مولانا واضح رشید اعلیٰ اللہ مقامہ

حفیظ نعمانی

علی کا گھر بھی کیا گھر ہے کہ اس گھر کا ہر ایک بچہ
جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے
1945ء میں جب والد ماجد بریلی سے ہمیں لے کر ندوہ میں داخل کرانے کیلئے آئے تو ندوہ میں ہی مولانا علی میاں کے ساتھ مہمان خانہ میں قیام ہوا۔ اس وقت دارالعلوم ندوہ کے مہتمم مولانا محمد عمران خاں صاحب تھے اور ناظم مولانا علی میاں کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید عبدالعلیؒ تھے۔ ہمارا داخلہ عربی کے تیسرے درجہ میں ہوا اور شبلی ہاسٹل میں رہنے کے لئے کمرہ ملا درجہ میں پہلے دن آئے تو ان لڑکوں سے تعارف ہوا جو شہر میں رہتے تھے اور ان میں ہی واضح رشید بھی تھے جو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مولانا علی میاں کے بھانجے ہیں اور مولوی رابع کے جو اپنے ماموں جان کے ساتھ بریلی آئے تھے ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
دو سال ہم دونوں نے ساتھ پڑھا وہ جتنے سنجیدہ اب تھے اتنے ہی کم سخن کم گو اور سنجیدہ ان دو برسوں میں رہے۔ ہمارے ساتھ ٹوٹ کر محبت کرتے اور اسباق میں مدد کرنے کے باوجود ان کی سنجیدگی میں فرق نہیں آیا۔ ان کے بڑے بھائیوں میں اس وقت مولانا محمد ثانی اور مولانا محمد رابع دونوں تھے اور کوئی اتنا خاموش نہیں تھا۔
دو سال ساتھ رہنے کے بعد ہم دیوبند چلے گئے اور وہ ندوہ میں ہی پڑھتے رہے اس کے بعد جب رمضان کی چھٹی میں ہم آتے تھے تو وہ رائے بریلی جاچکے ہوتے تھے۔ اس طرح کئی برس ایسے گذرے کہ کہیں کہیں سامنا ہوگیا۔ پھر ہماری بھی عملی زندگی شروع ہوگئی اور مولوی واضح کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ دہلی آل انڈیا ریڈیو کے عربی شعبہ سے وابستہ ہوگئے۔ یہ معلوم ہوچکا تھا کہ دہلی میں لال کنوئیں پر وہ اپنے عزیز کے یہاں مقیم ہیں۔ ایک دفعہ دہلی میں ان کے گھر کے قریب ہی جانا ہوا تو ملنے کیلئے چلے گئے۔ گھر کے اوپر کے حصہ میں ان کا قیام تھا وہاں گئے تو دروازے پر کالے رنگ کی چمچماتی ایمبیسڈر گاڑی کھڑی تھی۔ اوپر گئے تو مردانہ کمرہ میں بلالئے گئے چند منٹ کے بعد شیروانی پہنے واضح میاں نکلے اور دو منٹ کے بعد معذرت کی کہ میں ریڈیو اسٹیشن جارہا ہوں آپ دہلی میں ہیں تو دوپہر کے بعد چاہے جس دن آجائیں۔ ظاہر ہے وہ کسی بڑے عہدے پر تھے جو اُن کو لانے اور پہونچانے کیلئے گاڑی آتی تھی۔ کسی نے بتایا تھا کہ وہ پندرہ برس یا زیادہ وہاں رہے اور عالم اسلام کے لئے پروگراموں کی نگرانی کرتے رہے۔
پھر اچانک معلوم ہوا کہ وہ تعلق ختم کرکے ندوہ میں آگئے۔ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نے مولانا علی میاں سے فرمایا کہ اس خاندان کے بچوں کو سرکاری نوکری نہیں زیب دیتی اور مولوی واضح ہزاروں روپئے کی ملازمت پر لات مارکر ندوہ کے سیکڑوں میں گذر بسر کرنے لگے۔ شاید یہ بات غلط نہ ہو کہ وہ اپنے خاندان میں علمی اعتبار سے سب سے فائق تھے وہ سر سے پاؤں تک صرف علم تھے یہ ان کی کم سخنی اور کم گوئی تھی کہ ملک کے ان معاملات میں جن میں مٹھی بھر علم والے بھی بولنا ضروری سمجھتے ہیں وہ خاموش رہتے تھے۔ کبھی کبھی سہارا میں مضمون لکھ دیتے تھے۔ ان کے والد ماجد عبدالرشید صاحب بولنے سے معذور تھے اس کا اثر نہ مولانا ثانی میں آیا نہ مولانا رابع میں سب سے چھوٹے مولوی واضح شاید اسی اثر سے متاثر تھے۔ وہ آخر میں ناظم تعلیمات بنا دیئے گئے تھے جس کے لئے ان سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا۔ وہ انتہائی کامیاب استاد تھے اور جس نے ان سے پڑھا وہ ان کا عاشق ہوگیا۔ فطرت کے اعتبار سے وہ فرشتہ تھے اور محفوظ عنی الخطا تھے یہ ان کی ولایت ہی تھی کہ انہیں اِس دنیا سے اُس دنیا میں جانے کے لئے نہ نرسنگ ہوم کی سیڑھیاں چڑھنا پڑیں اور نہ اپنی انتہائی حلال کمائی کا کوئی روپیہ ڈاکٹر کو دینا پڑا۔ مجھے واضح سے للّہی محبت تھی۔ وہ جب ملتے تھے تو یہی محسوس ہوتا تھا کہ کسی فرشتہ سے مل رہے ہیں دعا ہے کہ وہ شیخ الحدیث مولانا زکریا کے پڑوس کے محل میں ملیں۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے