آہ مولانا محمد یوسف اصلاحی بھی نہیں رہے

محمد قمر الزماں ندوی 

 موت سے کس کو رستگاری ہے
 آج ان کی، کل  ہماری  باری  ہے 

        مشہور عالم دین، مبلغ و داعی، متعدد کتابوں کے مصنف و مولف ہردل عزیز مقرر اور جامعة  الصالحات کے سرپرست جناب محمد یوسف اصلاحی آج 21/ دسمبر 2021ء  کو،اس دار فانی سے داری باقی کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ 
       یقینا مولانا ایک عظیم ہستی اور قیمتی سرمایہ تھے، جن کے چلے جانے سے بظاہر ایک خلا محسوس ہورہا ہے۔ 

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزئہ نورستہ، اس گھر کی نگہ بانی کرے 
   
        مولانا محمد یوسف اصلاحی مرحوم  عالم اسلام کے ایک نامور عالم دین، مشہور داعی اسلام اور معتبر اور مستند عالم دین تھے،علم و عمل کے جامع اور اعلی اخلاق و کردار کے حامل انسان تھے ۔ لہجے کی شائستگی، زبان کی شگفتگی اور موضوع کا ہمہ جہتی احاطہ ان کی پہچان اور شناخت تھی، اسلوب تحریر بہت دلچسپ اور نرالا تھا، تحریر میں بہت ہی سلاست اور روانی تھی، بہت آسان اور سلجھے ہوئے انداز میں لکھتے تھے جس کو سہل المتنع بھی کہا جاتا ہے۔ 
     مولانا محمد یوسف اصلاحی 9/ جولائی 1932ء کو ضلع اٹک (موجودہ پاکستان) کے ایک گاؤں پر ملی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد محترم شیخ الحدیث مولانا عبد القیوم خاں کی نگرانی میں پر ملی میں حاصل کی، حفظ و تجوید کی تکمیل کے بعد اسلامیہ انٹر کالج بریلی سے ہائی اسکول کیا، اس کے بعد علوم اسلامیہ کے حصول کے لیے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا، وہاں ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے۔ کسی وجہ سے تکمیل سے پہلے ہی وہاں سے مدرسہ الاصلاح اعظم گڑھ گئے۔ وہاں چار سال رہ کر سند فضیلت حاصل کی اور تحریک اسلامی کی عظیم شخصیت مولانا اختراحسن اصلاحی رح سے خصوصی استفادہ کیا جو عبقری اور عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے۔ 
     مولانا محمد یوسف اصلاحی رح کم عمری میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے۔ 25/ سال کی عمر میں جماعت کے رکن اساسی بنے، گزشتہ کئی میقاتوں سے اس کی مرکزی مجلس شوریٰ، کے رکن چلے آرہے تھے۔ 
       اللہ تعالیٰ نے مرحوم مولانا محمد یوسف اصلاحی کو بے پناہ انتظامی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا، انتظام و انصرام کی اس صلاحیت میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز  و نمایاں تھے۔ لڑکیوں کی قدیم ترین دینی درسگاہ اور مقبول ترین دانش گاہ جامعة الصالحات رام پور کے وہ ناظم، مرکزی درسگاہ اسلامی رام پور کے صدر اور اس کے علاوہ ہند اور بیرون ہند کے متعدد تعلیمی اداروں کے سرپرست اور رکن بھی تھے۔ مشہور دعوتی رسالہ ماہنامہ ذکری کے مدیر بھی رہے،تقریباً ساٹھ مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔ جن میں آسان فقہ، قرآنی تعلیمات، حسن معاشرت ، اسلامی معاشرہ، خاندانی استحکام، شعور حیات، آداب زندگی،تفسیر سورہ صف، اور تفسیر سورہ یسین کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ آداب زندگی تو ان کی بے نظیر و بے مثال کتاب ہے، اس کتاب نے برصغیر ہند و پاک شہرت و مقبولیت کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے وہ کسی اور کتاب کے حصے میں کم ہی آسکا ہوگا۔ اس کتاب سے راقم الحروف نے بھی تحریر و تقریر میں بھر پور استفادہ کیا  ہے، اس اعتبار سے وہ میرے محسنوں میں سے تھے اور یہ کتاب میری محسن کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں مولانا مرحوم نے نہایت سادہ و سلیس اور شگفتہ انداز میں کتاب و سنت کی روشنی میں سلیقہ و تہذیب عبادت و بندگی، تعمیر و تزئین معاشرت اور دعوت دین کے گوشوں اور پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ یہ کتاب ہر طبقے اور ہر عمر اور مرحلے کے لوگوں کے لیے مفید ہی نہیں مفید ترین ہے ۔ اس کتاب آداب زندگی میں اسلامی تہذیب کے  اصول و آداب کو معروف تصنیفی ترتیب میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب اللہ، اسوہ رسول ﷺ اور اسلاف کے زندہ و جاوید آثار کی رہ نمائی اور اسلامی ذوق و مزاج کی روشنی میں زندگی کا سلیقہ سکھانے والا یہ مجموعہ مرتب کیا گیا ہے۔ 
       اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے، ان کی خدمت کے شایان شان جنت میں بلند مقام نصیب فرمائے، امت کو ان کا نعم البدل اور تمام متعلقین و وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین 
   ان کے انتقال کی خبر سن کر ذہن میں یہ شعر گردش کرنے لگا تھا کہ 

 جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 
کہیں سے،   آب   بقائے   دوام   لا  ساقی

«
»

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 16

’’کیوں‘‘ سے آغاز کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے