ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات

ابراہیم بن مولانا خواجہ معین الدین اکرمی 

قدرت خداوندی کا ایک اہم پہلو ماہ و سال کا تغیر ہونا ہے، دنیا میں تقویم کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پیشتر ہی سے جاری وساری تھا، لیکن ہر زمانے میں لوگ اپنی اپنی تقویم کو چھوڑ کر کسی بھی تقویم کو فوقیت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے دنیا میں مختلف اقسام کے مختلف ادوار میں تقاویم وجود میں آئے ہیں۔ مثال کے طور مکہ مکرمہ میں جتنے بھی قبائل ہیں ہر ایک کی اپنی الگ تقویم ہوتی تھی لیکن زمانے کے تغیرات نے اس کام کو ناپید بنا دیا ہے۔ اب دنیا میں دو تقاویم ہی کا سلسلہ جاری ہے ایک ہجری تقویم اور دوسری عیسوی تقویم۔
سن ہجری کا رواج حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت میں ہوا۔ جمعرات 30 جمادی الثانی 17 ہجری مطابق 12؍9 جولائی 638ء سیدنا علی کے مشورہ سے سن ہجری کا شمار واقعہ ہجرت سے کیا گیا اور سیدنا عثمان کے مشورہ سے محرم کو حسب دستور پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔البتہ دوسرے مذاہب میں عیسوی تقویم کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں سیکڑوں اشخاص ایسے رونما ہوئے جن کو اسلامی ماہ کے اسماء تک نامعلوم ہے بمقابل اسکے شمسی ماہ کے اسماء کا زبانی بیان آسانی کے ساتھ کر ڈالتے ہیں، معاشرے کی اس غلطی کی پیش نظر سال کے آغاز پر ہی اسکی طرف رجحان ہونا چاہیے جس کے تحت میں نے « ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات » کے عنوان پر اپنا مضمون لکھا ہے جو آپ کے پیشِ نظر ہے۔ جس کی وجہ سے ہم معاشرے والوں کو تھوڑا بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
ماہ محرم الحرام کے فضائل احادیث مبارکہ میں بہت سی جگہوں پر وارد ہوئے ہیں ساتھ ہی ساتھ اس میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کو تفصیل سے بیان کرنا "سمندر بکوزہ" کا مصداق ہوگا، اسی طرح اس ماہ کے اندر بہت سی بدعات و خرافات اس نئے زمانے میں وجود میں آئے ہیں اس سے تو تاریخ کے اوراق خاموش ہے انشاء اللہ ان تمام پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کروں گا۔

فضیلت و اہمیت:- 
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ إِثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ.
بے شک اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد 12 ہے جو اس کی کتاب میں اس روز سے لکھی ہے جب اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ان میں 4 مہینے ادب اور حرمت والے ہیں [التوبہ: 36]
ابو بکر رضی اللہ سے روایت ہے رسول اللہ نے ہم سے فرمایا کہ "ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب حرمت
والے مہینے ہیں [ بخاری 4662 مسلم 1679]
یہ وہ حرمت والے مہینے ہیں جن کی حرمت کو عرب کے کفار نے بھی برقرار رکھا، ان مہینوں میں خاص طور پر
گناہ، لڑائی جھگڑا، ظلم وزیادتی اور اشتعال انگیزی منع ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم سے فرمایا کہ رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینیمحرم کے روزے سب سے بہتر ہیں (مسلم 1163]
محرم کی ۱۰ تاریخ یعنی عاشورے کا دن بڑی تاریخی حیثیت کا حامل ہے، یہود و نصاری حتی کہ قریش کیمشرکین بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے.
ام المومنین عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے اور خود رسول اللہ نے بھی ہجرت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا، جب آپ ہجرت کر کیمدینہ منورہ تشریف لائے تو خود بھی اس دن کا روزہ رکھتے اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے لیکن جب ماہ رمضان کے روزے فرض کر دیئے گیے تو آپ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کے اہتمام کو ترک کر دیا اور فرمایا جو چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے ترک کرئے۔ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ابتداء سال ہے اس کو نیکی سے معمور کرنا بہتر ہے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو 1368)

تاریخی حیثیت سے:-
اس ماہ کے متعلق بہت سی تاریخی باتیں ملتی ہیں البتہ جن کی تفصیل کے لیے قارئین کو تاریخ کی کتابوں سے رجوع کرنا بہتر اور مفید ہے۔ اختصاراً کچھ باتیں آپ کے روبرو پیشِ خدمت ہے۔ 
عاشوراء کے علاوہ اس مہینے میں رونما ہونے والے واقعات:
(1) یکم محرم الحرام امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی۔
(2) غزوہ خیبر محرم 7ھ (الرحیق المختوم ص592۔591)
(3) ابرہہ کے لشکر پر عذاب (اس بات سے استدلال کہ اس واقعے کے 50 یا 55 دن کے بعد آپ کی ولادت باسعادت 9 ربیع الاول کو ہوئی)
(4) شعب ابی طالب میں محصور ہونے کی انتھی (الرحیق المختوم ص 191)
(5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ سے نکاح فرمانا 
(6) رسول اللہ کا مختلف بادشاہوں اور سرداروں کی طرف دعوتی خطوط ارسال کرنا یکم محرم 7ھ (سیرت رسول اکرم ص 211)
(7)  معرکہ قادسیہ کا ہونا
(8) حضرت عثمان غنی کی خلافت کا آغاز 4محرم 24ھ
اس پورے مہینے میں یوم عاشوراء بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اسی سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناچہ موٴرخین نے لکھا ہیں کہ:
(1)      یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(2)      اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(3)     اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
(4)     اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
(5)      اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(6)      اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(7)     اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔
(8)     اور اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(9)      اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
(10)     اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔
(11)     اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔
(12)     اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔
(13)    اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
(14)    اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
(15)     اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(16)     اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔
(17)    اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(18)    اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(19)     اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
(20)    اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
(21)     اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)
(ان تمام باتوں کو مولانا ابوجندل قاسمی استاذ قاسم العلوم تیوڑہ مظفر نگر نے اپنے مقالے میں بیان کیا ہے)

یوم عاشورہ میں کیا کام کرنا چاہیے؟
اس سلسلے میں احادیث مبارکہ میں صرف دو ہی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے (1) دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا البتہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کسی سفر سے لوٹے دیکھا کہ یہودیوں نے روزہ رکھا ہے پوچھا کہ کیا بات ہے کہا کہ اس دن اللہ نے موسی کو فرعون سے نجات دلائی اسی وجہ سے ہم روزے سے ہیں اس وقت آپ نے فرمایا اس کے تو ان سے زیادہ ہم حق دار ہیں۔ لیکن آپ نے یہود ونصاریٰ کی مشابہت سے منع فرمایا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ۱/۳۵۹) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔  اسی لیے علماء نے صرف عاشوراء کے روزے کو کراہت کی نظر سے دیکھا ہے۔
(2) آپ نے اس دن اپنے اہل وعیال پر فراغ دلی کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس سے پورے سال میں برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأھْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔ 

بدعات و خرافات سے بچیں!
اوپر کی تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے کو مستحق بنائیں، مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات وبدعات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنیکو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی بدعات وخرافات سے احتراز کرے۔
یہ چند چزیں تھی جسکو اختصاراً پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

«
»

مودی حکومت کی سب سے بڑی حصولیابی ہندوستانی وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنا ہے

نہ ڈرو نہ مسلم مخالف تشدد پر بولنے سے شرماؤ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے