از : نصیر احمد طاہر باپو آہ ! پھرایک ماہ درخشاں اپنے عقیدت مندوں کوداغِ مفارقت دے کر اور ہر نفس کو سوگوار کرکے سوئے آخرت چل پڑا۔إنّا للّٰه وإنّا اليه راجعون 15جولائی 2020ھ بدھ کا دن تھا، گز شتہ کئی دنوں سے اہل بھٹکل اور مولانا کے محبین مولانا کی صحت یابی کے لیے […]
آہ ! پھرایک ماہ درخشاں اپنے عقیدت مندوں کوداغِ مفارقت دے کر اور ہر نفس کو سوگوار کرکے سوئے آخرت چل پڑا۔ إنّا للّٰه وإنّا اليه راجعون 15جولائی 2020ھ بدھ کا دن تھا، گز شتہ کئی دنوں سے اہل بھٹکل اور مولانا کے محبین مولانا کی صحت یابی کے لیے بے تاب تھے اور ہر خاص و عام ، مرد و زن ، بچہ بوڑھا ، مولانا کی صحت کی خوش کن خبر سننے کے لیے بے چین تھے ۔ اسی بدھ کے دن ہی مولانا کی صحت کی تشفی بخش خبر موصول ہوئی تو بھٹکل کی عوام نے راحت کی سانس لی۔دل میں ڈھارس بنی،اطمینان کی سی کیفیت ہوئی،عقیدت مندوں کے حوصلے بڑھے اور امید کی کرن پھر سے فروزاں ہوئی۔دل نے بے دھڑک کہا کہ
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو
لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس چراغ کی لو ختم ہونے والی تھی اور جب چراغ کی روشنی ختم ہونے کو ہوتی ہے تو وہ چراغ تیز ہوجاتا ہے اس کی روشنی بڑھ جاتی ہے اور پھر یکلخت بجھ جاتی ہے۔ مولانا کی بھی یہی صورتحال تھی،مولانا کی صحت یابی کی خبر شاعر مشرق کی زبانی اس بات کی دستک دے رہی تھی کہ
کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں
اور پھر آخر کار اپنی حیات مستعار کے لمحوں کو مکمل کرکے بدھ کے دن عصر کے وقت یہ تھکا ہارا مسافر اپنی زندگی کی پچہتر بہاریں دیکھ کر اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر گیا ۔ لاجرم حضرت مولانا کا دنیا سے اٹھ جانا اہل بھٹکل ہی نہیں بلکہ ملّت اسلامیہ کا عظیم ترین اور ناقابل تلافی خسارہ ہے۔مولانا ملت کا قیمتی سرمایہ اور بیش بہا خزانہ تھے۔ قاضی صاحب نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصّہ دین کی خدمت میں اور ملّت کی رہبری کے خاطر صرف کیا،مولانا کئی ستو دہ صفات کے حامل تھے۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
ہندوستان میں فقہ شافعی کے ممتاز ترین علماء میں مولانا کا شمار ہوتا تھا،مولانا کو مسائل اور نکتے استنباط کرنے میں خاص درک حاصل تھا،مولانا کی بالغ نظری ، دور اندیشی،علماء اور محققین کے مابین مسلّم تھی۔ بڑے خاشع،خاضع، اور رقیق القلب انسان تھے۔منکسرالمزاجی اور سادہ زندگی میں یکتاۓ روزگارتھے۔ مولانا کی ہستی سراپاخُلق اور سرتاپاہنر تھی اور یہ بھی مولانا کا امتیاز تھا کہ مولانا ماہر فلکیات تھے،شہر بھٹکل اوردیگر شہروں کے اوقات الصلوة آپ ہی مرتب فرماتے تھے،مولانا علم کے موتی علمائے بھٹکل کے لیے بکھیر رہے تھے۔ اسی طرح مولانا کئی اداروں کے سرپرست اور ذمہ دار تھے، یہاں تک کہ بھٹکل سے بدعات اور خرافات کو ختم کرنے میں مولانا نے بڑارول ادا کیاہے۔بلکہ ان بدعات سے برسر پیکار ہونے کے لیےجوفوج تیار ہوئی آپ ہی اس کے قائد و سالار تھے۔ عبادات کے علاوہ عدل، عفو و حلم، صبرو استقامت، مروت و شرافت،شہامت کے اوصاف عالیہ سے آراستہ تھے۔ بڑے بردبار اور متحمل مزاج تھے، مجھے ہر دم مولانا کی ایک بات متأثر کرتی رہی وہ یہ کہ میں جب مسجد فاروقی میں جاتا تو مولانا اپنی ضعف اور پیرا نہ سالی کے باوجود کبھی بیٹھ کر نماز نہ پڑھتے بلکہ ضعف کے باوجود بھی ایک چست آدمی کی طرح کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔ بڑے شریف النفس ، رقیق القلب ، اور دل دردمند کے حامل تھے۔اہل بھٹکل پر ان کے بے شمار احسانات ہیں جن کو سنہرے حروف سےلکھاجاۓ گا۔ اس پر فتن اور نازک موڑ میں مولانا کی زندگی شہر بھٹکل پر رحمت خداوندی کے نزول کا سبب تھی لیکن
موت سےکس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
گزشتہ چار سا لوں میں اہل بھٹکل نے چار انمول خزانے کھو دیے، اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتےہیں کہیں سے آب بقاۓ دوام لا ساقی
مولانا کی زندگی کا ہر گوشہ روشن اور اہل علم ودانش کےلیے نمونہ تھا علامہ اقبال کی زبانی
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپادین و دنیا کا سبق تیری حیات
مولانا کی قبولیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس لاک ڈاؤن اور مختلف قوانین نافذ ہونے کے باوجود بھی ہزاروں لوگوں نے مولانا کی نماز جنازہ ادا کی اور مولاناسےاپنی عقیدت مندی کا اظھار کیا۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لےکر
اللہ مولانا کی مغفرت فرماۓ اور ملت کو انکا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین!
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں