے جب محسوس کیا تو ایک ملاقات کے دوران فرمایا کہ مولانا کیا آپ نے عرفات کے میدان میں اس بات کا بھی عہد کیا ہے کہ اب ملت کے مسائل پر نہیں لکھیں گے اگر ایسا عہد کیا ہے تو توڑدیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ جیسے کم لوگ ہیں جو بہت اچھا لکھتے ہیں ،میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ پابندی سے لکھنے کا وعدہ کرتے ہو ئے میں نے اجازت چاہی جب کبھی ملاقات ہوتی خوب نوازتے اور اس سفر میں انہوں نے کچھ زیادہ ہی نوازش کیا اور یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ اب تو آپ حاجی ہوگئے آپ کی خبریں اور مصدق ہوگئیں ۔ 
ان کی ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ وہ دینی مجلسوں میں ترجیحی بنیاد پر شرکت فرماتے تھے اور خاص طور پر مدرسوں کے روایتی جلسوں میں شرکت کو فوقیت دیتے تھے ، جب انہیں تقریر کے لئے دعوت دی جاتی تو اسی عنوان پر گفتگو کرتے جو جلسہ کا عنوان ہوتا ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ دربھنگہ ضلع کے سیسو گاوں میں مدرسہ نورالعلوم نے مسلم پرسنل لا کے تحت ایک اہم اور حساس موضوع پر جلسہ منعقد کیا تھا اس موقعہ پر مدرسہ کے سکریٹری مولانا سید عبیداللہ سبیلی نے مرحوم کو خاص طور پر اس جلسہ میں مدعو کیا تھا ،مرحوم بالکل وقت پر آئے اور ان کے ساتھ صحافیوں کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی خاص طورپر دربھنگہ کے بیورو چیف جناب منصور خوشتر بھی تھے جن سے مرحوم بے انتہا محبت کرتے تھے ،اس اجلاس کی نظامت میرے ذمہ کیا گیا تھا بھائی منصور نے مجھ سے کہا کہ سر کو جلدی موقعہ دیاجاتا تو اچھا تھا مرحوم نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے آپ اپنی سہولت سے مجھے بلائیں میں علما کے بیانات کو سننے آیا ہوں ،جب ان کو دعوت دی گئی تو موضوع کی مناسبت سے کافی دیر تک سیر بحث گفتگو کیا اس موقعہ پر انہوں نے مسلم پرسنل لا کی اہمیت اور موجودہ ہندوستان میں اس کی ضرورت کیوں ؟اس پر بھی بات کیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ بورڈ کو ہندی مسلمانوں کے لئے کتنا ضروری محسوس کرتے تھے ،روانگی کے وقت مجھے خاص طور پر بلایا اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی نظامت کرتے ہیں اور اچھی نظامت کرتے ہیں اور پھر مصافحہ کرتے ہوئے رخصت فرمایا میں سوچتا ہوں کہ آخر وہ میرے ساتھ مدارات کا معاملہ کیوں کرتے تھے۔ 
مرحوم کا رخصت ہونا ہم جیسے لوگوں کے لئے بڑا المیہ ہے ،سوچتا ہوں کہ اتنا بڑا صحافی بھی ہم جیسے لوگوں کی تحریر پر حوصلہ افزا جملہ کہ سکتے ہیں ،ابھی دو چند دنوں قبل میرا ایک مضمون قومی تنظیم میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا "مولانا سید محمد ولی رحمانی ہم بھی انساں ہیں منہ میں زباں رکھتے ہیں ساقی "اسی دن مرحوم کا فون آیا پہلے تو میں گھبرایا کہ شاید ہمارے حلقے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ تو نہیں پیش آگیا جس کی تصدیق کے لئے فون کیا ہو اکثر ایسے واقعات کی تصدیق کے لیے آپ فون کیا کرتے تھے انہوں نے پوچھا مولانا کیسے ہیں میں نے آج آپ کا مضمون "مسلم پرسنل لا "سے متعلق پڑھا پسند آیا اسی طرح لکھتے رہیں بعض لوگوں نے ایسی تحریریں لکھنی شروع کردی ہیں جوملک کے پس منظر میں ہرگز درست نہیں کہا جاسکتا ،اس سے پتہ چلاکہ وہ مسلمانوں کے مسائل اور خاص طور پر بورڈ اور مولانا مخدومی سید ولی رحمانی صاحب سے والہانہ محبت رکھتے ہیں ،یقیناًمرحوم کی یہ محبت عاقبت کے لئے نیک فال ثابت ہوگی۔ مرحوم کی رحلت سے ہم نے اپنے ایک محسن کو کھودیا جو صحافی برادری کے لئے اور خاص طور پر ہم جیسے لوگوں کے لئے ایک مخلص رہنما کی حیثیت رکھتے تھے اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے