سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار اور وارث بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775 کو پیداہوئے ۔ان کے دادا شاہ عالم ثانی دہلی کے بادشاہ تھے ۔۔1857 میں تخت پوشی کے وقت انہیں ابوظفر کے بدلے ابوظفر ،محمد سراج الدین ، بہادر شاہ غازی نام ملا تھا۔اس وقت ملک افراتفری کے عالم میں تھا یہاں تک کہ حکومت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔اور خزانہ خالی ہوچکا تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بادشاہوں کے تمام حقوق سلب کرلئے تھے ۔اور ایک محدود رقم ان کی پینشن مقرر کردی گئی ۔بہادرشاہ ظفر یہ سب تماشہ دیکھتے رہے لیکن کف افسوس ملنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔بچپن میں انہیں علوم و فنون کی ہمہ جہت تربیت دی گئی تھی وہ اچھے تیر انداز تھے اور گھوڑ سورای بھی ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔شاعری میں ان کا مقام عظیم ترین شعرامیں شمار کیا جاتاہے ۔بادشاہت نہ تو انہیں راس آئی نہ انھوں نے اس میں کوئی کشش محسوس کی ۔1857 کی جنگ آزادی کے دوران جب جنگ آزادی کے باغیوں نے بادشاہ سے گزارش کی کہ وہ بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں تو انہون نے مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بادشاہ کون کہتا ہے ۔میں تو ایک فقیر ہوں کسی طرح اپنے کنبے کے ساتھ جی رہا ہوں ،میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں خزانہ خالی ہے نہ طاقت ہے نہ دب دبہ اور یہ کہہ کر ان کی آنکھیں غمناک و اشکبار ہوگئیں ۔
نہ کسی کہ آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جوکسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
بہادرشاہ ظفر کی ہی طرح ان کی بیگم زینت محل بھی انتہائی خوددار اور بہادر خاتون تھیں جب فرنگی مظالم انتہا کو کو پہنچ رہے تھے اور اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی تو ایک سرد رات جب ظفر حسب معمول شعر موزوں کررہے تھے،بیگم نے کہا
’’بادشاہ سلامت آج پورے ملک کی نظر دہلی پر لگی ہوئی ہے مغلیہ خاندان کا خون ہندوستان کو غلام نہیں ہونے دیگا ،جنگ آزادی میں ہم اپنی جانیں قربان کر دینگے اور اللہ تعالی کے قدم نشین ہوجائیں گے لیکن ظالم اور فرنگیوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے ۔‘‘ظفر نے زینت محل کی ہمت اور جذبہ پر انہیں داد تحسین پیش کی ،زینت محل پھر گویا ہوئیں ۔میں ہندوستان کی بیٹی ہوں اور اس کی جنگ آزادی کے لئے کچھ کرسکی تو مجھے فخر ہوگا‘‘
زینت محل کے ان الفاظ نے بادشاہ کی بوڑھی رگوں میں نیا خون دوڑایا اور انہوں نے فرنگیوں کو اس ملک سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی میں کود پڑنے کا فیصلہ کیا۔جنوری1857 میں لال قلعہ کے دیوان خاص میں انقلاب کے شعلہ بھڑکنے لگے،شاہی محل کے دروازہ پر فوجی تعینات کر دئے گئے ۔ایک بار پھر خلق خدا کی ملک بادشاہ کا حکم جہاں پناہ کا ۔شاہی نعرے لال قلعہ کی چہار دیواریوں میں گونجنے لگے ۔عیش و آرام میں ڈوبے ہوئے شہزادوں میں بھی انقلاب کا جذبہ پیدا ہوگیا اور دہلی شہر آہستہ آہستہ بغاوت کی آگ میں جلنے لگا ۔بادشاہ کے نام سے احکامات جاری ہونے لگے اور ہند کا یہ بوڑھاسپاہی نئے جوش و خروش کے ساتھ میدان جنگ کی طرف بڑھا۔
پورا شہر انگریزوں کی لاشوں سے بھرا پڑا تھابادشاہ نے ہندوستانی مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے ہندوستان کے سپاہیوں اگر ہم ارادہ کرلیں تو آسانی سے دشمن کا خاتمہ کر کے اپنے وطن کو بچا سکتے ہیں ’’ہندوں اور مسلمانوں اٹھو اور جنگ آزادی میں کود پڑو‘‘
میرٹھ کے باغیوں کا ایک جتھا 11 مئی 1857 کو دلی پہنچا ،اس نے صرف پانچ دنوں میں پوری دلی کو انگریزوں سے آزاد کرالیا ۔بہادر شاہ ظفرکو ہندوستان کا سلطان مقرر کیا گیا ۔بادشاہ کی طرف سے ایک فرمان جاری کر ملک کے گوشہ گوشہ میں بھجوایاگیا،اس فرمان میں ہندوستان کے تمام ہندو ؤں اور مسلمانوں کو ایک ہوکر انگریزوں کو ملک سے اکھاڑ پھنکنے کا وعدہ کیا گیا۔بہادرشاہ کے 134 دنوں کی حکومت میں دلی میں کوئی ایسی واردات نہیں ہوئی جس سے ہندو مسلم اتحاد پر اثر پڑتا۔یہ ہندو مسلم اتحاد کا ایک انوکھاانداز تھا۔اس کے بعد علی گڑھ ،ایٹاوا،مین پور ،اسیرا آباد،اجمیر ،اورنگ آباد ،کاشی ،بدایوں ،جون پور ،الہ آباد ،اور جبل پور کے ہندوستانی سپاہیوں نے بھی جنگ کا اعلان کردیا،اسٹ انڈیا کمپنی کا ستارہ ڈوبنے ہی والا تھا۔لیکن ملک کی بدقسمتی کے آپسی پھوٹ اور انگریزوں کی چالوں نے پاسہ پلٹ دیا۔
دغابازی فریب و نظم و نسق کی پابندی سے غفلت کی بناء پر 14 ستمبر کو پانسہ پلٹ گیا انگریزوں نے سکھوں اور گرکھوں کی مدد سے بہادرشاہ ظفر کو شکست دی اور دہلی پر قبضہ کرلیابادشاہ اپنی بیگم اور شہزادیوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں پناہ گزیں ہوئے سانڈرس اور ولیم مورے نے لکھا ہے کہ بڑ اعجیب حال ہوگیا تھا دہلی کا ایک طرف لاکھوں بے گناہ لوگ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے تھے ۔ملک خون کے آنسو رورہا تھا زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں ،یتیموں کی چیخ وپکار بندوق کی ترتراہٹ فوجوں کی قطاریں بادشاہ کا دل روپڑا۔21 ستمبر کو انہیں غداروں کی مدد سے ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے میں پہنچ کر بادشاہ کو بیگم بچے سمیت رفتار کرلیا ۔بادشاہ کو ذلیل کیا جانے لگا ان کے سامنے ان کے بیٹوں کو قتل کردیا گیا۔ جب ان کے سبھی بچوں کا سر قلم کرکے انگریز تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے چاروں لڑکوں مرزا غلام ، مرزا خضر سلطان ، مرزا ابوبکر اور مرزا عبداللہ کوبھی قید کرلیا ، میجر ہڈسن نے سبھی چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے انگریزوں کے تئیں جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہاں تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہوکر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔انگریزوں نے اس 50 سالہ بوڑھے پر غداری اور فریب دہی کا مقدمی چلایا لال قلعہ میں مقدمہ کا یہ ڈھونگ 42 دن چلتا رہا اور آخر میں سزائے موت سنائی گئی جسے بعد میں جلاوطنی میں بدل دیا گیا۔بادشاہ نے قیدی بن کر لال قلعہ کو الوداع کہا ۔اور پھر انہیں رنگون میں نظر بند کردیا گیا ،جہاں اس عظیم انقلابی ہندوستانی نے 4 سال انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزارے ۔دھیرے دھیرے ان کی حالت بگڑتی گئی اور 7 نومبر 1862 کو ایک پرائے ملک میں تمام بندشوں سے چھٹکارہ پاکر اس دنیا کو خیر باد کہا۔
بقول بہادرشاہ ظفر
’’ کتناہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
جواب دیں