مولانا آزاد اور جوش ملیح آبادی کا یوم وفات

عارف عزیز(بھوپال)

 مولانا ابوالکلام آزادؔ اور جوشؔ ملیح آبادی دونوں ہم عصر وہم نوا تھے ایک میدان سیاست میں آگے بڑھ کر امام الہند ہوئے تو دوسرے اقلیم شاعری کے فرماں روا بن گئے، جوشؔ کی شاعری جب اپنے شباب پر پہونچی تب تک آزاد شاعری اور صحافت سے کنارہ کش ہوکر صرف سیاست کے خارزار تک محدود ہوگئے تھے زبان وادب اور علم وفن کا یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا لیکن اس کے ذریعہ اردو ادب کو ایک بیش بہا کتاب ”غبارِخاطر“ میسر آئی مولانا آزاد ۲۴۹۱ء میں قلعہ احمد نگر میں قید نہ ہوتے تو کبھی یہ کتاب وجود میں نہ آتی نہ ہی وہ رانچی میں نظر بندی کے دن نہ گزارتے تو ”ترجمان القرآن“ جیسی شہرہ آفاق تفسیر اردو زبان میں لکھی جاتی لیکن اس کے بعد عدیم الفرضی کا یہ عالم ہوا کہ عمر کے آخری حصہ میں ایک اور کتاب لکھنا چاہی تو خود نہ لکھ سکے بلکہ اپنے ماتحت وزیر پروفیسر ہمایوں کبیر کو ڈکٹیشن کرائی اور اردو کے بجائے انگریزی میں ”انڈیا ونس فریڈم“ کے نام سے شائع ہوئی۔
    اس طرح مولانا آزاد کی زندگی کا سارا وقت زبان وادب یا ملک وقوم کی خدمت میں صرف ہوا وہ جنگ آزادی میں صفِ اول کے رہنما تھے، جب صحافت کے میدان میں ان کو ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے درجن بھر اخبارات ورسائل کی تدوین کر ڈالی اور اعلیٰ نثر کے وہ جوہر دکھائے کہ ان کے ہم عصر حسرتؔموہانی بے ساختہ کہہ اٹھے   ؎
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں بھی مزا نہ رہا
    بعد میں وطن کو مولانا آزادؔ کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے پوری طمانیت قلبی کے ساتھ خود کو وطن کی خدمت میں اس طرح لگادیا کہ اس راہ کی ساری پریشانیاں خوش دلی سے برداشت کیں اور ایثار وقربانی کی ہر منزل طے کر ڈالی، ایک بلند پایہ عالم، ایک صاحبِ طرز ادیب، ایک مفکر قوم اور سیاسی رہنما برسوں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا لیکن سچے عاشق زار کی طرح زبان پر حرفِ شکایت کبھی نہ لایا۔
    قدرت کو منظور تھا کہ وطن کی آزادی کے لئے تو مولانا آزاد کی کوششیں بارآور ہوں لیکن ملک کی تقسیم کے المیہ کو وہ باوجود سعی ومحنت کے ٹال نہ سکے، اسی طرح ملت کی خدمت سے بھی وہ کبھی غافل نہ ہوئے، تقسیم کے بعد جب  مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ سرپر پاؤں رکھ کر ہندوستان سے پاکستان بھاگ رہے تھے تو یہ مولانا آزاد ہی تھے جنہوں نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کوپکارا اور دہشت زدہ وتباہ حال مسلمانوں کے اکھڑے قدم جم گئے، پھر مولانا نے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسری آواز لکھنؤ سے دی جہاں دسمبر۷۴۹۱ء میں ”مسلم کانفرنس“ کو مخاطب کرتے ہوئے فرقہ وارانہ سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور ان کی نصیحت کو مان کر مسلمان مختلف قومی وسیاسی جماعتوں میں ایسے سرگرم ہوئے کہ قومی دھارے کا ایک حصہ بن گئے لیکن مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں کو جو دوسری نصیحت کی تھی کہ ”وہ ملی امور میں اپنی دنیا آپ تعمیرکریں وہ اب تک پوری نہ ہوسکی اسی لئے ان کی سماجی، مذہبی  تمدنی اور تعلیمی ترقی رکی ہوئی ہے۔
    جوشؔملیح آبادی نے بھی نظم کے ساتھ نثر میں اعلیٰ تخلیق کے نمونے اپنی یادگار چھوڑے ہیں مولانا آزاد کی طرح وہ بھی آزادی کے نقیب اور حریت کے علمبردار تھے، اپنی قومی نظموں سے انہوں نے ہندوستانیوں کا دل گرمایا، بدقسمتی سے تقسیم ملک کے حالات کا وہ شکار بن گئے اور ترک وطن کرکے پاکستان پہونچے تو آخری عمر تک کافی پریشان رہے عجب اتفاق ہے کہ مولانا آزاد اور جوش جو اس جہاں میں ہم عصر وہم نوا تھے آخرت میں بھی ہم سفر ہوئے ان دونوں کی تاریخ  وفات ایک ہی ہے، ۲۲ فروری کو ہم آزاد اور جوش کی ایک ساتھ برسی مناتے ہیں تو بے ساختہ احساس ہوتا ہے کہ ”زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے؟

22 فروری2020

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے