بین مذاہب شادیوں کامحرک ۔نکاح میں تاخیر

مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی۔جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور،کرناٹک    
    اسلام میں نکاح ایک مقدس مفہوم کا حامل لفظ ہے،اس کے تقدس کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ رحمت دوعالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی سنت قرار دیا ہے،نسبت و استناد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،نسبت سے اشیاء کی قدروقیمت گھٹتی بڑھتی ہے اور اسی سے اشیاء میں روحانیت پیدا ہوتی ہے،اسی لیے اسلام میں نکاح صرف جنسی تسکین کا نام نہیں ہے؛بلکہ یہ ایک عبادت بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ احادیث و سیرت میں نکاح کے فضائل و مسائل تفصیل سے منقول ہیں،نکاح کرنے والے کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بوقت نکاح ان امور کی رعایت کرے،تاکہ وہ نکاح کے انوار وبرکات سے اپنی زندگی روشن رکھ سکے،اسلام نے نکاح کا جو تصور پیش کیا ہے اسی میں خیروبرکت ودیعت کی گئی ہے،اس کے سوا نکاح کا جو سماجی تصور ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے وہ اپنی تمام چمک دمک کے ساتھ روحانیت،خیروبھلائی اور حقیقی سعادتوں سے خالی ہے،اہلِ دل اور صاحبِ نظر شخصیات اسلامی اور سماجی تصورات کا فرق نہ صرف یہ کہ سمجھتی ہیں بلکہ وہ فرق انھیں دکھائی دیتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ سماج کے ان تصورات سے اپنا دامن بچائے رکھتی ہیں جو تصورِ اسلام سے متصادم ہوتے ہیں،وہ ہر مسلمان سے اسی کی امید اور توقع رکھتی ہیں کہ وہ بھی اس معاملہ میں شریعت وسنت کے پاس دار رہیں،کیوں کہ یہی مومن کی معراج ہے۔اسلام ایک دینِ فطرت ہے ،جس کی ہر تعلیم میں رحمت کے ساتھ اعتدال پنہاں ہے،اسی اعتدال اور رحمت کی وجہ سے اس کے ہر طرز اور ہر راہ نمائی میں آسانی موجود ہے،انسان جب اس اعتدال کی روِش سے ہٹتا ہے تو افراط و تفریط کی خاردار وادیوں میں گُم ہوجاتا ہے،اس وادی میں سنت کے لہلہاتے لالہ و گُل کے بجائے بدعات و خرافات ،رسوم ورواجات اور ضلالت وگم راہی کے کانٹے دامن ِمراد میں اُلجھتے اور پھنستے چلے جاتے ہیں،کسی کو اس کا احساس ہوتا ہے اور کسی کو اس کا ادراک نہیں ہوتا،اسی لیے زندگی کے ہر موڑ پر اسلام کی راہ نمائی اور سنت کی رہبری کا جاننا بے حد ضروری ہے؛کیوں کہ دینی علم اور صحیح جاں کاری ہی ہر جہالت کا علاج اور ہر ضلالت کا مداوا ہے۔مقامِ افسوس ہے کہ دورِ حاضر میں نکاح کو چند معاشرتی، سماجی رسم ورواج اور خاندانی طور طریقوں کو اپنانے کا نام سمجھ لیا گیا ہے،جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ نئی نئی برائیاں اور مختلف قسم کی دشواریاں جنم لے رہی ہیں، جن سے اپنے اور پراے سب پریشان ہیں۔
     اسلام میں شادی قانونی اورشرعی طورپرمسلمان مردو عورت کے درمیان کیے گئے ایسے معاہدہ کو کہاجاتاہے جو شریعت کے ضابطہ کے مطابق انجام  پایاہو، جس کے تحت دونوں ایک دوسرے سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے جنسی لطف اندوزی کرسکتے ہوں ۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون یا فرد سے نکاح درست نہیں ہے،چاہے وہ اس زمانہ کے اہل کتاب میں سے ہو،اس لئے کہ موجودہ اہل کتاب اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کے قائل ہیں،اسی طرح مجوسی ،یا دہریہ ،زنادقہ ،جیسے تمام فرقوں کے ساتھ نکاح کارشتہ بنانا درست نہیں ہے،اللہ تعالی کا ارشادہے’’وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ  وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْـرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُـوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْـرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَاللّٰہُ یَدْعُوٓا اِلَی الْجَنَّـۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَیُبَیِّنُ اٰیَاتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُـمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(سورۃ البقرۃ:۲۲۱) کہ مشرک عورتیں جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ، ان سے نکاح نہ کرو اور ایک مسلمان باندی بھی (آزاد ) مشرک خاتون سے بہتر ہے، گو وہ تم کو پسند ہو اور(مسلمان عورتوں کا ) مشرک مردوں سے جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں ، نکاح نہ کرو گو وہ تم کو پسند ہوں ؛کیوں کہ یہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اوراﷲاپنی توفیق دے کر جنت اور مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اﷲ لوگوں کے لیے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں ؛ تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ علامہ دمیری ؒ فرماتے ہیں:يحرم نكاح من لا كتاب لها كوثنية ومجوسية) هذا هو الجنس الرابع من الموانع وهو الكفر، والكفار ثلاثة أصناف:صنف ليس لهم كتاب ولا شبهة كتاب كعبدة الأوثان والشمس والقمر والنجوم، والصور التي ينحتونها، وعباد البقر والخيل البلق، والمعطلة الذين لا يثبتون الخالق، والدهرية الذين ينسبون الأمور إلى الدهر، والزنادقة الذين يظهرون الدين وهم في الباطن معطلة كمن يقول بتدبير الطبائع الأربعة، والمانوية الذين يعتقدون أن النور يفعل الخير والظلمة تفعل الشر(النجم الوھاج:۷؍۱۸۹)
    ان دلائل کی بناء پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مشرک قوموں کے نہ مردوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ عورتوں سے؛ البتہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح درست ہے، جس کا ذکر ( المائدۃ :۵) میں ہے۔ اس طرح کا حکم اسلام کی تنگ نظری نہیں ؛ بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے؛ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اکثر عورتوں ہی کی راہ سے بے دینی کے فتنے سماج میں لائے گئے ہیں ، اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح کے احکام موجود تھے، یہودی شریعت میں اسرائیلی کا غیر اسرائیلی سے نکاح جائز نہیں ، (خروج:۳۴؍۳۱) عیسائی مذہب میں غیر عیسائی سے نکاح درست نہیں ، (کرنتھیوں : ۶؍۱۴-۱۵)اور ہندو مذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لیے دوسری ذات میں بھی نکاح کی اجازت نہیں ؛ چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے۔(آسان تفسیر، از مولاناخالد سیف اللہ رحمانی)
    نصوص شرعیہ وقطعیہ کے واضح ہونے کے باوجود بین المذہب نکاح وشادیوں کا سلسلہ صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا جاری ہے،البتہ ہندوستان میں بین مذہبی نکاح عروج پر ہے؛کیوں کہ اسپیشل میریج ایکٹ ایسے جوڑوں کو تحفظ فراہم کرتاہے،بین مذہبی شادی کامطلب یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کا مذہب الگ الگ ہو۔ جیسے مسلم اورغیرمسلم کے درمیان نکاح، ہندو یا عیسائی کے درمیان نکاح۔ اسی کو مخلوط شادی بھی کہاجاتاہے۔ نیزایسی شادیوں کو سوِل معاہدہ بھی کہاتاجاہے۔لیکن بین مذہبی شادیوں میں میاں بیوی کو مختلف ذاتی وسماجی مسائل کاسامناکرناپڑتاہے،اس لئے عام طورپر بین المذاہب ہونے والی شادیاں جذباتی رشتوں پر مشتمل ہوتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ یہ شادیاں میاں بیوی اور رشتہ داروں کے درمیان بحث ومباحثہ اوراختلافات کا باعث بنتی ہیںپھراپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ،اور عام طور پر زیادہ عرصہ تک  یہ رستے قائم نہیں رہتے اور تھوڑے ہی عرصے میں طلاق یاخلع کے ذریعہ ختم ہوجاتے ہیں،اسی طرح  انھیں اپنے اہل خانہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے والدین ان کی شادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ہیں ، دونوں میاں بیوی کوان کے سسرال والے افراد خانہ نہیں سمجھتے،اس وجہ سے اس طرح کے جوڑے ہمیشہ معاشرتی زندگی کے مسائل کاسامناکرتے رہتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ ایسے لوگ اپنے رشتے داروں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتے ہیں ، ان کے بچوں کو معاشرے میں بھی اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛بلکہ وہ اپنے والدین سے کہیں زیادہ سخت چیلنجوں کاسامناکرتے ہیں ۔بین المذاہب شادی کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، منجملہ ایمان کی کمزوری ،مخلوط تعلیم، پیشہ ورانہ ملازمتوں میںمخالف جنس کے ساتھ دوستی، غربت ،دولت کی لالچ،جہالت اور تعلیم کی کمی ،آزادانہ خیال اورسوشل میڈیا کی لت جیسے بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں،ان کے علاوہ اہم وجہ یہ ہے کہ باوجود نکاح کی عمر ہونے کے نکاح میں تاخیر ہے۔
    وقت پر نکاح اولاد کا حق ہے،اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار بنادیتی ہے،بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی اہم ضرورت جنسی تسکین ہے ،اور جب جائز ذریعہ نہ ہوتو وہ گناہ اور ذہنی بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں،اوردیر سے شادی معاشرے اور خاندان کے لئے نقصان دہ ہے،تاخیر سے شادیوں کے رجحان نے نوجوانوں میں مایوسی اور عدم استحکام پیدا کردیا ہے، طبی اعتبار سے بھی نکاح میں تاخیر نقصان دہ ہے،دورحاضر کی غیر مقوی غذائیت کی بناء پر نکاح میں تاخیر سے خواتین کوکافی پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں،خاص طور پر نظام حیض پر اس کا برااثرپڑتا ہے جس سے خواتین کاحاملہ ہونے کاامکان کم ہوجاتا ہے ، نیز انسان خواہشات کا مجموعہ ہے، اللہ تعالی ن نےان خوا ہشات اور ان کے تقاضوں کی تکمیل کے اسباب و وسائل پیدا فرمائے ہیں اور بطور آزمائش ان اسباب و وسائل کو استعمال کرنے اور ان کے ذریعہ اپنے تقاضوں کو پورا کرنے کے دو راستے متعین کیے ہیں:ایک راستہ میں عبدیت کی شان ہے، جب کہ دوسرا راستہ حیوانیت سے موسوم ہے،جونظامِ حیات رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا ہے اور جس کے مطابق انھوں نے اپنی زندگی گذاری ہے اس کو پیش ِنظر رکھنا عبدیت کہلاتا ہے اور نبوی ہدایات کو بالائے طاق رکھ دینا اور اپنی مرضی اور صرف سماج کی رعایت کرنا حیوانیت کا دوسرا نام ہے،اس اعتبار سے نکاح بروقت کرناعبدیت ہے ،اس لئے کہ انسان کی جنسی ضرورت کا واحدحل باعزت نکاح ہے، اور بغیر کسی عذر کے تاخیر کرناحیوانیت ہے،اس لئے کہ نکاح نہ ہو یا تاخیر سے ہو تواس کا عام فہم نتیجہ زنا اور بدکاری ہے،اور نکاح انسانوں کا طریقہ ہے ،جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں،ضرورت اور وقت پر نکاح نفسیاتی ،طبی ،ذہنی ،جسمانی اور شرعی ہراعتبار سے سود مند ہے،کہ وقت پر نکاح نہ ہونے سے نوکوان لڑے اور لڑکیاں جنسی امراض کی شکار ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صفت عبدیت پیدا کرنے کے لئے نکاح میں تاخیر سے منع فرمایا، چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن یزیدؓ سے مروی ہے کہ میں، علقمہ اور اسود (رحمہم اللہ) کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا :’’ يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وجاء‘‘( بخاری:۴۷۷۹)کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی (بوجہ غربت) طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔ایک موقع پر حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ : ’’يا علی:ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا‘‘(مسنداحمد:۸۲۸)اے علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب آجائے، او عورت (کے نکاح میں ) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے۔نیز اولاد کےنکاح میں تاخیرکے باعث اگر اولاد سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تواس گناہ میں باپ کو بھی برابر کا شریک قرار دیاجیسا اس کی وضاحت حضرت ابو سعيد اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه.‘‘  (شعب الایمان للبیقی :۸۶۶۶)  جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔اسی طرح کا ایک ارشادحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نقل کرتے ہیں کہ ’’مكتوب في التوراة: من بلغت له ابنة اثنتي عشرة سنة فلم يزوجها فركبت إثما، فإثم ذلك عليه‘‘(الجامع الصغیر:۱۲۰۵۰)تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔علامہ مناوی ؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں’’) يعني زنت فإثم ذلك عليه لأنه السبب فيه بتأخير تزويجها المؤدي إلى فسادها. وذكر الاثنتي عشرة سنة لأنها مظنة البلوغ المثير للشهوۃ‘‘(التیسیر بشرح الجامع الصغیر:۲؍۳۷۸)کہ اگر وہ لڑکی زنا کرے تواس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا اس لئے کہ اس زنا کا سبب والد کی طرف سے نکاح میں تاخیرہے اور یہی تاخیر زنا کاکی طرف مفضی ہے،اور بارہ سال کاتذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ عمر بلوغ اور شہوت ابھرنے کی ہے۔اسی بناء پر فقہاء نے ایسے جوان  کے لئے نکاح کرنا واجب لکھا ہے جس کو شہوت کا غلبہ ہونے کی وجہ سے نکاح کی حاجت ہو اور نکاح نہ ہونے پر زناکاخوف ہواس لئے اپنے نفس کی حرام کام سے حفاظت ضروی ہے،امام رافعی ؒ فرماتے ہیں: فیجب انہ خاف علی نفسہ الزنا ان ترک النکاح ۔۔۔لانہ یلزم اعفاف نفسہ وصونھا عن الحرام‘‘(العزیز شرح الوجیز:۷؍۴۶۶) نیززنا اور حرام کاری سے بچنے اور پاک دامنی کی غرض سے  نکاح کیا جائے تواس میں اللہ تعالی کی مدد شامل رہتی ہے،حضرت ابوہریرۃ فرماتے ہیں ’’ثلاثۃ حق علی اللہ عونھم ،المجاھد فی سبیل اللہ ،والمکاتب الذی یریدالاداء ،والناکح الذی یرید العفاف‘‘(سنن ترمذی :۱۶۵۵)کہ تین لوگوں کی اللہ تعالی مدد فرماتے ہیں ان میں سے ایک عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے نکاح کرنے والامرد یا عورت، ،اسی طرح ابراہیم بن میسرہ کہتے ہیں مجھ سے طاوس نے کہا تم نکاح کرلو ورنہ میں وہ بات کہوں گا جو حضرت عمر ؓ نے ابوالزوائد سے کہا تھا’’مایمنعک من النکاح الاعجز او فجور‘‘(المصنف لابن ابی شیبہ: ۱۵۹۱۰))کہ تمہیں نکاح سے مانع یا تونکاح پر قدرت نہ ہونا یا پھر فحش کاموں کی وجہ سے نکاح نہیں کرتے ہو(مطلب یہ ہے کہ شرعی نکاح میں تاخیر کے سبب یا توآدمی بغیر نکاح کے ہی خواہشات کی تکمیل کرے گا یاغیر شرعی نکاح کے ذریعہ اپنی نفس کی آگ کو بجھائے گا)کہ ان نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نکاح میں تاخیر انسان کوحیوانت کی طرف لے جاتی ہے،جنسی تسکین کے لئے بروقت جائز مواقع دستیاب نہ ہوسکے توآدمی انسانی شرافت کوتارتار کرکے حرام اور غلط جگہوں کوتلاش کرتا ہے اور جنسی تسکین کی تکمیل کرتا ہے،جس کے لئے نہ مذہبی حدود مانع بنتے ہیں،نہ خاندانی شرافت کا پاس ولحاظ رکھا جاتا ہے اور نہ شرعی احکام کی رعایت کو ضروری سمجھاجاتا ہے۔نہ نکاح کا جو اسلامی تصور ہے وہ اس کوسامنے رکھا جاتا ہے،پھر یہی سے دیگر مذاہب کے ساتھ حرام طریقہ سے ازدواجی رشتے وجود میں آتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ بین المذاہب شادیوں سے نکاح کی اساس اور بنیاد ڈھیلی پڑجاتی ہے،نکاح کاتقدس اور احترام باقی نہیں رہتا،اگر وقت پر نکاح اور شادی کے بندھن میں نوجوان مرد وخاتون کو باندھ دیا جائے تو یقینا جا نبین کے لئے نفسانی خواہش برمحل اور بروقت پوری ہوگی،جس کے نتیجہ میںبین المذاہب شادیوں کی شرح میں کمی واقع ہوگی،لہذا والدین ،خاندان اور ہر مکلف کی ذمہ داری ہے کہ عقد نکاح میں تاخیر نہ کرتے ہوئے بروقت نکاح کرانے کی فکر کرے۔اپنی نسلوں پر رحم کریں اور وقت پر نکاح کا بندوبست کریں،یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے اور شریعت کا مطالبہ بھی۔۔۔۔۔ 

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے