معاصر افکاراور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا موقف-تقابلی مطالعہ

   محمد جواد الحسن
  ریسرچ اسکالر وشوا بھارتی یو نیورسٹی
                                                                           
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒایک عظیم علمی ودینی شخصیت تھے،ایک طرف خود ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہوا، اور دوسری طرف ان کودین و ملت کی تقویت ومدد کے لیے کام کی توفیق عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے پوری امت مسلمہ کے لیے اور خاص طور پر بر صغیر ہندوستان وبلاد عرب کے لیے ان کو اپنا فضل خاص بنایا،ان کی تعلیم وتربیت اور ان کی شخصیت کی تشکیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات اور اسباب مہیا فرمائے جن سے ان کی یہ علمی شخصیت بنی،یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل خاص ہوا،پھر شخصیت کی خصوصی تشکیل اور افادیت سے بھر پور صلاحیت ملنے کے بعدحضرت مولاناؒ نے اپنی پوری زندگی دینی تعلیم کو مؤثر اور زیادہ سے زیادہ سود مند بنانے اور دعوت حق اور فکر اسلامی کو تقویت دینے اور نشرو اشاعت کر نے میں صرف کی،مسلمانوں کے آپسی افتراق وگروہ بندی سے اپنے کو بلند رکھا اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ یکساں خیر خواہانہ تعلق و محبت کہ اس میں ایک طرف تواضع اور کسر نفسی کی شان تھی،اور دوسری طرف حوصلہ مندی اور حق بات جرأت وحکمت سے کہنے کا سلیقہ تھا،چنانچہ انہوں نے امت کے اہم موقعوں پراپنے مخاطبین سے اور جاہ وسلطنت کے ارباب سے نتیجہ خیز گفتگو اور خطاب کیا اور چونکہ حضرت مولاناؒ کی بات دلنواز اور مؤثر ہوتی تھی،لہٰذا حضرت مولاناؒ کے مشورے کی اور تشخیص مرض کی ان کی طرف سے عموماً قدر بھی ہوتی تھی۔
حضرت مولاناؒ جب عملی زندگی کے میدان میں داخل ہوئے تو ان کے سامنے ایک طرف مغربی علم وتمدن کی یلغار اور اس کے مقابلہ میں مغرب کی استعماری طاقت کے سامنے شکست خوردہ اور پسماندہ مشرق تھا،اور اس کے تناظر میں مسلمانوں کی بدحالی اور شکست خوردگی اور بے عملی تھی،دوسری طرف ان کے سامنے مسلمانوں کے ماضی کی تاریخ میں ان کی سیاسی وتمدنی سر بلندی اور علم وتحقیق کی عظیم سر پرستی کا منظر نامہ تھا، اور اسی منظر نامے کے ذیل میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کا مجددانہ کار نامہ،حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فکری وتعلیمی مصلحانہ کام اور حضرت سید احمد شہید ؒکی دینی وعملی سر بلندی کی تحریک کی تاریخ کے کھلے ہوئے صفحات تھے،اسلام کے ماضی بعید کے شکوہ وعظمت اور ماضی قریب کے ان زریں صفحات اور پھر موجودہ بدحالی اور پستی کا المیہ،ان پہلؤوں نے حضرت مولاناؒ کے قلب و دماغ کو جھنجھوڑا،اور انہوں نے اپنی عملی زندگی کو اپنے علم و دانش کی روشنی میں اس راستہ پر ڈالنے کی کو شش کی جس سے وہ تبدیلی لاسکیں جس کے ذریعہ مسلمانوں کا عظیم ماضی ان کے پس ماندہ حال پر اثر انداز ہو سکے۔ 
 مفکر اسلام ؒ کی ہشت پہل شخصیت،گوناگوں صفات وخصوصیات،ہمہ جہت تاریخ ساز کارنامے،افکارو آثار اور زریں خدمات اور کائنات ارضی میں ان کی محبوبیت ومقبولیت کے بارے میں حضرت مولاناؒ ہی کے محرم راز، مزاج شناس اور سفرو حضر کے رفیق مخدوم و مربی ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ فرماتے ہیں:
”حضرت مولاناؒ نے اپنی فکری ودعوتی جدوجہدمیں عہدحاضرکی فن کارانہ اورمختلف الجہات زندگی کی نفسیات کوبھی سامنے رکھااوراس کے لیے موزوں حکمت عملی اختیارکی، حضرت مولاناؒنے اصحاب اقتدار وسطوت سے مخاطبت میں حضرت مجددالف ثانیؒ کاطریقہ اپنانے کی کوشش کی، تعلیم وتربیت کے محاذ پرشاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تفہیم وتشریح کااسلوب اختیارکیا، اورفکرودانش کے میدان میں مذکورہ بالادونوں مجددین کے طریق فکر کے ساتھ قدماء میں سے ابن تیمیہؒ، ابن قیمؒ اورابن جوزیؒ کے طریقہئ تحقیق وتفہیم کواختیارکرنے کی کوشش کی، اورامت کی اصلاح اوراس کو سربلندی کی راہ اختیارکرانے کے لیے حضرت سید احمد شہیدؒ اور ان کی جماعت مصلحین کے اسلوب اصلاح کو اسوہ بنایا،حضرت مولاناؒ نے اپنے عہد کے مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے اختیارکردہ طریقہئ دعوت واصلاح کوقدرکی نظرسے دیکھا، اوراس کے ساتھ وابستگی بھی اختیارکی نیزاپنے عہدکی دوسری کوششوں کے مفیدپہلوؤں کوبھی سراہا، اس طر ح حضرت مولاناؒ نے امت کی اصلاح وترقی کے لیے ہمہ جہت فکروعمل کواختیارکیا، اور اس بات کی کوشش کی کہ جبکہ امت کی احیاء وترقی کامقصدپوری امت کامشترکہ مقصدہے توامت کے تمام گروہوں اورجماعتوں کواس کے حصول کے لیے اپنے فروعی اختلافات سے بالاترہوکرکام کرناچاہیے،حضرت مولاناؒنے اس کے لیے سب سے یکساں ربط وتعلق رکھتے ہوئے کم از کم اپنی ذات سے اس کابہترین نمونہ پیش کیا“۔
ہند وبیرون ہند میں مختلف تحریکات وافکار ایسے سامنے آئے جن سے اسلام کو بڑا خطرہ تھا،اگر بروقت ان خطرات کا تدارک نہ کیاجاتا تو آج اسلام کی ساکھ کو کس قدر یہ افکار نقصان پہونچاتے،ان کا اندازہ بھی نہیں لگا یا جا سکتا،یہاں ہم صرف ان افکار کا جائزہ لیں گے جو مفکر اسلام علیہ الرحمہ سے متعلق ہیں اور انہوں نے ان مواقع پر غیرت صدیقی کا ثبوت دیتے ہو ئے ایک مرد مومن کا کردار ادا کیا۔
 فکری کجی،اخلاقی بگاڑ،زوال انسانیت اور عروج،مادیت کادروازہ دشمنان اسلام نے ہر زمانہ میں کھولا،مگر بیسویں صدی میں اس کا دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا، حضرت مولاناؒ نے اس کا مقابلہ حکمت وفراست اور دور بینی سے کیا اور بڑے مؤثر انداز سے مسلمانوں اور برادران وطن کو مخاطب کیا،اور منفی تبدیلیوں کی پرزور مذمت کی،چنانچہ انہوں نے پراچین تہذیب وتمدن کے احیاء کی دعوت پر سخت نکیر کرتے ہو ئے فرمایا:
”آج ہرجگہ اورہرقوم میں پرانی تہذیب وتمدن کے احیاء کارجحان عام ہورہاہے، بعض لوگ دوہزارسال قبل کی تہذیب کوزندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں توکچھ دیگرلوگ چارہزاربرس قبل مسیح کی تہذیب کی واپسی کی سعی لاحاصل کررہے ہیں، یہ نعرہ بڑے شدومدکے ساتھ ان ملکوں میں بلندکیاجارہاہے، جہاں استعماری قوتوں سے حال ہی میں آزادی ملی ہے، اسی طرح آج قومی اورنسلی عصبیتوں کازورہے، اوراس منفی عصبیت کے بیماروں کاخیال خام یہ ہے کہ ان کی تہذیب اوران کی نسل، دوسروں سے افضل وبرترہے“۔
تقسیم سے قبل ہندوستان ایک  ایسا ملک تھا جہاں کے اتحاد مذاہب اور وطن کی مثال دی جاتی تھی مگر کچھ حالات ایسے پیش آئے کہ یہ امن وشانتی کا گہوارہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور مسلمانوں کو خاص طور پر بڑے جانی ومالی نقصان سے گزرنا پڑا،کچھ برسوں کے بعد اس سے بڑا سانحہ یہ پیش آیا کہ لسانی عصبیت کی بنیاد پر پاکستان بھی دوحصوں میں تقسیم ہو گیا اوراس میں بڑے نقصانات سامنے آئے،اس کی و جہ لسانی جاہلیت کار فرماتھی،اور یہ فکر کہ قومی اور ثقافتی ولسانی بنیاد پر یہ تقسیم عمل میں آئی ہے،اور یہ باور کرایا گیا کہ زبان وثقافت کی بنیادپرتقسیم وتفریق ہی قومی مسائل و مشکلات کاحل ہے۔
   لیکن حضرت مولاناؒ نے ان وطنی،لسانی اور تہذیبی نعرے بازیوں کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کی،کتابچے،پمفلٹس اور کتابیں لکھیں،تقریریں کیں، اورنسلی ولسانی عصبیت کوانسانیت اور قومیت کے لیے خطرہ بتایا،اور جب یہی نعرہ اسلامی ممالک میں بلند کیا گیا تو حضرت مولاناؒ نے سخت مذمت کی اور اس کے تدارک کے لیے سینہ سپر ہو گئے،اور اس خطرہ سے دنیا کو آگا ہ کیا۔
  قومیت کی دعوت، عرب ملکوں میں بغاوتوں اورانقلابات کے بعدعام ہوئی، اس دعوت کے علمبرداریورپی ملکوں کے تعلیم یافتہ مسیحی عرب نوجوان تھے،ان لیڈروں میں میشیل عفلق سب سے زیادہ پیش پیش تھے، یہ دعوت مصر وشام اورعراق میں خوب پھلی پھولی توحضرت مولاناؒ نے ایک پمفلٹ”عالم عربی کے لیے سب سے بڑاخطرہ“کے عنوان سے تحریرفرمایاجس میں قومیت عربیہ کی تاریخ کاجائزہ لیتے ہوئے لکھا:
”غیرمسلم مفکرین نے اس فلسفہئ قومیت کوجس چابک دستی اورذہانت سے مرتب کیاہے، اوراس میں جس طرح علمی (سائنٹفک) انداز فکر پیداکیاگیا، اوراس میں ایک عرب تعلیم یافتہ نوجوان کے لیے(جواحساس برتری کے نشہ سے سرشارہے)جوکشش پائی جاتی ہے، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے ہوگا جومشیل عفلق کی کتاب ”فی سبیل البعث“ سے اخذکیے گئے ہیں، جس کواس تحریک ودعوت کاصحیفہ کہناصحیح ہوگا:
 اسلام کوفتحیاب اورغالب ہونے میں جواتنی تاخیرہوئی، وہ دراصل اس وجہ سے تھی کہ عرب اپنی ذاتی کوشش اورجدوجہداوردنیاکے باہمی تجربات کی روشنی میں محرومی وموفوری کی بہت سی آزمائشوں اورامیدوبیم کی کشاکش سے نکال کرحقیقت تک پہونچ جائیں، یعنی ایمان خودان کے اندر سے پیداہو، جس کی بنیادذاتی تجربہ ہو، اوروہ زندگی کی گہرائیوں سے وابستہ حقیقی ایمان بن سکے، اس لحاظ سے اسلام ایک عربی تحریک تھا، اور اس کے معنیٰ عربیت کی تجدیدوتکمیل، اس لیے وہ معنی جس کو اس اہم ترقی اورتغیرکے اس اہم تاریخی دورمیں اسلام واضح کررہاہے، یہ ہے کہ ساری قوتیں، عربوں کی طاقت بڑھانے اوران کوترقی دینے پرصرف کی جائیں اورساری قوتیں عرب قومیت کے دائرہ کے اندر محصور ہوں“۔
اس تحریک کا بنیاد ی مقصد اورفکرو فلسفہ یہ تھا کہ:
”عرب بذات خود ایک وحدت(اکائی)ہیں،ان کے درمیان جو دینی، اعتقادی،ثقافتی اور سیاسی امتیازات ہیں، وہ سب مصنوعی اور عارضی ہیں، جو عرب احساس قومیت کی بیداری کے بعد خود بخود زائل ہو جائیں گے، اس تحریک و جماعت کا نعرہ اور دستور العمل یہ ہے کہ عرب ایک مستقل واحد امت ہیں جو ایک دائمی پیغام رکھتے ہیں“۔  
اس تحریک کا مقصد عربوں کو ماقبل اسلام دور (جاہلیت عربیہ) کی طرف لے جانا  تھا، جب نہ ان کے پاس نیا دین آیا تھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت و ہ آخری پیغام ربانی اور اس کی شریعت سے روشناس ہو ئے تھے، یہ تحریک دور جاہلیت کے سو رماؤں کو اپنا ہیرو سمجھتی ہے، جن کا عربی کی جاہلی شاعری اور تاریخ میں عظمت کے ساتھ نام آیا ہے، اور وہ ان پر فخر کرنے اور ان کے نام کو زندہ رکھنے کی تلقین کرتی ہے، اس کے ارکان نے اسلام سے مستغنی ہو کر اپنی زندگی کے لیے ایک نیا اصول اور فلسفہ ئ حیات و ضع کیا ہے جو آزاد قومیت عربیہ اور سیاسی و مادی اغراض سے میل کھاتا ہے۔
حضرت مولاناؒاس فکرو تحریک کے خطرناک نتائج کو واضح کرتے ہو ئے لکھتے ہیں: 
”ان سب قومی تحریکوں کے مقابلہ میں کسی عرب قوم کی قوم پرستی کی تحریک زیادہ خطرناک اور زیادہ سنگین نتائج کی حامل اس لیے ہے کہ وہ ان کو قدیم جاہلیت کے احترام اور اپنے آباء و اجداد کی تعظیم و تکریم کی طرف لے جاسکتی ہے، یا کم سے کم اس کی نفرت اور حقارت کو کم کر سکتی ہے، جس کو قرآن مجید نے کفر کے ایک معیاری دور کے طور پر پیش کیا ہے اور جس کی قباحت اور اس کے ساتھ نفرت کو مختلف طریقوں سے ابھارا ہے“۔
حضرت مولاناؒ نے قومیت عربیہ کے فتنہ کواس کے آثار نمایاں ہونے سے پہلے ہی محض اپنی ایمانی فراست کے ذریعہ محسوس کر لیاتھا، اور اس کوعالم عربی کے لیے سب سے بڑاخطرہ سمجھا، کیونکہ قومیت انسان کوتقسیم کرتی ہے، عصبیتوں کو جنم دیتی ہے، اورمختلف طبقات اورگروہوں کے درمیان عداوت ودشمنی کابیج بوتی ہے، اورتقسیم درتقسیم کانہ ختم ہونے والاسلسلہ چل پڑتاہے، چنانچہ ادھرماضی قریب میں دنیامیں قومیت کی بنیاد پر کئی سلطنتیں وجودمیں آئیں، فی الواقع یہ تحریک تمام انسانیت کے لیے خطرناک ہے، یورپ میں گرجاکے غلبہ والی جابرانہ حکومت، اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف ردعمل کی صورت میں اس رجحان کامشاہدہ کیاجاسکتاہے۔
دین واخلاق کے متوازی نظریہ قومیت کے خطرہ کے خلاف حضرت مولاناؒ کایہ مذکورہ موقف ابتدا ء ہی میں خطرہ کااحساس اور ادارک کرلینے کی صلاحیت کاثبوت ہے، ابتدائی مرحلہ میں دیگرعلماء اورزعماء، اورمفکرین اس خطرہ کونہ بھانپ سکے اورنہ ہی حضرت مولاناؒ کے موقف کی تائیدکرسکے لیکن جب پانی سر سے اونچاہوگیا، اورحالات بد سے بدترہوگئے، نظریہئ قومیت کے برے آثارظاہر ہونے لگے،دنیا نے اس الحادی نظریہ کی تباہیاں اور بربادیاں بچشم خود دیکھ لیں،اور نظریہ قومیت کے زیراثرممالک میں عرصہ دراز کے بعداس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں، تب علماء، قائدین اورمفکرین نے حضرت مولاناؒ کے موقف کی تائیدکی، ان کی دوربینی کے قائل ہوئے، اوراس فکرو تحریک کے خلاف حضرت مولاناؒ کے اقدام کوسراہااورداد تحسین پیش کی۔
آگے عالم عربی ہی کی ایک اور مثال لیجیے،حضرت مولاناؒ نے اپنی ایمانی فراست کی بدولت صدرصدام حسین، جمال عبدالناصرکی طرح ہی کرنل معمرقذافی کی حکمرانی کے خلاف بھی رائے قائم کی، لیکن اس مرتبہ بھی مسلم زعماء اوراہل فکرکرنل قذافی کی نام نہاد اصلاحات کی مسموم (زہریلی)لہروں کومحسوس نہ کر سکے،اوران لوگوں نے اس کوسامراج کادشمن، اسلام کاہیرواوراسلام اورمسلمانوں کانجات دہندہ تصورکیا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عوام وخواص کی رائے تبدیل ہوتی گئی اوربالآخر یہ لوگ حضرت مولانا ؒ کے موقف کی درستگی اوران کی فراست ایمانی کے قائل ہوئے، حضرت مولاناؒ تحریرفرماتے ہیں:
”حقیقت یہ ہے کہ کرنل معمرقذافی کی فکرمیں انقلابیت کاشروع سے غلبہ رہا، انھوں نے جواقدامات کیے،وہ انقلاب کی روح سے متاثر تھے، جمال عبدالناصر کے انتقال کے بعدسے خاص طورپران کوعالم عربی میں خلامحسوس ہوا، جس کوپرکرنے کے لیے انھوں نے صرف اپنے کواہل پایا اوراس مقصدکی تکمیل کے لیے وہ برابرکوشاں رہے، نیزاس نے ابتداہی سے یہ اندازہ لگالیاکہ یہ عہداسلام کی نشأۃ ثانیہ کاعہد ہے، اس لیے اس نے شروع سے اپنے کواس نشأۃ ثانیہ کاقائدتصورکرلیا، لیکن انقلابی ذہن، تربیت وتعلیم کی کمی، مغربی افکارکے اثرسے، جن کے سایہ میں ان کی پرورش ہوئی تھی، لیبیاکی دولت اوراس کی سیاسی، جغرافیائی اوراقتصادی اہمیت کے باعث اورحدسے بڑھی ہوئی خوداعتمادی کی وجہ سے اس نے یہ تصور قائم کر لیا کہ وہ اسلام جو کتاب وسنت سے ماخوذہے، اس انقلابی عہدکاساتھ نہیں دے سکتا، اس لیے اس نے اسلام کواپنے انقلابی ذہن کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کی تاکہ اس سے وہ ایسے اسلام کاایڈیشن تیارکرلے، جوا س عہدکے پورے مغربی نظام کے ساتھ چل سکتا ہو“۔اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مغربی تمدن وتہذیب کا آیا، لوگوں نے اس کو زندگی کی ضرورت سمجھ کر اپنا نا شروع کیا،اور جب معاملہ یہاں تک پہونچا کہ پورا عالم اسلام اس کی لپیٹ میں آنے لگا اور کو ئی واضح نقطہئ نظر سامنے نہیں آرہا تھا،تو اس فکر کے خلاف حضرت مولاناؒ نے یہاں بھی سخت موقف اختیار کیا،اس سلسلہ میں ان کاموقف منفرد اورجداگانہ تھا، ان کاموقف دیگرعلماء کرام اور مفکرین عظام کے نظریہ سے یکسر مختلف تھا،، حضرت مولاناؒ کاموقف بحث وتحقیق کاموقف تھا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ مغربی تمدن کی ہرقابل قبول چیزکوقبول کرلیا جائے جواسلامی ممالک اورمعاشرہ کے لیے مفیداوراس کے عقیدہ ونظریہ سے ہم آہنگ ہو،لیکن اسلام کی روح اوراس کی تعلیمات کی منافی چیز سے قطعی کنارہ کشی اختیارکی جائے، حضرت مولانا ؒنے مغربی تہذیب کے سلسلہ میں میانہ روی کی دعوت دی ہے، چنانچہ حضرت مولاناؒنے اپنی شہرہئ آفاق تصنیف”مسلم ممالک میں اسلامیت اورمغربیت کی کشمکش“ میں مغربی تہذیب پرمحققانہ نظر ڈالنے اوراس کے نتائج پرگفتگوکرنے کے بعدرقم طراز ہیں:
”اسلامی شخصیت اورملت مسلمہ کے وجودکے لیے مغربی تمدن کے خطرناک ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی کی سہولتوں سے استفادہ اورمغرب کی دریافت کردہ سائنس اورٹکنالوجی، ایجادات وتفریح وسہولت کے وسائل کومطلق حرام کہہ دیاجائے، اسلام ہمیشہ سے وسیع ذہن کا مالک اورہرصالح اورمفیدشے سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں فراخدل اورکشادہ چشم رہاہے اوررہے گا، لیکن اس معاملہ میں مغربی تمدن کا مفہوم آلات وایجادات اورزندگی کے مفیدتجربات سے استفادہ سے زیادہ وسیع معنوں پرمشتمل ہے اوروہ افکار واقدار اورمفاہیم ومطالب بھی اس میں شامل ہیں، جن پرمغربی تہذیب کی بنیادہے، پوری زندگی کومغربی رنگ اورتمدنی منصوبہ بندی کاتابع کرنااسی طرز حیات کواپنانا، جو اسلامی معیار طہارت ونظافت اوراعتدال ومیانہ روی کی روح سے بے گانہ ہے، آداب شریعت اورسنت نبوی ؐپرعمل کی راہ میں بھی رکاوٹ بن جاتاہے،اوراسلامی زندگی سے بھی بہت دورکردیتاہے“۔
اس موقع پر یہ بھی ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے حضرت مولاناؒ نے جس طرح عربوں کو خطاب کیا اور ان کو ان کا ماضی اور فرض یاددلایا اور جس جرأت وبے باکی سے اس موقف کوارباب حکومت کے سامنے رکھا،اس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔
حضرت مولاناؒ نے مصر اور مشرق وسطیٰ کے زعماء اور اسلامی قائدین کو خطاب کیا، حجاز کے سالانہ مشاورتی کونسلوں کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور مختلف ملاقاتوں میں اپنا درد دل سنایا، دمشق میں ممتاز اہل علم اور سیاسی اثر ونفوذ رکھنے والوں تک اپنی بات پہنچائی، شاہ اردن کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں، قضیہئ فلسطین اور اس کے حقیقی اسباب کا سراغ بتایا اورعلاج کا نسخہ دیا، کویت کے امرا ء ووزراء کو عربوں کی حقیقی ترقی اور صحیح اسلامی قیادت اور مشکلات کے حل کا راستہ سجھایا، شاہ فیصل سے بار بار ملاقاتیں کیں اور حجاز کے دروبام سے ہم آغوش ہوتی ہوئی مغربیت اور تجدد پسندی کے نتائج سے آگاہ کی، لبنان کے وزراء اور عمائدین کو درپیش چیلنجوں سے خبر دار کیا اور علاج کی تدابیر بتائیں، مراکش کے شاہ کے سامنے اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا، یمن کے اسفار ہوئے، امارات کے حکمرانوں نے آنکھیں بچھائیں، اور آپ نے ان کو پیغام محمدیؐ سنایا اور قائدانہ ذمہ داریوں کا احساس دلایا، غرض یہ کہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے، اپنی خصوصی ملاقاتوں سے، خطوط ومراسلت سے اور جلسوں اور اجتماعات کے توسط سے عربوں کو ان کے کھوئے مقام کی بازیافت کی دعوت دی اور نبوت محمدیؐ کی ابدیت وعالمگیریت سے ان کے رشتے کو استوار کیا،چنانچہ حضرت مولاناؒ شاہ فہد ابن عبد العزیز مرحوم کو اپنے ایک خط میں حالات کی نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے اپنے درد دل کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
”اگر ممکن ہوتا تو راقم سطور اپنے مضطرب اور بیتاب دل اور درد وکرب سے متاثر دماغ کو اس مخلصانہ عریضہ کے صفحات پر نکال کر رکھ دیتا، اگر روشنائی کے بجائے خون جگر اور آنسوؤں سے یہ تحریر رقم کی جاسکتی تو اس میں بھی دریغ نہ کرتا“۔
اس کے بعدحضر ت مولاناؒ دو چیزوں کی طرف بالخصوص توجہ دلاتے ہو ئے لکھتے ہیں:
”اس وقت تمام اسلامی ملکوں میں دو ایسے خلاء ہیں جن کو پر کرنا فوری طور پر ضروری ہے، ایک خلاء ہے مثالی معاشرہ کے فقدان کا جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہواور عقائدو اخلا ق سے لے کر معاملا ت اور زندگی کے تمام شعبوں میں وہ اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہو، انسان اس فضا اور ماحول میں امن وسکون اورطمانیت قلبی محسوس کرے، ایمانی خوشبو اس کے مشام جاں کو معطر کر دے۔
عالم اسلام کا دوسرا خلا کسی ایسی طاقتور مومنانہ دعوت وقیادت کا فقدان ہے جس کے اندر مرادنگی کا جوہر، بلند نگاہی، عالی ہمتی، دور اندیشی اور پیش بینی کے ساتھ ان بڑی طاقتوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت اور قدرت بھی ہو جنہوں نے بغیر کسی جواز واستحقاق کے نوع انسانی کے زمام قیادت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور جو اسلامی ملکوں اور قوموں کی قسمتوں کی مالک بن بیٹھی ہیں“۔
۲۲/نومبر ۶۷۹۱ء؁ کوحضرت مولاناؒ نے ولی عہد فہد بن عبد العزیزمرحوم کوملک کے اندورنی خطرات سے آگاہ کرتے ہو ئے لکھا:
”امیر معظم!صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملک اس وقت تیزی سے خود کشی کے راستے پر جا رہا ہے اور قوم کو دو طوفانی موجیں گھیرے ہوئے ہیں؛ ایک موج مال کی ہوس، اس میں اضافہ کی حرص، جائز و ناجائز ہر طریقہ سے اس کے حصول کی کوشش، جس کی وجہ سے تمام دینی اور اخلاقی قدریں، احترام انسانی، اور عالم اسلام سے آنے والوں اور یہاں بسنے والوں کے مفاد بھلا دیے گئے، اس رجحان کو ہم مادیت اور ہوس کے ”ہسٹریا“ سے تعبیر کر سکتے ہیں، جس کے سبب عجیب و غریب اور پیچیدہ مشکلات سامنے آ رہی ہیں۔ دوسری سر کش موج آرام طلبی و تفریح کا حد سے بڑھا ہوا شوق و شغف ہے، ملک اس وقت نغمہ و موسیقی اور لہو و لعب کے سیلاب میں تیر رہا ہے“۔
عرب ممالک میں عربی زبان وادب کی راہ سے الحاد آنے کا خطرہ ہوا اور یہ فکر عام ہو نے لگی کہ ادیب وہی ہے جوادیب کی وردی میں سامنے آئے خواہ اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو،اور کسی موضوع پر وہ قلم اٹھائے،حضرت مولاناؒ نے تحریک چلائی اور ادب اسلامی کی وضاحت کرتے ہو ئے فرمایا:
”ادب ادب ہے خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو، اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو، کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی، سننے والا اس سے لطف اٹھائے اور اس کو قبول کرے۔ حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو اسے پسند کیا جائے، بلبل کو آپ پابند نہیں کر سکتے کہ اس پھول پر بیٹھے اس پھول پر نہ بیٹھے، لیکن یہ کہاں کا حسن مذاق ہے اور یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی مے خانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے، اور اس سے لطف اٹھایا جائے اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں! کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنے نمود اور پنی جلوہ نمائی کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے 
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟“
اس کے بعدایک تنظیم”رابطہ ادب اسلامی“کے نام سے قائم ہو ئی جس کا صدر دفتر ریاض میں ہے،اور مختلف ممالک میں اس کی شاخیں ہیں۔
 حضرت مولاناؒ نے سرکاری اسکولوں میں دینیات کا نصاب نہ ہونے اور وہاں کے نصاب میں اسلامی عقائد کے خلاف باتیں ہو نے پر قاضی عدیل عباسی کی تحریک دینی تعلیمی کو نسل میں  صدر منتخب ہو ئے اور قیام سے لے آخر تک اس کے صدر رہے،اور بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے،جب حکومت نے بت پرستانہ گیت اور سرسوتی کے مجسمہ کے سامنے سرنگوں ہو نے پر اصرار کیا تو حضرت مولاناؒ نے نہایت سخت موقف اختیار کیا،اور دوٹوک اندازمیں کہا کہ مسلمان اس معاملہ کو ہر گزقبو ل نہیں کریں گے۔
اور پھر حکومت نے اپنے رویہ میں تبدیلی کی،وزیر اعظم نے وضاحت کی اور صوبائی وزیر ہٹادیے گئے۔یہ موقف حضرت مولاناؒ کی ایمانی فراست کی واضح دلیل تھی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک دن ہندوستان بھی اندلس بن جائے گا،اور اس میں ان کو بڑی کامیابی ملی،اس لیے کہاکرتے تھے کہ ہر جگہ مکاتب کا انتظام ضروری ہے اور یہ بڑے بڑے جامعات اور مدارس  سے زیادہ مفید ہیں۔
ہندوستان کے باشندوں میں ہندو مذہب کے بعداسلام کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، اور روزبروز دونوں مذاہب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی تھی اوردونوں ایک دوسرے سے بیگانے ہوتے جارہے تھے،حضرت مولانا ؒ نے اس کے لیے”تحریک پیام انسانیت“ شروع کی،ا ورا ن انسانی اقدار واخلاق جو تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں،جن میں سارے مذاہب کی تعلیم یکساں ہے،کوعام کیا، انہوں نے ایک اہم خطاب کرتے ہوئے کہا:
”کسی بھی معاشرہ کابگاڑاوراخلاقی اصول سے نظراندازی، حرص وطمع، بڑھی ہوئی مال کی محبت، ظلم وزیادتی،ناجائزقبضہ اوربرائیوں کا اثر اس میں ملوث افرادہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے اثرات پورے معاشرہ میں پھیل جاتے ہیں، اورہروہ معاشرہ جوان جرائم پیشہ افراد کو نظر انداز کرتاہے وہ خود ان جرائم میں مبتلاہوجاتاہے، ہمیں تاریخ میں بہت سی ایسی تہذیبیں اورثقافتیں نظرآتی ہیں جوعرصہ درازتک ترقی کے بام عروج پر متمکن تھیں، لیکن جب اس میں اخلاقی انتشارعام ہوا، حرص وہوس اورمال کی بڑی ہوئی محبت نے غلبہ پایا، انسانی ناموس وعزت کوپامال کیا جانے لگا اورلوگ اپنی نفسانی خواہشات اورذاتی اغراض کوپوراکرنے میں لگ گئے، دین ومذہب کی تعلیمات اوراخلاقی قدروں کوپس پشت ڈال دیاگیا، اوران کی تحقیروتضحیک کامعاملہ شروع ہوگیا، تویہ ترقی یافتہ تہذیبیں برباد اورنیست ونابودہوگئیں، مثلاًروم ٹھیک اس وقت اپنی برائیوں کی آگ میں جل رہاتھا، جب وہاں کے فلاسفہ، ادباء وشعراء اپنی بحث ونظر، تحقیق وتخلیق میں ہمہ تن مصروف ومنہمک تھے، اورنئی نئی تحقیقات، انکشافات و ایجادات اورعلمی کارناموں کاانبارلگارکرمعاشرہ کومسحورومبہوت کررہے تھے، لیکن چونکہ اندر سے معاشرہ کوگھن لگ چکاتھا، بگاڑ اور فسادگھروں سے نکل کر بازاروں اورسڑکوں تک پھیل چکاتھا، چھوٹے بڑے ہرطرح کے گھرانے اس میں ملوث تھے، مختلف طبقات آپس میں برسرپیکارتھے، ہرشخص بربادی، ظلم وزیادتی کے دہانہ پرکھڑاتھا، انہی وجوہات کی بناپرجب آتشیں آندھی چلی تواپنی فتوحات، تعمیرات، تہذیب اور معیار معیشت میں غیرمعمولی ترقی کے باوجود(جوضرب المثل کی حدتک پہونچ گئی تھی)رومن امپائراس سے بچ نہ سکااورنہ اس کادفاع ہی کرسکا“۔
اس تحریک نے بڑی کامیابی حاصل کی اور مخالف ومعاند سب ایک پلیٹ فارم پر آکر جمع ہوئے،ملک کے گوشے گوشے میں اس کے اجتماعات ہو ئے،آج بھی یہ تحریک اسی جذبہ کے ساتھ محو عمل ہے اور اس کے نتائج اس طرح سامنے آرہے ہیں کہ بہت سارے غیر مسلم اسلامی تعلیمات سے واقف ہو کر دین رحمت کی آغوش میں آچکے ہیں۔
حضرت مولاناؒ نے معاصر افکاراور عالم اسلام کے احوال وکوائف کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا، بیسویں صدی میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ملتی جس نے اپنی فراست ایمانی سے حالات کا اندازہ لگا کر اور ان کے فتنوں کو سمجھ کر مجددانہ موقف اختیار کیاہو،یہ صرف حضرت مولانا ؒ ہی کی خصوصیت تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان ہی فتنوں کی بیخ کنی کے لیے پیداکیا تھا،اور کہنے والوں نے بالکل سچ کہا کہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں ایسی خصوصیات ودیعت فرمادی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی کو مل جائے تو اس کے لیے سرمایہئ افتخار بن جائے۔
اس فراست ایمانی اوردین حنیف کی پاسبانی کا راز حضرت مولانا ؒنے ان الفاظ میں بتایا:
”اللہ تعالیٰ کواس دین کی حفاظت اور بقا منظور ہے اور دنیا کی رہنمائی کا کام اسی امت سے لینا ہے، جو کام وہ پہلے تازہ نبوت اور انبیاء سے لیتا تھا، اب وہ کام انبیاء کے نائبین اوراس امت کے مجددین ومصلحین سے لے گا“۔
چنانچہ جب جب ایسے حالات وافکار سامنے آئے اور فتنوں نے سر اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مولاناؒ کو کھڑا کیا اور ان کے ذریعہ وہ کام لیا جس کے اثرات آج دنیا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہی ہے۔
اللہ رب العزت حضرت مولاناؒ کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی خدمات کا انہیں بھر پور صلہ عطاکرے،آمین۔
مراجع:
۱-کاروان زندگی                        از       حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ
۲-عہد ساز شخصیت                      از       حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
۳-میر کارواں                          از       مولانا عبد اللہ عباس ندویؒ
۴-۸۴سال شفقتوں کے سائے میں       از        ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی
۵-افکارو آثار                          از        مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی
۶-سوانح مفکر اسلام                  از         مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی
۷-اکابر ومشاہیر امت کی نظر میں          از         مولانا ممشاد علی قاسمی
۸-دعوت وفکر کے اہم پہلو               از         مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی
۹-حضرت مولاناؒ کی مختلف اردو وعربی تصانیف
۰۱-حضرت مولاناؒ پرہندو بیرون ہند کے اردو مجلات کے خصوصی شمارے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30دسمبر2019
٭٭٭٭٭

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے