مولانا سید محمد یحیی ندویؒ ، علم و فضل کا ایک بحرِ بے کراں

فیصل احمد ندوی

استاد تفسیر وحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو

ڈیڑھ مہینے سے جو کھٹکا لگا تھا آخر وہ حادثہ پیش آہی گیا، تقدیر سے کس کو مفر ہے!  ۲۱/ فروری کو شام  (جب مولانا پٹنہ میں اپنے فرزند کے یہاں تھے)دیر تک پورے انشراح ونشاط کے ساتھ ہم سے گفتگو کی، بڑی خوشی سے ہمیں بتایا کہ فلاں کتاب ان کے پاس آچکی ہے، ہم نے ایک نہایت خوش کن بات مولانا کو بتائی تو مولانا خوشی سے جھوم اٹھے، اور ہم سے کہا آپ آجائیے، یہ منگل کا دن تھا، ہم نے ایک دن کے بعد جمعرات کا ٹکٹ بنوانے کے لیے کہہ دیا مگر ہائے!  بدھ کا دن ختم ہوا بھی نہیں تھا کہ مولانا کے گھر سے فون آیا کہ مولانا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے، زبان بالکل بند ہوگئی ہے، کھانا پینا مشکل ہے، لقوہ کا اثرہے، پٹنہ کے ہسپتال میں آئی سی یو میں داخل ہیں، میں سرپکڑ کر رہ گیا، اب سفر بھی کریں تو زیارت نہیں ہوسکے گی، اس لیے فی الحال سفر کا ارادہ ملتوی کیاگیا، اور ہم نے بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ عرب وعجم میں مولانا کے اکثر شاگردوں کو اس کی اطلاع دی اور دعاؤں کا سلسلہ جاری ہوا، طبیعت کچھ سنبھلنے لگی، اور کچھ کچھ امید بندھنے لگی، پہلے آئی سی یو سے باہر، پھر ہسپتال سے گھر، پھر پٹنے سے اپنے گاؤں سانحہ (ضلع بیگوسرائے)منتقل کیے گئے، ہوش وحواس پہلے سے پوری طرح قائم تھے، البتہ کمزوری بہت بڑھ گئی تھی، ہر بات سمجھتے تھے، مگر بول نہیں پاتے تھے، غذا کے لیے نا ک میں پائب لگا ہوا تھا، اب ماشاء اللہ طبیعت بہتری کی طرف مائل ہے، بیٹھ کر اطمینان سے نماز پڑھ رہے ہیں، بلکہ چائے تک منھ سے پی ہے، دوچار روز کے بعد یکایک غذا کے پائب میں بلغم جمع ہوگیا، اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگی، پھر پٹنہ لاکر ہسپتال میں داخل کیاگیا، دور چار روز کے بعد پھر سانحہ واپسی ہوئی، اب کچھ بولنے کی بھی کوشش کررہے تھے، ہم مسلسل مولانا کے فرزند محترم سید جنید انور عرف آغا اورمولانا کے قریبی عزیز مولانا سید محتشم ندوی سے رابطے میں تھے۔ ۲۷/ مارچ کو ہم نے فون کر آغا بھائی کو بتایا کہ رمضان کا مہینہ ہے مولانا کو اچھے قاری سے قرآن سنواتے رہیے اور مولانا چوں کہ ہروقت حدیث پڑھتے سنتے رہتے تھے، اس لیے ان کو حدیث بھی سنوائیے تاکہ کچھ سکون ملے، تھوڑی دیر بعد آغا بھائی نے واپس فون کیا کہ لیجیے مولانا سے بات کیجیے اور حدیث پڑھیے مولانا سب سن سمجھ رہے ہیں، ہم نے سلام کیا، مولانا کی کچھ آواز آئی جو بالکل سمجھ میں نہیں آرہی تھی، ہم اس وقت مسجد میں تھے، ہمارے پاس حدیث کی کتاب نہیں تھی، ہم نے صرف حدیث نیت ‘‘انما الاعمال بالنیات ’’پوری پڑھی، ۵/اپریل کو ہم نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ مولانا کی طبیعت پھرخراب ہوگئی ہے اور بیگوسرائے لایاگیا ہے، مگرڈاکٹروں نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے گھر لے چلنے کو کہا، دو دن مولانا گھر رہے اور کل ۸ /اپریل ۲۰۲۳ رمضان مبارک ۱۴۴۴ھ کی سترہویں (اٹھارویں) شب تقریبا ً گیارہ بجے داعی اجل کو لبیک کہا، اور ایک پوری تاریخ اپنے ساتھ لے گئے۔ علم کا سوتا  خشک ہوگیا، فضل وکمال کا آفتاب گہنا گیا، سادگی اور تواضع کا پھول مرجھاگیا، معلومات کا خزانہ بند ہوگیا، اور تاریخ کے بہت سے اسرار ہمیشہ کے لیے ان کے ساتھ دفن ہوگئے!۔

مولانا سادات حسینی واسطی کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے مورث اعلی سید احمد جاجنیری سلطان شہاب الدین غوری کے ساتھ ہندوستان آئے تھے، ان کی آٹھویں پشت میں سید معین الدین احمد جاجنیری نے بڑی شہرت حاصل کی ۔ سانحہ ،شاہ شجاع (بن شاہ جہاں، گورنر بنگال) کی طرف سے ان کو جاگیرمیں ملاتھا، پہلے یہ ضلع مونگیر میں شامل تھا، اب بیگوسراے کے تابع ہے۔ یہیں ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۳۰ء میں مولانا کی ولادت ہوئی۔ مولانا کے والد محترم سید فضل الکبیر علمی ودینی مزاج کے حامل بڑے زمیندار شخص تھے۔ انھوں نے اپنے یہاں ایک مدرسہ قائم کیاتھا۔ مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی نے اپنی نوجوانی میں کچھ عرصہ یہاں پڑھایا ہے۔ سید فضل الکبیر صاحب آج سے ستر اسی سال قبل مصر  سے کتابیں منگواتے تھے۔ چھ سال کی عمر میں مولانا نے اپنے والدین اور نانی کے ساتھ پہلا حج کیا۔۱۹۴۴ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ ہوا اور ۱۹۴۸ء میں عالمیت سے فراغت حاصل کی، علامہ سید سلیمان ندوی کے صاحبزادے مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی اور مولانا سید حبیب الحق ندوی (ڈربن) ان کے ساتھیوں میں تھے۔ ندوے میں تعلیم کے زمانے میں اور اس کے کچھ بعد تک مولانا پر علم ادب کا غلبہ رہا، وہ ادب کی اعلی تعلیم کے لیے مصر جانا چاہتے تھے۔ علامہ عبدالعزیز میمن کی کوشش سے جامعۃ القاھرۃ سے منظوری بھی آگئی تھی۔ جب تیاری کے لیے گھر آئے تو والدہ مضطرب ہوگئی کہ ہمیں چھوڑ کر اتنی دور جارہے ہو (مولانا والدین کے اکلوتے تھے) والدہ کی بے چینی کی وجہ سے مولانا نے بغیر پس وپیش کیے مصر جانے کا ارادہ ختم کردیا، اور علی گڑھ واپس آکر تعلیم میں مشغول ہوگئے۔ ندوے سے فراغت کے بعد مولانا نے علی گڑھ کا رخ کیا تھا، تاکہ علامہ عبدالعزیز میمن (ت: ۱۹۷۸ء) سے ادب اور مفتی عبداللطیف رحمانی (ت: ۱۹۵۹ء) سے حدیث کی تکمیل کریں۔ مفتی عبداللطیف صاحب اسی کے قریب زمانے میں مسلم یونی ورسٹی کے شعبہء دینیات کی صدرات سے وظیفہ یاب ہوئے تھے اور علی گڑھ  ہی  میں مقیم ہوگئے تھے، وہ استاد الاساتذہ حضرت مفتی لطف اللہ علی گڑھی (ت: ۱۳۳۴ھ) کے مستقل آخری تدریسی دور کے ممتاز ترین شاگرد اور حضرت مولانا شاہ فضل ِرحمن گنج مراد آبادی (ت:۱۳۱۳ھ) کے مسترشد اور حدیث میں اجازت یافتہ تھے،  وہ ندوۃ العلماء کے سب سے پہلے مفتی اور دارالعلوم ندوہ کے اولین مدرس تھے۔ پھر مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے صدر مدرس، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے شعبہء دینیات کے صدر اور اخیر میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں شعبہء دینیات کے صدر تھے۔ وہ فقہ و حدیث کے ماہر اور نہایت راسخ عالمِ دین تھے، (اسی پر ہماری کتاب ان شاء اللہ عنقریب شائع ہوگی)  مولانا یحیی صاحب بیک وقت علامہ عبدالعزیز میمن اور مولانا بدرالدین علوی (ت: ۱۹۶۵) سے ادب اور مفتی عبداللطیف سے حدیث کی کتابیں پڑھنے لگے، اس سے علم حدیث سے اشتغال بڑھا، مولانا فضل اللہ جیلانی (ت: ۱۹۷۹ء) کی صحبت نے ذوقِ حدیث کو مہمیز کرنے کے ساتھ اصلاحِ قلب کی طرف متوجہ کیا اور بالآخر انھی کے مجاز ہوئے۔پھر مولانا حبیب الرحمن اعظمی (ت: ۱۹۹۲ء) کی طول رفاقت نے علم ِحدیث اور عمومی ذوقِ تحقیق کو دوآشتہ کیا۔

مولانا کی شادی مولانا لطف اللہ رحمانی کی صاحبزادی  (حضرت مولاناسید محمد علی مونگیری کی پوتی ) سے ہوئی جو حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی سگی خواہر زادی ہیں، اور ابھی ماشاء اللہ حیات ہیں، مولانا کی شادی میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی بھی تشریف لائے تھے۔

ایک زمانے میں مولاناسیاست میں بھی سرگرم رہے، جمعیت علماء ہند کے اسٹیج سے پورے بہار کے دورے کیے، کچھ عرصے جمعیت علماء کے صوبہ بہار میں  نائب صدر بھی رہے۔

مولانا خالص علم ومطالعے کے آدمی تھے، علمی ذوق ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا، اہل نظر نے نوجوانی ہی میں مولانا کو پہچان لیا تھا، مولانا گیلانی نے مفتی ظفیر صاحب کے نام خطوط میں آپ کی صلاحیتوں کا بلند الفاظ میں ذکر کیا ہے، جب کہ مولانا کی عمر ابھی بیس سال سے کچھ ہی زیادہ تھی، لیکن افسوس مولانا کسی مدرسے میں رہے نہ کسی علمی ادارے سے وابستہ ہوئے، اس لیے مولانا کی صلاحیتیں ہمیشہ مخفی رہیں، اور لوگوں نے مولانا کو پہچانا ہی نہیں، تاہم مولانا کے اساتذہ :مولانا عبدالعزیز میمن، مولانا بدرالدین علوی اور مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے اپنے بعض علمی کاموں میں مولانا کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور بعض نے اس کا ذکر واعتراف بھی کیا ہے۔

مخطوطا ت شناسی میں مولانا بڑے ماہر تھے، عابد رضا بیدار جب خدا بخش لائبریری پٹنہ کے ڈائرکٹر تھے، اس وقت انھوں نے مولانا سے خوب کام لیا، مولانا نے ہمیں بتایا کہ کتنے مخطوطات میں صفحات اِدھر اُدھر تھے، اور اسی طرح ان کی تجلید کی گئی تھی، اور کتنے مخطوطات دوسروں کی طرف منسوب تھے، ہم نے بڑی محنت سے یہ سب پڑھ کر اندرونی وبیرونی شواہد سے ان کی تصحیح کی، جب بھی بیدار صاحب کو مخطوطات کے سلسلے میں کوئی دشواری پیش آتی تو وہ مولانا کو بلا بھیجتے اور آپ سے مدد لیتے۔ مولانا نے متعدد گہرے علمی وتحقیقی کام کیے، بعض مخطوطات کی تحقیق کے سلسلے میں حیدرآباد میں عرصے تک مقیم رہے اور مکتبہ آصفیہ اور سالار جنگ میوزیم کی لائبریری سے خوب فائدہ اٹھایا۔

مولانا نہایت بے نفس انسان تھے، بلکہ کہنا چاہیے کہ مزاج میں لاابالی پن تھا، اس لیے اپنے کسی کام کی اشاعت کے لیے اہتمام کیا نہ کوشش کی، اس لیے معدودے چند مضامین کے علاوہ ان کی کوئی چیز شائع نہیں ہوسکی، اور بہت سے کام محفوظ بھی نہیں رہ سکے!۔

ایک واقعے سے مولانا کی بے نفسی کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے، مولانا نے خود ہم سے بیان کیا کہ انھو ں نے ایک قیمتی مخطوطہ ایڈٹ کیا، ایک صاحب نے ان سے لیا کہ بیروت سے اس کو شائع کریں گے، مولانا نے بتایا کہ پھر انھوں نے اپنے نام سے اس کوشائع کیا، ہم نے پوچھا کون صاحب تھے؟ کیا مخطوطہ تھا؟ مولانا نے بڑی بے نفسی سے کہا جانے دیجیے انھوں نے شائع کیا اور کچھ پیسے کمالیے، چھوڑیے، اب اس کا ذکر کرکے کیا کریں گے، مولانا نے اس مخطوطے کا نام بھی نہیں بتایا کہ پھر ان صاحب تک رسائی نہ ہوجائے۔مولانا کے بعض  علمی کام ہمارے علم میں ہیں جن میں اکثر محنت مولانا کی ہے مگر دوسروں کے ناموں سے شائع ہوئے  جن کی  تفصیل میں جانا مناسب نہیں۔

مولاناکے علمی کاموں کی تفصیل کے لیے مستقل مضمون کی ضرورت ہے،اس مختصر مضمون میں اس کی گنجایش نہیں، مولانا کے بڑے صاحبزادے محترم سید عیسی صاحب نے مولانا کے سامنے تقریباً پانچ سال پہلے ہم سے کہا کہ ہم تو ابا کو مسلسل چالیس سال سے کچھ لکھتے ہی دیکھتے ہیں، معلوم نہیں یہ سب لکھا ہوا کہاں گیا، مولانا نے بے پروائی سے فرمایا  ارے یہیں کہیں ادھر ادھر پڑا ہوا ہوگا۔

مولانا کا مطالعہ نہایت وسیع اور متنوع تھا، تفسیر، حدیث، علوم حدیث، رجال، تاریخ، فقہ، ادب، لغت ہر فن کی بڑی بڑی کتابیں مولانا نے پوری پڑھی تھیں، حدیث ورجال پرسب سے زیادہ نظر تھی، فتح الباری، عمدۃ القاری، التمھید لابن عبدالبر، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، وغیرہ کئی کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل کتابیں انھوں نے پوری پڑھی تھیں۔ وہ بہت سی مشہور کتابوں پر اپنی راے  رکھتے تھے۔ ان کے تبصرے گہرے مطالعے کے غماز ہوتے تھے، کتابوں کی طرح اداروں بلکہ افراد کے بارے میں بھی نپی تلی راے رکھتے تھے، ایک دوملاقاتوں میں وہ لوگوں کو پرکھ لیتے تھے، اکثر تبصرے محفوظ رکھتے اور کبھی کبھی نجی مجلسوں میں اظہار بھی کردیتے تھے، متعدد موقعوں پر فون پر ہم سے کہا ہم تم کو ملاقات پر بتادیں گے، کبھی لوگ پاس بیٹھے ہوں اور کسی مناسبت سے کوئی بات یاد آگئی اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار مناسب نہیں سمجھتے تھے تو ہم سے مخاطب ہو کر کہتے ہم آپ کو بعد میں بتائیں گے، کبھی کوئی اس طرح کی کوئی بات پوچھتا تو خوبصورتی کے ساتھ ٹال دیتے تھے ارے اس کا کیا فائدہ چھوڑیے اپنا کام کیجیے۔ اہل علم وادب اور اصحاب فضل وکمال اور علماء مشائخ کے بارے میں ان کی معلومات حیرت انگیز تھیں، وہ ایسے ایسے واقعات وحکایات بیان کرتے جو کہیں سننے یا پڑھنے میں  نہ آتے۔ بالخصوص حضرت مونگیری ؒ، مولانا گیلانی ؒ اور اس دیار کے علماء کے بارے میں وہ نادر معلومات رکھتے تھے۔ مولانا ولی رحمانیؒ نے  کئی دفعہ مولانا سے عرض کیا کہ حضرت مونگیری کے بارے میں آپ اپنی معلومات لکھوادیجئے۔ لیکن مولانا تیار نہیں ہوئے اگر مفتی ظفیر صاحب حیاتِ گیلانی مولانا کے سامنے اور ان کے تعاون سے لکھتے تو یہ کتاب اپنی افادیت میں بہت بڑھ جاتی۔

اس سے زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز مخطوطات اور نئی نئی مطبوعات کے بارے میں ان کی واقفیت تھی، جو بھی باذوق ان سے ملا ضرور متاثر ہوا، بعض عرب علماء  ومحققین کو ہم نے خود دیکھا مولانا یحیی صاحب اس طرح کی باتیں کرتے تو وہ حیرت سے منھ تکتے، شیخ صفوان عدنان داودی جیسے عالم ومحقق نے خود ہم سے کہا کہ یہ شخص ایک دیہات میں بیٹھ کر کیسی کیسی معلومات رکھتاہے!!

شیخ صفوان عدنان داودی کے علاوہ شیخ حامد اکرم بخاری (مدینہ منورہ) شیخ احمد عاشور(مدینہ منورہ) شیخ عادل امین حرازی یمانی ندوی (مقیم قطر) شیخ محمد زیاد التکلہ (مقیم حال انگلینڈ) شیخ خالد آل ثانی (قطر) شیخ عمر حبیب اللہ (جدہ)  شید ماجد الحکمی (مکہ مکرمہ) سبھی مولانا کی معلومات سے متاثر تھے۔ جب پہلی دفعہ قطرگئے پانچ سال قبل تو شیخ عادل نے وہیں سے ہمیں فون کیا کہ کیسا خزانہ آپ لوگوں نے چھپا رکھا تھا یہ تو علم ومعلومات کا خزانہ ہے خزانہ!۔

ہندوستانی علماء ومحققین میں مولانا ابوسحبان روح القدس اور مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی مولانا کے بڑے قدردان تھے، مولانا کاندھلوی نے بستان المحدثین (شاہ عبدالعزیز) پر جو علمی وتحقیقی کام کیا ہے ، اس پر مولانا یحیٰ صاحب  سے مقدمہ لکھوانے کی شدید خواہش مند تھے ، مگر یہ نہ ہوسکا۔

مولانا کی ساری معلومات مجلسوں میں کھلتی تھی، وہ نہ مدرس تھے نہ واعظ اور مقرر، وہ خاموشی سے علم ومطالعہ میں لگے رہنے والے ، نہایت تحقیقی نظر رکھنے والے ایک عالمِ دین تھے اور  صرف مجلسی آدمی تھے۔

مولانا کا علمی ذوق نہایت غیر معمولی تھا، اس سلسلے میں ہم کیا کیا باتیں لکھیں، صرف ایک واقعے سے اس کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے، چار سال پہلے جب ندوے تشریف لائے تو ہم نے مولانا سے ذکر کیا کہ الاصابہ کا محقق نسخہ دس جلدوں میں شائع ہوا ہے (تحقیق شیخ عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی)اور ندوے کی لائبریری میں موجود ہے، مولانا پھڑک اٹھے، اور فوراً اس کے دیکھنے کا تقاضا کیا، ہم نے دکھایا، تو بے حد خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس کا فوٹولے لو ۔ ہم نے عرض کیا اتنی جلدوں کا کیا فوٹو لیں، ہم اصل نسخہ آپ کے لیے منگوادیں گے، فرمایا پتا نہیں تب تک ہم زندہ بھی رہیں گے یا نہیں، چناں چہ ان دسوں جلدوں کا فوٹو لیا، اور اپنے ساتھ ڈھوتے ہوئے لے گئے۔

أطراف الغرائب والأفراد للدارقطنی(تالیف ابن القیسرانی) کا ذکر آیا، ہم نے عرض کیا جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی لائبریری میں موجود ہے، کہنے لگے آپ کا بڑا احسان ہوگا اس کا فوٹو ہمیں بھجوائیے۔

کتابوں کی خرید اور فوٹو حاصل کرنے میں وہ بے تحاشا خرچ کرتے تھے، مگر ان کو سلیقہ سے رکھنے کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں تھی!۔

مولانا کے یہاں تشجیع اور ہمت افزائی بھی بہت تھی، ہماری کتاب ‘‘امام شافعی کا علمی مقام’’  جب مولانا کو پہنچی تو پڑھتے ہی ہمیں فون کیا اور بہت مبارک باد دی، اور فرمایاکہ ہندوستانی لوگ اس کی کیا قدر کریں گے، عربی میں اس کو منتقل کیجیے عرب اس کی قدر داں ہوں گے۔ اس بارے میں ہم سب جانتے ہیں عربی میں بھی ایسی کوئی کتاب نہیں! اور بہت سی باتیں اس سلسلے میں ہیں جن کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔

آج سے ستائیس سال قبل  جب ہم دارالعلوم ندو ۃالعلماء میں فضیلت اول کے طالب علم تھے، تو استاد محترم مولانا ابوسحبان روح القدس ندوی کی  زبانی ان کا ذکرِخیر پہلے پہل سنا تھا، مولانا کبھی دوران درس کسی مناسبت سے فرماتے تھے: مولانا یحیی ندوی ایک بڑے فاضل پرانے ندوی ہیں۔ پھر وہ بات آئی گئی ہوگئی، تقریباً پندرہ سال قبل جب مولانا ندوہ تشریف لائے تو ان سے پہلی دفعہ  ملاقات ہوئی اور ان کے فضل وکمال کی کچھ جھلکیاں ظاہر ہوئیں، اس موقع پر استاد محترم مولانا عبداللہ حسنی ندوی مرحوم نے فرمایا تھا : ، مولانا کو کئی کئی دن ندوے میں رہنا چاہیے اور علیا کے طلبہ اور اساتذہ کو ان سے مستفید ہونا چاہیے۔ اسی وقت سے ہمارا مولانا سے تعلق ہوگیا تھا، لیکن ان کے یہاں حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا۔ تقریباً آٹھ سال قبل جب دوبارہ تشریف لائے تو اس وقت حدیث کی عالی اجازتوں کے حصول کا ہمیں نیا نیا شوق پیدا ہوا تھا، ہم نے مولانا کے سامنے حدیث مسلسل بالأولیہ اور کتب ستہ کے اوائل پڑھ کر اجازت حاصل کی، اس وقت تک غالباً مولانا کی سند کی قیمت سے کوئی واقف نہیں تھا، پھر برادر عزیز مولوی سید طلحہ نعمت ندوی نے اجازت لی، چھ ساڑھے چھ سال پہلے ایک مناسبت سے شیخ خالد آل ثانی (قطر) کو ہمارے ذریعے سے اس کی اطلاع ہوئی، تو انھوں نے اس کو بہت غنیمت سمجھا، اور برادر معظم مولانا رحمت اللہ ندوی (مقیم قطر) کے ذریعے مولانا تک  رسائی حاصل کی اور بالاخر مولانا کو قطر کے سفر پر آمادہ کیا، مولانا تشریف لے گئے اور ان سے وہاں حدیث کی کچھ کتابیں پڑھی گئیں، پھر جلدی ہی ندوہ تشریف آوری پر ہم نے ان کی ایک مجلس حدیث انٹرنیٹ کے ذریعے نشر کی، اس کے بعد اس میدان کے شہسوار اور تازہ واردان سب ٹوٹ پڑے، اور مولانا سے اجازت حاصل کرنے کے لیے بے چین ہوگئے اور اس سلسلے میں مولانا کی شہرت چہار دانگِ  عالم میں پہنچ گئی۔

ندوے میں مولانا نے  بہت سے لوگوں کو اجازت دی ، جب کوئی طالب علم الگ سے کہتا تو مولانا ہماری طرف محول کرتے اگر مولانا فیصل کہیں تو ہم تم کو اجازت دیں گے، پھر جب نوواردانِ بساطِ اجازت کے رویے سے مولانا تنگ دل ہوئے تو اس معاملے میں سختی اختیار کی۔

مولانا کے مزاج میں بڑا استغنا تھا، مختلف ممالک کے لوگ مولانا کو بلاتے رہتے تھے پیسوں کی پیش کش کرتے تھے مولانا اس پر بگڑجاتے تھے، فرماتے تھے ہم ان عربوں کو جانتے ہیں ان کی غربت کا دور بھی ہم نے دیکھاہے اب پٹرول کی وجہ سے دولت آگئی ہے تو اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے، یہ ہم کو خریدنا چاہتے ہیں، ہم کسی کے ہاتھ میں نہیں بک سکتے، ہماری دولت چارسوسال سے ہے، یہ ہم کو کیا دیں گے!!

اس سب کے باوجود مولانا انتہائی متواضع تھے۔ سادگی کے پیکر، ان کے لباس، خدوخال، چال ڈھال اور ظاہری صورت حال سے نہ ان کے حسب نسب کا پتا چلتا، نہ دولت وثروت کا، نہ فضل وکمال کا۔ غرض وہ مختلف خصوصیات کے حامل اور بے نظیر شخصیت کے مالک تھے۔

 بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی

 وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

«
»

حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ: بحیثیت انسان

بدلتا ہندوستان اور مسلمانوں کا خوفناک مستقبل‎‎

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے